عالمِ انسانی کے موجودہ حالات کا
ایمانداری سے جائزہ لیجیے اور پتہ لگائیے کہ دُنیا کے چھ سو کروڑاِنسان اس
وقت کہاں مصروف ہیں، مصروفیات کی نوعیت کیا ہے،کس محور کے اطراف ان کے شب و
روز گھوم رہے ہیں۔ اِنسانوں کا یہ جمّ غفیر کس منزل کی طرف رخ کیے ہوئے
ہے۔؟ہر حساس دل پکار اٹھے گا کہ یہاں سے لے کر وہاں تک انسانوں کا یہ قافلہ
بلا تخصیصِ مذہب و ملت،رنگ و نسل، علاقہ و قومیت ایک بحران کی لپیٹ میں ہے
اور تباہی کے ایک بھیانک غار کی جانب بگ ٹٹ دوڑرہا ہے۔ اس صورتحال سے اس کے
باہر نکلنے کی صورت نظر نہیں آتی۔ کس کس برائی ، کون کون سے گناہ کاذکر کیا
جائے ۔ برائیوں کی وہ کونسی قسم ہے جس سے عالمِ انسانی واقف نہیں اور جس
میں اس کا ایک بڑا حصہ مبتلا نہیں ۔ کو ن سی نیکی ایسی ہے جس کی حرمت کو
پامال نہیں کیا گیا۔ روزافزوں برائیوں کی ان تفصیلات کا احساس کروانے کے
لیے ہم کسی قسم کی لفاظیت کا سہارا لینا نہیں چاہتے۔ایک ایک برائی گِنواتے
اور ہر برائی کی چھوٹی سی چھوٹی تفصیل رقم کرتے چلے جائیے ،دامانِ قرطاس
اپنی تنگی ٔ داماں کی شکایت کرتارہ جائے گا۔ کائنات کے پیدا کرنے والے کے
یہ الفاظ شاید ہمارے جذبات کی حقیقی ترجمانی کرتے ہیں اور صورتحال کی
بہترین عکاسی بھی :’’ظَھَرَالْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ
بِمَاکَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ لَّذِیْ عَمِلُوْ
الَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ(الروم:۴۱)‘‘ ان الفاظ میں برو بحر کے فساد کا
ذکر ہے۔ظاہر ہے زمین پر یا تو خشکی ہے یا تری۔کرّۂ ارض کے موجودہ بحران پر
اس سے بہترین تبصرہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ’’ خشکی اور تری میں فساد برپا ہو
گیا۔‘‘ اس فساد کے ذمہ داروں کے چہروں پر سے یہ کہہ کر نقاب الٹ دی گئی کہ’’
یہ اِنسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔‘‘
کون ہے ان حالات کا ذمہ دار ؟ کس نے مچا رکھی ہے یہ قیامت؟ کس کا برپا کردہ
ہے یہ قہر؟تھوڑے سے غور وفکر کے بعد یہ دلچسپ مگر تلخ حقیقت سامنے آئے گی
کہ آج زمین پرجو فساد برپا ہے اس کے ذمہ دارحیرت انگیز طور پر وہ انسان ہیں
جنہیں عرف عام میں ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ کہا جاتا ہے بلکہ زیادہ صحیح الفاظ
ہیں :’’بہت زیادہ پڑھے لکھے ‘‘Highly qualified لوگ۔کیونکہ یہی
Qualifiedلوگ ہیں جنہوں نے آج زندگی کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے۔دنیا کے کسی
بھی علاقے میں تشریف لے جائیے ، ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ ہی اجتماعی زندگی کی ذمہ
داریاں سنبھالے ہوئے ملیں گے جن کے پاس دُنیا کی عظیم یونیورسٹیوں کی عطا
کردہ متنوع ڈگریاں بھی ہیں،اور ان میں سے کئی اعزاز یافتہ بھی ہیں ۔پھر ان
کے انتظامیہ کو عملاً چلانے والوں کی ایک اورHierarchy جو Bureaucrats پر
مشتمل ہوتی ہے، حد سے زیادہ پڑھی لکھی ہونے کے باوجود’’ اڈمنسٹریٹیو سروس‘‘
