طالبِ مولیٰ
(Hamid Jamil, Gujranwala)
دِل میں کسی خاص چیز کے حصول کی
خواہش اور ارادہ کا نام طلب ہے، اور حصولِ طلب کا جذبہ دِل میں ہی پیدا
ہوتا ہے۔ جو انسان اپنے دِل میں اللہ تعالیٰ کی پہچان ، دیدار اور معرفت کا
ارادہ کر لیتا ہے تو اس کی خواہش کو'' طلبِ مولیٰ '' اور اسے طالبِ مولیٰ
یا ارادت مند کہتے ہیں، جسے عام طور پر سالک ، طالب یا مرید کے نام سے بھی
موسوم کیا جا تا ہے۔
دنیا میں تین قسم کے انسان یا انسانوں کے گروہ پائے جاتے ہیں:
1.
طالبانِ دنیا :
جو انسان اپنے علوم وفنون ، کمالات اور کوشش و کاوش دنیا کو حاصل کرنے کے
لیے استعمال کرتے ہیں اور اُسے ہی اپنی زندگی کا مقصد قرار دیتے ہیں۔ حتیٰ
کہ ان کا ذکر فکر ، عبادات وریاضت، چلہ کشی، ورد و وظائف کا مقصد بھی
دنیاوی مال ومتاع کا حصول یا اس میں اضافہ ہے۔ دنیاوی آسائش کے حصول اور
دنیاوی ترقی و عزّوجاہ کو وہ کامیابی گر دانتے ہیں۔
2.
طالبانِ عقبیٰ:
جن کا مقصود آخرت کی زندگی کو خوشگوار بنانا ہے ۔ ان کے نزدیک نارِ جہنم سے
بچنا اور بہشت، حورو قصور اور نعمت ہائے بہشت کا حصول ہی اصل کامیابی ہے۔
اس لیے یہ عبادت ، ریاضت ، زہد و تقویٰ، صوم و صلوٰۃ، حج ، زکوٰۃ، نوافل ،
ذکر اذکار اور تسبیحات سے آخرت میں خوشگوار زندگی کے حصول کی کوشش کرتے ہیں
ان کے نزدیک یہی زندگی کا مقصدہے۔
3.
طالبانِ مولیٰ:
جن کی عبادات اور جدو جہد کا مقصود صرف دیدارِ حق تعالیٰ اور اُس کا قُرب و
وصال ہے۔ یہ نہ تو دنیا کے طالب ہوتے ہیں اور نہ بہشت حورو قصور اور نعمت
ہائے بہشت کے۔ ان کا مقصد ذاتِ حق تعالیٰ ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے
طالب اور عاشق ہوتے ہیں ۔ اس طلب کے لیے یہ دونوں جہانوں کو قربان کر دیتے
ہیں اور دنیاوعقبیٰ کو ٹھکرا کر ذاتِ حق کے دیدار کے متمنی رہتے ہیں۔
''عارفین ہمیشہ طالبِ مولیٰ بننے کی تلقین کرتے ہیں''
ان تینوں گروہوں کو اس حدیث قدسی میں بیان کیا گیا ہے:
طالب الدنیا مخنث و طالب العقبیٰ مونث و طالب المولیٰ مذکر
ترجمہ: دنیا کا طالب (مخنّث) ہیجڑہ ہے' عقبیٰ کا طالب (مؤنث) عورت ہے اور
طالب مولیٰ مذکر(مرد) ہے۔
سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مرد مذکرّ کِسے کہتے ہیں؟ مرد مذکرّ وہ ہے جس کے دِل میں بجز طلبِ مولیٰ
اور کوئی طلب ہی نہ ہو۔ نہ دنیا کی طلب ، نہ زینتِ دنیا کی طلب ،نہ حورو
قصور کی طلب،نہ میوہ و براق کی طلب اور نہ لذتِ بہشت کی طلب کہ اہلِ دیدار
کے نزدیک یہ سب کچھ فضول اور بے کار چیز یں ہیں کیونکہ اِن کے دِلوں میں
اسمِ اللہ ذات نقش ہے اور یہ یومِ اَلست ہی سے اسمِ اللہ ذات کی مستی میں
غرق چلے آرہے ہیں اور جن لوگوں نے اسمِ اللہ ذات کو اپنا جسم وجان بنالیا
