آؤ سائیں آؤ! رہنے کے لئے کمرہ
چاہئے، ملے گا ضرور ملے گا۔ میں تو سائیں اپنے پاکستانی بھائیوں کی خدمت کے
لئے ہی یہاں بیٹھا ہوں۔ دبئی بہت مہنگا شہر ہے۔ یہاں رہنے کو جگہ بہت مہنگی
ملتی ہے۔ اسی لئے جو بھی پاکستانی آئے سب میرے پاس بھیج دیتے ہیں۔ صاف
ستھرا ماحول، بھائیوں جیسے ساتھی اور میرے جیسا خدمت گار جو سب کا خیال
رکھتا ہے۔ سائیں دبئی میں اس قدر سستی اور پیسے کے اعتبار سے نہایت اعلیٰ
رہائش کہیں اور نہیں ملے گی۔ میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کوئی وقفہ آتا تب
ہی کہتا۔ اُس نے میرا بازو پکڑا اور کمرے کے اندر لے گیا۔ چھوٹا سا کمرہ
تھا۔ صاف ستھرا، کمرے میں تھوڑا سا راستہ چھوڑ کر دونوں طرف اوپر نیچے دو،
دو پلنگ لگے تھے۔ پلنگ کے پیچھے سامان اور کپڑے رکھنے کے لئے ایک الماری سی
تھی۔ کمرے سے آگے چھوٹی سی جگہ پر ایک ننھا منھا سا کچن اور ساتھ ہی واش
روم تھا اور یہ کچن اور واش روم ساتھ ساتھ جڑے ہوئے دو کمروں کے لئے تھا۔
ساتھ والے کمرے میں بھی اُسی طرح چار بیڈ اوپر نیچے لگے تھے۔ یوں چھوٹا سا
اپارٹمنٹ کل آٹھ بندوں کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ نوجوان مسلسل بولے جا رہا
تھا۔ سائیں اس جگہ پر آٹھ بندے رہتے ہیں۔ اسی بلڈنگ میں میرے دو اور فلیٹ
بھی ہیں۔ کل چوبیس دوست رہ سکتے ہیں اور میرا کیا ہے۔ کسی جگہ بھی پڑا رہتا
ہوں۔ کوئی ایک آدھ پلنگ خالی ہوتا ہے تو ٹھیک نہ بھی ہو تو کچن وچن میں گدہ
ڈال لیتا ہوں لیکن پاکستان سے جو بھائی بھی آئے اس کی خدمت ضرور کرتا ہوں۔
سارے بھائی تھوڑے تھوڑے پیسے ڈال کر سالن اور روٹی بھی تیار کر لیتے
ہیں۔یوں کھانا بھی بہت سستے میں مل جاتا ہے۔ کرایہ پورے مہینے کا فقط دو
ہزار درہم ہے۔ ہے نا سستا؟ یہ کہہ کر اُس نے مجھے آنکھ ماری اور ہنسنے لگا۔
اچھا اب تم بتاؤ کس فلائٹ سے آئے ہو؟ میں آج نہیں تین دن سے یہاں ہوں اور
فلاں ہوٹل میں ٹھہراہوں۔ ایک دوست سے ملنا ہے۔ پتہ چلا تھا کہ وہ اس بلڈنگ
میں شاید آپ ہی کے پاس رہ رہا ہے ۔ میں نے نام بتایاتو بولاہاں ہاں اپنا
بھائی ہے۔ یہ چھہ ) (6 نمبر بیڈ اسی کا ہے مگر ایک ماہ کے لئے گھر گیا ہوا
ہے۔ پندرہ بیس دن تک آئے گا۔یہ میری اور اُس کی پہلی اور شاید آخری ملاقات
تھی۔ کسی جاننے والے نے اپنا پتہ دیا ہوا تھا۔ سوچا دبئی آیا ہوں تو اُس سے
بھی مل لوں۔ یوں اس سے ملاقات ہو گئی۔
یہ دبئی کا ایک شاندار پلازہ تھا۔ باہر سے انتہائی خوبصورت۔ نیچے دکانوں کا