کے ایک اور انتہائی پیچیدہ امتحان سے ابھرآئی ہوئی ہوتی ہے جس میں سرخ
رُوئی کی خاطر نہ جانے کیا کیا کچھ پڑھنا پڑتا ہے۔یہ مٹھی بھر ’’پڑھے
لکھے‘‘ لوگ بڑے کرّو فر کے ساتھ دنیا کے انتظام پر چھا جاتے ہیں۔اس لیے کُل
ملا کر پڑھے لکھے لوگوں ہی کو دنیا کے بگاڑ کا ذمہ دار ٹہرایا جاناچاہیے
۔جاہلوں اور’’ کم پڑھے لکھے‘‘ لوگوں کی اوقات ہی کیا کہ دنیا میں فساد برپا
کر سکیں۔ مقننہ، انتظامیہ ، عدلیہ، جیسے شعبوں سے بیچاروں کا کیا تعلق۔
ان’’بے پڑھے لکھے‘‘ جاہلوں کو کون منہ لگاتاہے۔
ان کا کام تو بس اس قدر ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگوں کے آگے سر تسلیم خم
کردیں۔ ا نکے ’’علم‘‘کی بنیاد پر ہونے والی منصوبہ سازی کے سامنے سر ِ
اطاعت جھکادیں۔ یہ دیں تو لیں اور زندہ رہیں اور نہ دیں تو چپ چاپ مر
جائیں۔ کبھی کبھار ان جاہلوں کو پڑھی لکھی انتظامیہ کی بد نظمی کے خلاف
احتجاج کرنے کا خیال بھی آجاتا ہے، لیکن دفعتاً کوئی ’’پڑھا لکھا آدمی ‘‘
نمودار ہوکران کی قیادت سنبھال لیتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی پڑھی
لکھی پولس ان جاہلوں کو لاٹھیوں، آنسو گیس اور بُلیٹوں سے نواز تی ہے ،ہاں
دو ایک زخموں کے ساتھ جاہلوں کے پڑھے لکھے قائد کی جھولی ضرور بھر جاتی ہے۔
اس لیے ان بے چاروں کے پڑھے لکھے نہ ہونے کوفساد فی الارض کا ذمہ دار
ٹہرانا ناانصافی کی بات ہے۔ دنیا میں فساد برپا کرنے کی ذمہ داری ان پر آ
ہی نہیں سکتی ۔سارا کیا دھرا اِن ہی پڑھے لکھے لوگوں کا ہے۔
ایک اور پہلو بھی بڑا دلچسپ ہے۔ان پڑھے لکھے لوگوں کو ہمیشہ اپنی آبادیوں
کو خواندہ بنانے کی بڑی فکر لاحق رہتی ہے۔انہیں ان کی جہالت بڑی کھلتی ہے۔
چنانچہ یہ’’ تعلیمی اداروں‘‘ کا ایک جال بچھا دیتے ہیں۔جہاں یہ لوگ ان کے
ہاتھ میں وہی تیر تھما دینا چاہتے ہیں، جو وہ ’’ پڑھ لکھ‘‘ کر پہلے ہی مار
چکے ہوتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ پڑھی لکھی انتظامیہ اپنے علم کو، جس
پر اسے ناز ہے، بروئے کار لا تی اور دنیا میں انسانوں کی زندگی کے ہر شعبے
میں عدل و انصاف،سکون و چین اور فلاح و خوشحالی پیدا کرتی۔لیکن ہم دیکھتے
ہیں کہ ٹھیک ان ہی پڑھے لکھے افراد کی ناک کے نیچے خود ان ہی کا برپا کردہ
ظلم و جور،انتشار و بدامنی اور خسران و بد حالی برپا ہوتی ہے اور اس میں
اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے اور الزام لگایا جاتا ہے ان جاہلوں کی جہالت
پر۔اورہم انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں کہ:پڑھے لکھے لوگ اور یہ بحران؟ کتنا
عجیب لگتا ہے یہ سب کچھ۔
اب سوال یہ ہے کہ ان Highly Qualified لوگوں کا اس قدر پڑھا لکھا ہونا زمین
کو امن و امان کا گہوارا بنانے کے کام کیوں نہیں آیا۔؟بہ ظاہر بڑا عجیب
سوال ہے اور کافی تکلیف دہ بھی۔نہ جانے اس سوال کو پڑھ کر کتنے ’’پڑھے
لکھے‘‘ لوگوں کے تن بدن میں آگ لگ جائے گی۔ اور نہ جانے کتنے کوالیفائڈ
لبوں پر گالیاں مچلنے لگیں گی۔لیکن کیاکیا جائے، ہم مجبور ہیں پڑھے لکھے