وہ دونوں جہان میں غم والم سے آزاد ہوگئے۔(عین الفقر)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے طلبِ مولیٰ کے بارے میں فرما یا ہے:
من طلبَ شی ءََ فلا تجدہ خیرََا و من طلب یلمولیٰ فلہ الکل
ترجمہ: جو شخص کسی چیز کی طلب کرتا ہے وہ اس میں کبھی بھلائی نہیں پاتا اور
جو شخص مولیٰ کی طلب کرتا ہے اُس کے لئے سب کچھ ہے۔
من طلب الدنیا فلہ الدنیا ومن طلب العقبیٰ فلہ العقبیٰ من طلب المولیٰ فلہ
الکل
ترجمہ:جودنیا طلب کرتاہے اُسے دنیا مِلتی ہے جو عقبیٰ(آخرت)کا طلبگار ہوتا
ہے اُسے عقبیٰ ملتی ہے اور جو مولیٰ کی طلب کرتا اُسے سب کچھ ملتا ہے۔
الدنیا حرام علیٰ اھل العقبیٰ والعقبیٰ حرام علیٰ اھل الدنیا و الدنیا و
العقبیٰ حرام علیٰ طالب مولیٰ ۔ من لہ المولیٰ فلہ الکل ۔
ترجمہ: دنیا اہلِ عقبیٰ پر حرام ہے۔ عقبیٰ اہلِ دنیا پر حرام ہے اور طالبِ
مولیٰ پر دنیا و عقبیٰ دونوں حرام ہیں جسے مولیٰ مل گیا سب کچھ اسی کا
ہوگیا۔
اجسامھم فی الدنیا و قلوبھم فی الاخرتِ الصلوٰت الدائمون یصلون فی قلوبھم
ترجمہ: اِن کے اجسام دنیا میں اور اِن کے دِل آخرت میں ہیں وہ دائمی نماز
دِل میں ادا کرتے ہیں۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :-
من کان للہ کان اللہ لہ
ترجمہ:''جو اللہ کا ہوگیا اللہ اس کا ہوگیا''
طلب الخیر طلب اللہ و ذکر الخیر ذکر اللہ
''بہترین طلب اللہ تعالیٰ کی طلب ہے اور بہترین ذکر اللہ ' (یعنی اسم اللہ
ذات ) کا ذکر ہے۔''
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرما ن ہے :
''میں اللہ تعالیٰ کی عبادت جنت کی طلب یا دوزخ کے خوف سے نہیں کرتا بلکہ
میں اللہ کی عبادت اس لیے کرتا ہوں کیونکہ وہی عبادت کے لائق ہے۔''
حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے کانوں
سے حضرت فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ کو یہ فرماتے سنا کہ'' طالبِ دنیا
رسوا اور ذلیل ہوتا ہے ۔''( باب 10تذکرۃُ الاولیاء)
غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ طالبِ مولیٰ کے بارے
میں فرماتے ہیں :
''دنیا کے طالب بہت ہیں اور عقبیٰ کے کم اور طالبِ مولیٰ بہت ہی کم ہیں
لیکن وہ اپنی کمی اور نایابی کے باوجود اکسیر کا حکم رکھتے ہیں ان میں
تانبے کو زرِّ خالص بنانے کی صلاحیت ہے ۔ وہ بہت ہی شاذو نادر پائے جاتے
ہیں ۔وہ شہروں میں بسنے والوں پر کو توال مقرر ہیں ۔ ان کی وجہ سے خلقِ خدا
سے بلائیں دور ہوتی ہیں انہی کے طفیل اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل کرتا
ہے ۔ اور انہی کے سبب زمین قسم قسم کی اجناس اور پھل پیدا کرتی ہے ۔ابتدائی
حالت میں وہ شہر در شہر اور ویرانہ در ویرانہ بھاگتے پھرتے ہیں ،جہاں
پہچانے جائیں وہاں سے چل دیتے ہیں پھر ایک وقت آتا ہے کہ ان کے ارد گرد
خدائی قلعے بن جاتے ہیں ۔الطافِ ربانی کی نہریں انکے دلوں کی طرف جاری ہو
جاتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا لشکر انہیں اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے ۔وہ مکرم
و محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اب خلقت پر توجہ کرنا ان پر فرض ہو جاتا ہے اوروہ
طبیب بن کر مخلوقِ خدا کا علاج کرتے ہیں لیکن یہ تمام باتیں تمہاری عقل اور
فہم سے بالا تر ہیں ۔(الفتح الربانی)
شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''معرفتِ الٰہی کے قابل وہ شخص ہے جس کی ہمت بلند ہو یعنی نہ وہ دنیا کا
طالب ہو نہ آخرت کا طالب بلکہ محض حق تعالیٰ کی ذات کا طالب ہو۔(شرح فصوص
الحکم والایقان)
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے کلام میں جابجا طالبِ مولیٰ سے خطاب کیا
گیا ہے اور عبادت کے بدلے میں کسی جزا اور اجر کی تمنا رکھنے کو آپ رحمتہ
اللہ علیہ نے سوداگری قرار دیا ہے اور ہر عمل اور عبادت صرف بے غرض ہو کر
اللہ تعالیٰ ہی کے لیے کرنے کی تلقین فرمائی ہے:
سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
واعظ کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر
جاوید نامہ میں آپؒ مُلاّ (طالبِ عقبیٰ) اور عاشق کی جنت کا فرق بیان کرتے
ہوئے فرماتے ہیں:
مرد آزیدے کہ داند خوب و زشت
می نگنجد روح او اندر بہشت
جنت ملا مے و حور و غلام
جنت آزادگان سیر دوام
ترجمہ:
1. ایک طالبِ مولیٰ ( عاشق) کی روح جو کہ محبوبِ حقیقی کے لیے تڑپ رہی ہوتی
ہے' بہشت میں نہیں سماسکتی۔
2. مُلاّ (طالبِ عقبیٰ)کی جنت تو شرابِ طہور حوروغلمان والی جنت ہے اور
عاشقوں کی جنت ہمیشہ سیرِ دوام (دیدارِ حق) میں مصروف رہنا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنی تصانیف میں تمام
گفتگو طالبانِ دنیا' طالبانِ عقبیٰ اور طالبانِ مولیٰ کے معاملات پر کی ہے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی نگاہ میں عوام طالبانِ دنیا ہیں' خواص یعنی علماء'
عابد' زاہد اور متقی پرہیزگار طالبانِ عقبیٰ ہیں اور خاص الخاص لوگ انبیاء
و اولیاء کرام ، صدیقین اور صالحین طالبانِ مولیٰ ہیں۔
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
جاننا چاہیے کہ طالبِ اللہ کے لیے فرضِ عین ہے کہ پہلے مرشد کامل کی تلاش
کرے خواہ اسے مشرق سے مغرب اور قاف سے قاف تک ہی کیوں نہ ڈھونڈنا پڑے۔ ناقص
مرشد تقلیدی ہوتا ہے لیکن کامل مرشد کی ابتدا اور انتہا ایک ہوتی ہے اسے
سلک سلوک کا تصور ، قرب مع اللہ کی معرفت، تجلّیاتِ ذات کے نور کا مشاہدہ
اور حضور کی جانب سیدھی راہ حاصل ہوتی ہے اور ناقص مرشد جس قدر زیادہ مرید
کرتا ہے اتنا ہی دنیا اور آخرت میں زیادہ بے عزت اور خوار ہوتا ہے اور
معرفتِ پروردِگار کے قرب سے محروم اور خراب ہوتا ہے۔(قربِ دیدار)
