کسی نے کیا ہی پیاری بات کی ہے
کہ جہالت کے سمندر سے علم کا ایک قطرہ بہتر ہے ۔ علم وہ نور ہے جس کی مدد
سے ہم ہر ظلمت کا سینہ چیر کر فتح و کامیابی کی روشنی تک جا سکتے ہیں تاریخ
اس بات کی شاہد ہے کہ جب تک مسلمانوں نے اپنے آپ کو علم کی میراث کا وارث
بنائے رکھا دنیا میں انہوں نے عزت کمائی مگر جیسے ہی یہ علم کی دولت اور یہ
کتب کے خزانے مغرب منتقل ہوئے ہم پستی میں آگئے اورمغرب نے دن دوگنی رات
چوگنی ترقیات حاصل کرلیں۔
کسی بھی ملک یا ملت کی ترقی کا انحصار تعلیم پر ہوتا ہے۔ آج کے اس پر آشوب
دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت حاصل کر چکی ہے۔ حلانکہ کہ آج کا دور
کمپیوٹر کا دور ہے ۔ ایٹمی ترقی کا دور ہے مگر سکولوں میں بنیادی عصری
تعلیم ۔ ٹیکنکل تعلیم ۔ انجینئرنگ کی تعلیم ۔ وکالت ۔ڈاکٹری اور مختلف جدید
علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی جزو بن چکا ہے ۔
اور میری اس تعلیم کی مراد دنیاوی تعلیم اور دینی تعلیم ہے کیوں کہ دنیاوی
تعلیم کی وجہ سے ہم لوگ دوسری اقوام کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور دینی تعلیم
اس لئے ضروری ہے کیوں کہ یہ ہماری سوچ اور تہذیب کا محور ہے ۔
ا س کے ساتھ ساتھ انسان کو انسانیت سے دوستی کے لئے اخلاقی تعلیم بھی ضروری
ہے اسی تعلیم کی وجہ سے زندگی میں خدا پرستی،عبادت، محبت ،خلوص، ایثار،خدمت
ِ خلق ، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اور اخلاقی تعلیم کی
وجہ سے ہی نیک اور صالح معاشرہ کی ہی بنیاد پڑھتی ہے ۔
تعلیم کا یہ سفر اگر دیکھا جائے تو انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو
جاتا ہے اور جب تک وہ مرتا نہیں ہے جاری رہتا ہے اور جاری رہنا بھی چاہیے
کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا ماں کی گود انسان کی پہلی درس گاہ ہے اور
آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ پنگھوڑے سے لے قبر کی لحد تک علم حاصل کرو۔ اور
علم کو حاصل کرنا کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض قرار دیا ہے ۔
دنیا کے نقشہ پر ہمیں وہی اقوام آج پوری شان کے ساتھ حکمرانی کرتی ہوئی
دیکھائی دیتی ہیں ہیں جنہوں نے علم کا اپنا نصب العین بنادیا تھا اس وقت
ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں تعلیم کی شرح 100 فیصد تک ہے اس کا مطلب یہ ہے
کہ سو فیصد لوگوں نے کم از کم پہلے بارہ برس تعلیم حاصل کی ہے مگر اس کے
مقابلہ میں مسلمانوں کی مجموعی صورتحال پر اگر ہم نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے
ہیں کہ مسلمان ممالک میں تعلیم کی شرح بلحاظ مجموعی چالیس فیصد سے بھی کم
ہے ۔ پاکستان کے اندر یہ شرح افسوس ناک حد تک کم ہے ۔ واضع رہے کہ یہ جو
چالیس فیصد تک بھی شرح بتائی جاتی ہے اس میں یہ نہیں کہ میٹرک پاس یا ایف۔
اے پاس افراد شامل ہیں بلکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جوکہ اردوزبان کے
دوچار الفاظ الفاظ بھی پڑھ سکتے ہوں یا اپنا نام بھی لکھ سکتے ہوں تعلیم
یافتہ شمار کیئے جاتے ہیں۔
اگر ترقی یافتہ ممالک کے معیار کو سامنے رکھا جائے پاکستان کی شرح تو شاید
دس فیصد سے بھی آگے نا جا سکے تو ایسی صورتحال میں پاکسان کیسے ترقی کر
سکتا ہے ۔مغربی ممالک اورمسلم ممالک میں اس فرق کا آغاز1140 میں ہوا جب جب
جرمنی میں گٹن برگ نے چھاپا خانہ ایجاد ایجاد ہوا اس ایجاد کے ساتھ ہی یورپ
میں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں شائع ہونے لگیں اور اگلی ہی دو سے تین
صدیوں میں ہی لوگ 80 فیصد سے زیادہ خواندہ ہو گئے اور یہ چھاپہ خانے ساڑھے
تین سوبرس کے بعد بعد کہیں جا کر مسلم ممالک میں پہنچے اور پہلا پریس1730
میں ترقی میں لگا تاہم اسوقت بھی پریس کو ایک شیطانی آلہ سمجھاجاتا تھا ۔
اور ترکی کے ہی ایک عالم نے یہ پابندی لگائی کہ اس پریس میں مذہبی کتب نہ
چھاپی جائیں۔
اور برصغیر میں کچھ افراد نے ہی اپنے بل بوتے پر تعلیم کے لئے کچھ کیا ہو
تو کیا ہو مگر اس دور کے مغل حکمرانوں نے تو کچھ بھی نہیں کیا وہ تو
محلات،مقبروں،یادگاروں،قلعوں،اور باغات تعمیر کرنے میں مصروف تھے جبکہ مغرب
پوری توانائیوں میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعمیر میں مشغول تھا اور ان
کے سب یہ کارنامے تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔
اور آج بھی ہم تعلیم کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکے ہم اپنے بچوں کو ایک جیسا
نظام تعلیم دینے میں ناکام ہیں امیر کے لئے اور نظامِ تعلیم ہے اورغریب کے
لئے اور ہم اپنی آنے والی نسل کے لئے وہ مواقع پیدا کرنے میں ناکام ہیں کہ
ان موقعوں کو فائدہ اٹھا کر ہماری نسلیں آگے بڑھیں۔ نا ہم نظام تعلیم بہتر
کر سکے اور نا ہی اپنی اساتذہ کے معارے تعلیم کو بلند کر سکے جو اقوام علمی
لحاط سے جاگتی ہیں تو ہی ترقی کرتی ہیں اسی لئے تو رابرٹ فراست نے کیا خوب
کہا تھا۔
i m not a teacher but an awaakener
میں پڑھتا نہیں جگاتا ہوں ۔ بلا شبہ آج ہمیں بھی علمی طور پر جگنے اور
جگانے والوں کی اشد ضرورت ہے ۔
|