لوگوں سے یہ پوچھنے پر کہ کس کام کے ہیں یہ تمہارے علوم جو تم نے ان
عالیشان یونیورسٹیوں اور ان موٹی موٹی کتابوں سے حاصل کیے تھے، کیا دیا
تمہارے دفترِ علم نے اس دنیا کو بجز کچھ ساز و سامان، کچھ مشینوں، کچھ
خلائی جہازوں، کچھ فلک بوس عمارتوں، کچھ شاندار سڑکوں اور کچھ ایجادات کے؟۔
یہ سوال اربابِ علم وفن کے سامنے منہ پھاڑے کھڑے ہیں کہ بتاؤتمہاری
یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا علم تمہارے باشندوں کی فلاح کے کام کیوں
نہیں آتا۔ اپنے علم کی ’’روشنی‘‘ میں تم ایک مسئلہ حل بھی نہیں کر پاتے کہ
ہزار مسئلو ں کا ایک اور پٹارہ کھل جاتا ہے۔مثلاً تم اپنے معاشی علوم کو
ملک کی معاشی حالت سدھارنے کے کام میں لانا چاہتے ہو،لیکن نتیجہ الٹا نکلتا
ہے۔ تمہاری آبادیوں کا تقریباً نصف فی صد برسہا برس خط غربت کے نیچے زندگی
گزارتارہ جاتا ہے۔ تم زمین سے اُبلنے والی ملک کی بے پناہ دولت کی تقسیم کا
نظام اپنے اسی علم کی بنیاد پر ہی تو کرتے ہو جس پر تمہیں ناز ہے، پھر کیوں
تمہاری کوششیں ناکامی کا منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں اورملک کی چالیس فی صد
عوام رات کو کھانا کھائے بغیر کھلا آسمان سر پر اوڑھے سو جاتی ہے۔تم کو
اپنے اخلاقیاتEthics پر بڑا ناز ہے، پھر کیوں تمہارے نام نہاد پڑھے لکھے
عوامی خدمت گار عوام کے ساتھ ہر لمحہ بد سلوکی کرتے ہیں اورسر عام اپنے
اخلاق وکردار کو رشوت کے عوض بیچ دیتے ہیں؟تمہارے پاس ہزاروں ’’پڑھے لکھے‘‘
ڈاکٹرس ہیں لیکن کیوں تمہارے عوام کی کثیر تعداد علاج معالجہ کی بنیادی
سہولتوں سے محروم رہ جاتی ہے اور اپنی قسمت کا رونا روتے روتے اس دُنیا سے
رخصت ہو جاتی ہے۔ تمہارے ہاں ان ہی ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگوں کے اربوں کھربوں
روپیوں کا سرمایہ اُن کپڑا کارخانوں پرلُٹا دیا جاتا ہے جہاں کھربوں گز
کپڑا ، جس سے کرۂ ارض کو کئی بار لپیٹا جا سکے،تیار ہونے کے باوجود
کیوں۔تمہارے زندہ اِنسانوں کو چھوڑیے۔ تمہارے غریب عوام کی لاشوں تک بھی
نہیں پہنچ پاتا تاکہ ان کے کفن کے کام آ سکے یا کم از کم اِن پڑھی لکھی
خواتین کو اپنی طرف راغب کر سکے ، جو پڑھے لکھے لوگوں کے سکھائے ہوئے فیشن
کی زد میں آکر اپنے جسم کو چھپانا پسند نہیں کرتیں۔اور کم سے کم کپڑا پہننے
پر تلی ہوئی ہیں۔؟’’پڑھے لکھے‘‘ ہونے کی یہ کونسی قسم ہے جو انہیں برہنہ
رہنے پر اکساتی رہتی ہے، نیم برہنگی کی حالت میں سر عامCatwalk پر مجبور
کرتی ہے۔ وہ کون لوگ ہیں جو ’’پڑھے لکھے‘‘ ہونے کے باوجود ان خواتین کو مس
ورلڈ اور مس یونیورس کے خطاب کا جھانسا دے کر بھری محفل میں ان کی عصمت
کاسودا کرتے ہیں اور یہ منظر پڑھے لکھے لوگوں کے الکٹرانک میڈیا ساری دنیا
کو بڑی شان سے دکھاتے ہیں اور جی بھر کر پیسہ بٹورتے ہیں۔ یہ پڑھی لکھی
کنواریاں کس کی ایما ء پر اپنی عصمت کو ڈالروں کے عوض بیچ دینے میں فخر
محسوس کرتی ہیں۔ کون ہے جس نے ان کی شرم و حیا کی حس کو موت کے گھاٹ اتار