ایریا بھی بہت اچھا تھا مگر اوپر فلیٹ بس واجبی سے تھے۔ تنگ اور تاریک
راہداریاں۔ پاکستان کی طرح اگر یہاں بجلی نہ ہوتی تو گزارہ ممکن نہ تھا۔
کیونکہ کمرے بہت چھوٹے، نیچی چھتیں۔ ائر کنڈیشنر کے بغیر گزارہ دشوار ہی
نہیں ناممکن تھا۔ میری اپنے دوست سے ملاقات تو نہ ہو سکی مگر یہ شخص دلچسپ
لگا۔ گپ شپ کے لئے میں اس کے پاس بیٹھ گیا اور اُس سے اُسی کے متعلق پوچھنے
لگا کہ کہاں سے تھا او ریہاں کیوں آیا؟ روزگار کی تلاش تھی۔ اُس کے جوابات
بھی بہت دلچسپ تھے۔ وہ گھوٹکی سندھ کا رہنے والا تھا۔ روزگار کا بھی کوئی
مسئلہ نہیں تھا مگر اُسے ڈر تھا کہ وڈیرا اُسے مروا دے گا۔ اس لئے جان
بچانے کی خاطر دبئی آگیا تھا۔ میرے پوچھنے پر بتانے لگا کہ اُس نے ایم اے
کیا ہوا ہے۔ گھوٹکی کے قریب اُس کا گاؤں تھا۔ اُسے پڑھنے کا شوق تھا۔ میٹرک
کے بعد وہ پڑھنے کے لیے جنگل میں چلا جاتا اور کسی گھنے سایہ دار درخت کے
نیچے بیٹھ کر پڑھتا رہتا۔ اس علاقے کے بہت سے ڈاکو اُس جنگل میں مقیم تھے
اور وہ بھی اُسے پڑھتا دیکھ کر کچھ نہیں کہتے تھے۔ بلکہ اُس کے دوست بن گئے
تھے۔ ایم اے کرنے کے بعد اُس نے نوکری کرنے کی بجائے لوگوں کی خدمت شروع کر
دی۔ ڈاکو کسی شخص کو یا کسی شخص کی ماں، بہن، بیوی یا بیٹی کو اغوا کر کے
لے جاتے تووہ لوگوں کے لئے ڈاکوؤں کے پاس چلا جاتا۔ بس تھوڑے سے پیسوں میں
ڈاکوؤں سے بات چیت کے بعد اُن کا مسئلہ حل کروا دیتا۔بتانے لگا کہ ایک روز
ایک گھر میں بارات آئی تو عین اسی وقت ڈاکو آئے اور دلہن کو اٹھا کر لے گئے۔
ڈاکو کسی عورت کو لے جائیں تو دس پندرہ دن سے پہلے نہیں چھوڑتے۔ میں نے بات
چیت کی اور صرف دو لاکھ میں گھر کو دلہن واپس لا کر دے دی اور وہ بھی فقط
تین دن میں۔ اگر پولیس سے بات کرتے تو وہ دس لاکھ لے کر پندرہ دن میں دلہن
کو واپس لاتی۔ وڈیرا بھی پانچ، چھ لاکھ سے کم نہ لیتا۔ ڈاکوؤں کو سب نے دو
لاکھ ہی دینا تھا۔ باقی اُن کے اپنے پیسے تھے۔ مگر میں جو ڈاکو مانگتے وہی
انہیں بتاتا۔ وہ خوش ہو کر جو مجھے دے دیتے بہت کافی تھا۔ مہینے میں پانچ
چھہ لوگوں کو بھی چھڑا کر لے آتا تو دو، تین لاکھ روپیہ مجھے بھی مل جاتا۔
میرے جیسے بندے کے لئے یہ بہت بڑی رقم تھی۔ لالچ تو کبھی ختم نہیں ہوتا۔مگر
دوست تم دبئی کیسے آئے؟ پولیس اور وڈیرے دونوں کو جب پتہ چلا کہ میں اُن کی
آمدن کا دشمن ہوں۔ انہوں نے مجھے کسی بھی معاملے میں آنے سے منع کیا۔ مگر