آپ رحمتہ اللہ علیہ طالبِ مولیٰ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
طالبِ حق ہمیشہ حق کے ساتھ آتا ہے اور حق ہی کے ساتھ جاتاہے، وہ دنیا کے
باطل اور غیر ماسویٰ اﷲ کی طرف ہرگز متوجہ نہیں ہوتا۔ (کلید التوحید کلاں)
طالبِ مولیٰ کے معنی کیا ہیں؟ دِل کا طواف کرنے والا اہلِ ہدایت' جس کے دِل
میں صدق ہو' جیسے حضرت ابوبکر صدیقؓ صاحبِ صدق' جیسے حضرت عمرؓ بن خطاب
صاحبِ عدل' جیسے حضرت عثمانؓ صاحبِ حیا' جیسے حضرت علی المرتضیٰؓ صاحبِ غزا
(جہاد کرنے والا) و صاحبِ رضا'جیسے سرتاجِ انبیاء و اصفیاء خاتم النبیین
امین رسول رب العالمین' صاحبِ شریعت و السِرّ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وآلہٖ وسلم۔ کیونکہ طالبِ مولیٰ مذکر ہوتا ہے۔ (عین الفقر)
جب تک طالب ‘‘ موتوا قبل ان تموتوا ‘‘ مرنے سے پہلے مر جاؤ'' کے مراتب کو
نہیں پہنچتا ۔ وہ محرمِ اسرار ہی نہیں ہوتا اور جو طالب بے جمعیت اور دنیا
کا طالب ہے وہ ہمیشہ خوار ہے۔ طالبِ عقبیٰ اور حورو قصور کے طالب بے شمار
ہیں۔ ہزار میں سے ایک طالبِ مولیٰ ایسا ہوتا ہے جو مرشد دلدار کے موافق
ہوتا ہے اور لائق حضور پروردِ گار ہوتا ہے۔ جو طالب معرفتِ مولیٰ اور وصال
کا طلب گارہے اس کو چاہیے کہ وہ سارا مال اُس کے حصول میں خرچ کر دے۔(تیغِ
برہنہ)
طالبِ مولیٰ کے لیے فرضِ عین ہے کہ مرشد سے صراطِ مستقیم کی تلاش کرے اور
زر و مال و نقد و جنس اور گھر بار اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دے ۔ جس طرح
کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت ہے۔(قربِ دیدار)
جان لے کہ صاحبِ صدق طالب جان سے بھی زیادہ پیارا اور عزیز ہوتاہے اور
جھوٹا طالب جان کا دشمن مثلِ شیطان ہے بلکہ شیطان سے بھی بد تر ہے کیونکہ
شیطان تو لاحول پڑھنے سے بھاگ جاتا ہے لیکن یہ سو مرتبہ لاحول پڑھنے سے بھی
نہیں بھاگتا بلکہ جان لے لیتا ہے۔(قربِ دیدار)
باھو گر طالب صادق چو مرشد را ز بر
می رساند طالبان را با نظر
ترجمہ: اے باھو( رحمتہ اللہ علیہ) ! اگر صادق طالب نے مرشد کو قبول کر لیا
تو کامل مرشد طالبوں کو ایک نظر میں منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔
اے راہِ حق کے طالب اس بات کو جان لے کہ دنیاوی عزت و مرتبے کا طالب حقیر
مرد، ہیجڑا اور بے مقصود ہے اور عاقبت کا طالب مجذوب اور عاقبت مردود ہے
لیکن محبوب طالب کی عاقبت محمود ہے۔ (قربِ دیدار)
طالبِ اللہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک مردوا دوسرا غازی، مردوا وہ جودِن رات
اللہ تعالیٰ کے دشمنوں یعنی نفس و شیطان سے لڑائی کرتا رہے۔ اور غازی مرد
وہ جو اسم اللہ ذات کے تصور کی تلوار سے اغیار کاسرتن سے جد ا کر دے اور
لڑائی سے بے کھٹکے ہوجائے۔ مطلب یہ کہ'' استقامت عبادت سے بڑھ کر
