ابھی چند ماہ قبل جو پشاور
میں سکول پر حملہ ہوا اسی کے صدمے سے ہم نکل نہیں سکے کے کل نظر سے ایک اور
دل دکھانے والی خبر گزری خبر یہ تھی کہ ڈیرہ غازی خان میں ایک سکول پر دہشت
گردوں نے حملہ کیا ہے ۔ہمارا ملک ان دنوں بہت مشکل وقت سے گزر رہا ہے ہر
طرف بد امنی پھیلی ہوئی ہے ۔ کہیں ہمارامعاشی طور پر قتل کیا جا رہا ہے تو
کہیں ہمارامعاشرتی قتل کیا جا رہا ہے اور کہیں ثقافتی قتل کیا جا رہا ہے
مگر ان تمام سے زیادہ نقصان ہمارے علم طور پر قتل کا ہے نہ تو ہمارے سکول
محفوظ ہیں نا ہی ہمارے اساتذہ ۔
ہمارے سکول تو وہ ہوتے تھے کہ جن کے باہر اور اندر پھلوں کی کیاریاں ہوتیں
تھی اور کلاسرومز میں پھلوں کی طرح کے بچے ہوتھے تھے مگر آج ہمارے ملکی
حالات کی وجہ سے سکولز کسی چھاؤنی کا منظر پیش کر رہے ہیں جس کے باہر بنکر
بنے ہوئے ہوں کیوں کے آئے دن سکولوں اور اساتذہ پر حملے ہو رہے ہیں ایک
منظم سازش کے تحت ہم لوگوں سے علم کی روشنی چھینی جا رہی ہے تا کہ یہ
معاشرہ اندھیروں اور جہالت کا شکار ہو جائے اور اگر ہمارا معاشرہ مزید
جہالت کا شکار ہو گیا تو ہمیں کسی داعش، یا طالبان کی ضرورت نہیں ہے ہم خود
ہی اپنے آپ کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہیں ۔
علم تو ایک ایسی روشنی ہے جس کی وجہ سے ہر زمانہ میں سیاہ رات کا خاتمہ ہوا
ہے اسی لئے ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے پہلا پیغام جو دیا وہ
کیا تھا وہ تھا کہ ’’ اقراء‘‘ یعنی پڑھ اور نبی کریم ﷺ نے بھی اپنے ماننے
والوں کو بھی فرمایا ’’ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے‘‘ آپ
کی ساری زندگی آپ کے اقوال آپ کے افعال علم کی روشنی کو پھیلانے کی اہمیت
کو واضع کرنے والے ہیں اسلام میں استاد کی کتنی اہمیت ہے اس بات کا اندازہ
حضرت مولا علیؓ کے ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار آپ نے فرمایا
کہ ’’ جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا ‘‘
دنیا میں بہت سے ایسے لوگ آئے ہیں جنہوں نے کہ دنیا کے تاریخ پر ایسے نقوش
چھوڑے ہیں جن کو رہتی دنیا تک کوئی بھی مٹا نہیں سکتا ہے انہیں میں سے ایک
سکندر اعظم تھا ایک عظیم الشان فاتح سکندر اعظم ساری کی ساری زندگی اپنے
استاد ارسطو کی تعریف میں رطب اللسان رہا سکندر اعظم اپنے استاد کے بارے
میں کہتا تھا کہ ’’ ارسطو زندہ رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہو جائیں گے
مگر ہزاروں سکندر مل کر ایک ارسطو کو جنم نہیں دے سکتے‘‘ ایک موقعہ پر اپنے
استاد کے حوالہ سے کہتا ہے کہ ’’ میرا باپ وہ تھا جو مجھے آسمان سے زمین پر
لایا مگر میرا استاد وہ عظیم بزرگ ہے جو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا ۔پروفیسرڈاکٹر
عبد السلام جن کا تعلق پاکستان سے تھا جنہوں نے فزکس میں نوبل انعام حاصل
کیا اپنے اساتذہ کا از حد احترام کرتے تھے۔ نوبل انعام حاصل کرنے کے بعد جب
وہ دسمبر1979 ء میں پاکستان آئے تو حکومت کی طرف سے اسلام آباد میں۔ ایک
تقریب منعقد کی گئی جس کی صدارت جنرل ضیاء الحق نے کی ڈاکٹر عبدالسلام کی
خواہش پر ان کے پرائمری سکول کے استاد شیر افضل جعفری کو بطورِ خاص مدعو
کیا گیا۔ اس طرح کلکتہ یونیورسٹی کی طرف سے دیا جانے والا تمغہ اس شرط پر
قبول کرنے کا وعدہ کیا کہ ان کے کلکتہ میں مقیم علم الحساب کے استاد گنگولی
صاحب کی عزت افزائی کی جائے گی۔ چنانچہ ان کی خواہش پر کلکتہ یونیورسٹی کے
وائس چانسلر ڈاکٹر آر ۔کے۔پڈار صاحب ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ ان کے گھر گئے اور
انہیں تین ہزار روپے کا چیک اور سند پیش کی جو ان کی درس و تدریس کی خدمات
کے اعزاز میں تھی۔
مگر آج ہم اپنے اساتذہ کو عزت دینے میں نا کام ہیں کبھی ہمارے اساتذہ اپنی
زندگی کی چکی چلانے اورحقوق کی جنگ لڑنے میں سڑکوں پر موجود ہوتے ہیں یا
کبھی قتل کردئے جاتے ہیں ہیں ہم لوگ ناکام ہیں اور نا کام بھی کیوں نا ہوں
کیوں کے آئے دن کسی نا کسی استاد کو مار دیا جاتا ہے نا ہمارے کانوں پر جو
رینگتی ہے نا ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے
اساتذہ ۔ سکالرز،پروفیسرز کا قتل ہو رہا ہے مگر ہم ان کو بچانے میں ناکام
ہیں چند دن قبل بلوچستان کے ماہر تعلیم پروفیسر عبدالرزاق زہری کو قتل
کردیا گیا اس سے قبل جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کو قتل کردیا
گیا یہ محض ایک دو اشخاص کا قتل نہیں بلکہ کئی طلباء کو تعلمی یتیم بناگیا
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم لوگ دنیا میں کامیاب ہوں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم
تعلیم کی طرف توجہ دیں اپنے سکولز اپنے اساتذہ اپنے طلباء کو عزت،قدر اور
امن دیں اگر ہم تعلیم کے لئے قربانیاں دیں گے تو، کئی معین نوازش،
ملالہ،ڈاکٹر عطاء الرحمان، پروفیسر ہود بھائی،ڈاکٹر عبدالسلام،چوہدری ظفر
اﷲ خان، جسے وجود پیدا ہوں گے اگر ہم تعلیم کے اس چراغ کو روشن نا کر سکے
اور ان چراغوں کے پاسبانوں یعنی اساتذہ کو نا بچا سکے تو ہر طرف
داعش،طالبان ہی نظر آئیں گے۔ |