دیا ہے؟ ظاہر ہے ’’پڑھے لکھے ‘‘ لوگوں کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟۔
تمہارے اناج سے بھرے ہوئے گوداموں کا بڑا حصہ یا تو چوہوں کے کام آتا ہے یا
اس میں محفوظ اناج کو سڑنے کے لیے چھوڑ د یا جاتا ہے۔تاکہ اونچا دام نہ
ملنے کی صورت میں اسے سمندر کی مچھلیوں کے حوالے کیا جا سکے۔ چاہے ملک کے
کروڑوں انسان اناج کے ایک ایک دانے کو ترستے کیوں نہ رہ جائیں۔اسی طرح تم
اپنے پڑھے لکھے قانون دانوں کو دیکھ لو۔ انصاف کو ان ظالموں نے کتنا مہنگا
اور مشکل بنارکھا ہے۔پندرہ بیس سال میں مظلومین کی مظلومیت کا جذبہ سرد ہو
جاتا ہے تو تم فیصلہ سناتے ہو۔تمہارے تعلیمی اداروں کو دیکھوجہاں حرف شناسی
کے سوا کیا سکھایا جاتا۔اخلاق و کردار کی باتیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔اور
طلباء کی بد اخلاقیوں کے مظاہرے ٹی وی پر پوری دنیا بڑی شان سے دیکھتی
ہے۔استاد کو پیٹنے انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کے یہ ٹی وی مناظر بہت پرانے
نہیں ۔آئے دن قتل و غارت گری کی وارداتیں اخبارات کی زینت بنتی رہتی
ہیں۔کون ہوتے ہیں خبروں پر چھا جانے والےNews Makers۔حسا س ہتھیاروں کے
استعمال پڑھے لکھے غارت گروں کو خوب آتا ہے۔ان کا پڑھا لکھا ہونا انہیں جرم
کے بہترین گُر سکھاتا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ ان کی تشہیر کے لیے چوبیس گھنٹوں
تک بک بک کرنے والے نامہ نگاران مجرمین کی رپورٹنگ پر مامور رہتے ہیں جو
خود بھی پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔قتل و خون کے برہنہ رقص کی کہانی سناتے ہوئے نہ
ان کی کبھی پلکیں بھیگتی ہیں اورنہ ہی اِن کے چہروں پر کرب آگیں لہروں کی
کوئی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔ وہ نیوز چینل ہی کیا جو قتل و غارت گری کی سب
سے پہلے چیخ چیخ کر ، چٹخارے لے لے کر کالجوں میں سیکھی ہوئی لسانی مہارتوں
کے ساتھ رپورٹنگ نہ کرے۔ یہ ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ جان پر کھیل کر مالکانِ
میڈیا کے لیے دھن جمع کرتے ہیں جو انہیں سرمایہ دارو ں کے اشتہارات سے حاصل
ہوتا ہے۔کھلے شہروں پر بم برسانے والے ’’پڑھے لکھے‘‘ ہی تو ہوتے ہیں،جنہیں
بموں کے ساتھ ہوائی جہاز دے کر پڑھا لکھا حکمران میدان جنگ میں روانہ کر
دیتا ہے۔و ہ بڑی طاقتیں کون ہیں جو اپنی عسکر ی طاقت کے نشے میں چُور غریب
ملکوں پر آگ برساتی پھرتی ہے۔ کون ہے جو دُنیا میں جمہوریت کا نعرہ لگا کر
لاشوں کے ڈھیر لگا رہا ہے۔ کیا کسی جاہل اور گنوار کو جمہوریت کی ہوابھی
لگی ہے ؟کون لوگ ہیں ، جنہوں نے عالیشان عمارتوں میں سود کے اڈے قائم کر
رکھے ہیں اور انہیں Bank کا معزز نام عطا کرتے ہیں۔خیر یہ تذکرہ شیطان کی
آنت کی طرح طویل ہے۔ جس کو بیان کرتے ہوئے ہم اُبکائی محسو س کرتے ہیں۔ایسے
کئی سوال ہیں جو دُنیا میں فساد مچانے والی پڑھی لکھی دُنیا کے سامنے لب
کھولے کھڑے ہیں اور ہر سوال کے پیٹ میں مزید کئی سوال چھپے ہوتے ہیں۔