ہے۔''(امیر الکونین)
طالب کو چاہیے کہ عمارتِ قالب یعنی جسم کو معیشت تصور کرے اور اپنے اقوال و
افعال ، حرکات و سکنات، کھانے پینے اور سونے جاگنے یعنی ہر حال میں اللہ کے
ساتھ رہے۔ ''
کما قال اللہ تعالیٰ ‘‘ وھو معکم این ما کنتم واللہ بما تعلمون بصیر۔
(الحدید۔۴) ترجمہ:جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ''تم جہاں کہیں بھی
ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے اور اللہ تمہارے تمام اعمال کو دیکھ رہا ہے۔(سلطان
الوھَم خورد)
طالب کس کو کہتے ہیں؟اَلطَّالِبُ
الطالب ھو المستغنی عن الدنیا وما فیھا
(ترجمہ:طالبِ مولیٰ دُنیا اور دُنیا کی ہر چیز سے مستغنی اور بے نیاز ہوتا
ہے) اور
الطالب ھو المستغنی عن ذاتہ
(ترجمہ: طالب اپنے آپ سے بھی بے نیاز ہوتا ہے)(سُلطانُ الوَھم خورد)
طالبِ مولیٰ کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اللہ کی مخلوق' مقدُور' مامُور' منظُور
اور مرزُوق جانے' احکم الحاکمین کے حکم پر راضی ہو جائے اور خوش رہے تاہم
اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کی رضا مخلوق کی مرضی سے مختلف ہے۔ کبھی
قسمت اُس کا ساتھ دیتی ہے' کبھی نہیں۔ کبھی اُس پر تنگی آتی ہے کبھی فراخی'
انسان کو چاہیے کہ ہر چیز کو اُس کی طرف سے جانے۔ جو چیز بھی اللہ کی طرف
سے آئے اُس کو قبول کرے اور قناعت کرے بلکہ خوش ہو جائے تاکہ اُس کا مقام
اللہ کے ساتھ ہو جائے اور قیامت کے دن صابروں میں سے اُٹھے ۔
طالب کو چاہیے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ذکرمیں رہے اور اللہ کے ذکر سے باہر
نہ آئے۔ خلوت اور عُزلتِ حق اختیار کرے تاکہ اُسے اللہ تعالیٰ کے ذکر میں
استقامت حاصل ہو اور اپنی ذات کی نفی اور شیطان سے خلاصی پائے اور دنیاوی
لذّ ات اور حیوانی شہوات کو کم کرے تاکہ اللہ کے اس ذکر (تصورِ اسمِ اللہ
ذات) سے شیرینی اور لذّ ت حاصل ہو اور معرفتِ حق تعالیٰ زیادہ سے زیادہ
حاصل ہوتی جائے اور اللہ تعالیٰ کی غلامی نصیب ہو۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ طالبِ دنیا کے بارے
میں عین الفقر میں فرماتے ہیں:
دنیا کا طالب دو حکمت سے خالی نہیں ہوتا یا منافق یا ریاکار۔
دنیا شیطان اور طالبانِ دنیا شیاطین ہیں۔
دنیا فتنہ و فساد ہے اور طالبِ دنیا فتنہ انگیز ہے۔
دنیا نفاق ہے اور اس کا طالب منافق ہے۔
دنیا کذب ہے اور طالبِ دنیا کذاب ہے۔
دنیا شرک ہے اور طالبِ دنیامشرک ہے۔
دنیا خبث ہے اور طالبِ دنیا خبیث ہے۔
دنیا لعنت ہے اور اس کا طالب ملعون ہے۔
دنیا جہل ہے اور اس کا طالب ابو جہل ہے۔
دنیا فاحشہ و بدکار عورت ہے اور طالبِ دنیا اس کا شوہر دیوث (بیوی کی دلالی
کھانے والا) ہے۔
تحریر : خادم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس |
|