سائیں کیا کرتا۔ کوئی نہ کوئی غریب آدمی فریاد لے کر آجاتا اور مجھے مجبوراً
اُس کی مدد کرنا پڑتی۔ ایک دن مجھے کچھ ڈاکو دوستوں نے ہی بتایا کہ وڈیرا
اور پولیس ملی بھگت سے مجھے ختم کرنا چاہتے ہیں تو پہلے بھاگ کر کراچی چلا
گیا مگر کراچی میں بھی خطرہ تھا۔ اس لئے یہاں آگیا۔ اب بڑے سکون سے ہوں۔ آپ
جیسوں کی خدمت کر رہا ہوں۔ اس خدمت میں کم از کم جان کا خطرہ تو نہیں۔
میں نے اس سے وعدہ کیا کہ آئندہ دبئی آیا تو کچھ دن اس کے پاس بھی ٹھہروں
گا۔ وہ مجھے نیچے تک چھوڑنے میرے ساتھ چل پڑا۔پتہ نہیں کیا سوچ کر اچانک
میں نے سوال کیا کہ کیا سندھ کے دیہی کلچر میں اغواء شدہ عورت کو آسانی سے
قبول کر لیا جاتا ہے یا پھر اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ یکدم اُس کے
ہنستے چہرے پر اُداسی اُبھر آئی۔ کچھ آنسو اُس کی آنکھ میں چمکنے لگے اور
بولا۔ کرتا ہے کیوں نہ کرے گا۔اس میں عورت کا کیا قصور ہے۔ کمزور تو مرد ہے،
معاشرہ ہے سماج ہے حکومت ہے۔میرے گاؤں میں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہوگا جن
کی ساری عورتیں ڈاکوؤں سے محفوظ رہی ہوں۔ غریب لوگ ہیں، کچھ نہیں کر سکتے۔
یہ ظالموں کو بد دعا بھی چھپ کر دیتے ہیں کہ جسے دے رہے ہیں وہ ناراض نہ ہو
جائے۔ عورت تو جنگل میں رہنے والے ڈاکوؤں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔وہ اپنی
ضرورت کو اغوا کرتے ہیں۔ وڈیرے کو پتہ چلے کہ کسی کے پاس پیسے ہیں یا کسی
کو خراب کرنا چائے تو خود ڈاکو بھجوا دیتا ہے۔ یہ تو وہاں کے وڈیروں کا
کاروبار ہے۔اپنے گھر کی عورتوں کو ہم ہی قبول نہیں کریں گے تو کیا کریں گے؟
گاؤں میں ایسی عورت کہاں سے ملے گی جو کبھی اغواء نہ ہوئی ہو۔ ہمارے لئے تو
وڈیرا، ڈاکو اور پولیس سب ایک ہیں۔ نام کا فرق ہے۔ طریقہ واردات کا فرق ہے۔
مرد کیا اور عورت کیا ،سبھی ان کے کھلونے ہیں۔ جو اُن کے خلاف بولتا ہے مار
دیا جاتا ہے یا دوسروں کے لئے عبرت کا نشان بنا دیا جاتاہے۔ خوش قسمتی سے
اگر بچ نکلے تو شہر بھاگ جاتا ہے۔ کسی دوسرے ملک چلا جاتا ہے۔ اپنی مٹی سے
بے پناہ انس کے باوجود، اپنے پیاروں سے نہ ختم ہونے والے پیار کے باوجودان
سے مل نہیں سکتا،رابطہ نہیں رکھ سکتا بس دوسروں کے ساتھ ہنس کھیل کر اپنا
غم چھپاتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھرا گئی۔ یکدم وہ گھوما اور مجھے
خداحافظ کہے بغیر تیزی سے واپس لوٹ گیا۔ |