’’پڑھے لکھے‘‘ اِنسانوں کی محدودعقل اور اس کے محدود علم کو یہ خبط ہے کہ
اِنسانی فلاح کا پروگرام بنانے کی صلاحیت اُس میں فی الواقع موجو د ہے۔اسی
خبط کے بیج سے فساد کا وہ کونپل پھوٹتا ہے، جو بالآخر ایک تناور درخت بن کر
فساد فی الارض کے کڑوے کسیلے پھل دُنیا ئے اِنسانی کے سامنے پیش کرتا ہے۔
اِنسانوں کے یہ گروہ ناقص عقل ِ اِنسانی کے گرویدہ ہو کر یہ حقیقت فراموش
کر بیٹھتے ہیں کہ اِنسانوں کی زندگی کے لیے وحی ٔ الٰہی ہی ایک ایسا ذریعۂ
رہنمائی ہے ، جس سے فیض یاب ہوکر زمین امن و امان کا گہوارہ بن سکتی ہے اور
فساد فی الا رض کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
یہ محض کوئی شاعرانہ خیال نہیں ہے بلکہ چشمِ فلک نے آج سے چودہ سو سال پہلے
اس منظر کو اسی زمین پراُبھرتے دیکھا ہے۔اور اس پوری داستانِ سعادت میں سب
سے حیرت انگیز بات یہ ہے اور جسے سوچ کر ہمارا ایمان تازہ ہو جاتا ہے کہ اس
انقلاب کو کسی ’’پڑھے لکھے‘‘ نے برپا نہیں کیا تھا بلکہ یہ ایک ایمان پرور
مصلحتِ خداوندی تھی کہ ایک اُمی لقبی نے خالص وحی الٰہی کی بنیاد پر اس
انقلاب کو برپا کیا تھا،جواُمی ہونے کے باوجود زمین پر ایک ایسی یونیورسٹی
کی مانند تھا جسے چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھا نہ آئندہ کبھی دیکھ سکے
گی۔پھررسالت مآبی کی اس عظیم المرتبت یونیورسٹی کے فارغ نفوسِ قدسیہ کی اُس
جماعت نے، جسے دُنیا صحابۂ کرامؓ کے نام سے یاد کرتی ہے، کسی کالج یا
یونیورسٹی کے ڈگری یافتہ ہونے کی یا کسی کالج یا یونیورسٹی کو قائم کرنے کی
کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پھر بھی دُنیا کو وہ ماحول عطا کیا جس کے لیے آج
تک ’’پڑھی لکھی‘‘ دنیا اپنی ہزاروں یونیورسٹیوں کے قیام کے باوجودترس رہی
ہے۔ایسا امن و سکوں آج تک دُنیا کو میسر نہیں آیا جو وحی ٔ الٰہی کی بنیاد
پر انسانوں کو ان نفوسِ قدسیہ کے دست ہائے مبارکہ سے حاصل ہوا تھا۔
اصل مسئلہ جہالت کا نہیں ، جاہلیت کا ہے۔پڑھے لکھے لوگ حقیقتاً جہالت کے
نہیں ، جاہلیت کے علمبردار بن کر کھڑے ہوگئے ہیں۔کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم
عصری تعلیم کے مخالفت پر کمر بستہ ہیں، کیونکہ ہم نے بھی یہی کچھ پڑھا ہے۔
لیکن ہمارا مدعا صرف اس قدر ہے کہ’’ علم ‘‘ اور ’’حرف شناسی‘‘ کا فرق
سمجھنا ضروری ہے۔ کوئی ہے جو دُنیا کو ایسی یونیورسٹیاں عطا کرنے کا بیڑہ
اٹھالے جہاں سے فارغ ہونے والے حقیقی ’’پڑھے لکھے‘‘ کہلائیں ؟جو آسمانی
ہدایت کے بغیر مشکل ہے۔ اگر ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ’’آسمانی ہدایت ‘‘ کی طرف
رجوع ہوں تو اس فساد زدہ دنیا کا نقشہ بدل سکتاہے۔ہمیں امید ہے کہ ان
معروضات کو کسی دیوانے کی بڑ نہیں سمجھا جائے گا۔’پڑھی لکھی‘‘ دنیا کی خدمت
میں یہ معروضات اس لیے پیش کی جارہی ہیں کہ وہ جہالت سے زیادہ جاہلیت کو
دنیا سے مٹانے کی جد و جہد میں سنجیدہ ہو جائیں اور اسی غرض کے لیے موجودہ
یونیورسٹیوں کی از سر نو تشکیل کا جرٔت مندانہ تاریخ ساز فیصلہ کریں۔ |