صحافتی اہمیت وعزت

جیسے پاکستان کِسی ایک شخص ،ایک قبیلے ،ایک گھر، ایک محلے ،ایک شہر ،یا ایک صوبے کا نام نہیں ایک ملک کا نام ہے ایسے ہی میڈیا بھی کِسی ایک رپورٹر ،ایک نیوز ایڈیٹر ،ایک کالم نگار،ایک ایڈیٹر ایک نیوز کاسٹر ایک اینکر ،ایک اخبار یا ایک چینل کا نام نہیں بلکہ اِس سب کچھ کے ایک مجموعے کا نام ہے جِسے ریاست کا چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے ،کیونکہ میڈیا حکومت اداروں اور عوام کے درمیان ایک پُل کی حیثیت رکھتا ہے ،اِس کے علاوہ کوئی ایسا ذریعہ نہیں جو عوامی احساسات ،جذبات وخیالات حکمرانوں تک اور حکمرانوں کے خیالات وحکومتی سر گرمیوں کو عوام تک پہنچا سکے ،عوام میں اکثر میڈیا کو سورج کی کرنوں سے بھی تشبیح دی جاتی ہے جبکہ اداروں کیلئے اِسے آئینہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ میڈیا ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کی بدولت آپ ایک جگہ کے حالات دوسری جگہ بیٹھ کر دیکھ سُن یا پڑھ سکتے ہیں،زمانہ قدیم میں میڈیا کی صرف ایک ہی قسم تھی جِسے پرنٹ میڈیا کہا جاتا ہے،مگر موجودہ دور نے اِس کی دو مزید اقسام ایجاد کردی ہیں جن میں ایک سوشل ،اور دوسری الیکٹرانک ،مِلا کر تین اقسام بنتی ہیں،اور تینوں ہی اپنی اپنی جگہ ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں،اور جو ممالک اِس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں وہ اپنے اِس ستون کا تحفظ بھی ہر حال میں ممکن بناتے ہیں ،کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جہاں اختلافِ رائے نہ ہو وہاں ترقی کبھی ممکن نہیں ہو سکتی،اِس لئے آزادی حق رائے دیہی کے قدر دان ممالک میں ہر چھوٹے بڑے ورکر’و‘ ادارے کو برابری کی عزت وحقوق دیئے جا تے ہیں وہاں پر ادارے کمزور جبکہ ورکرز مضبوط ہیں،وہاں کے ہر ادارے کے ہر ورکر کی انشورنس ہوتی ہے وہاں ہر ادارے کے ہر ورکر کو بِلا تفریق معاوضہ دیا جاتا ہے، اور کِسی بھی ادارے کے سرکاری یا غیر سرکاری اشتہارات پر کوئی پابندی نہیں لگاتا، آپ گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے اخبار کو ہی دیکھ لیں جس نے دُنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروع کئے اور دُنیا بھر میں اِس کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے مگر متعلقہ حکومت نے جریدے کے مالک کو پوچھا تک نہیں ،اِس کے بعد آپ ایک آن لائن جریدے وکی لیکس کی مثال لے لیں اِس جریدے نے بھی دُنیا بھرکے لیڈران کے پول کھولے ،اُنہیں کوب بے عزت کیااور یک عرصہ تک تہلکا مچائے رکھا مگر اِس کے خلاف بھی آج تک کوئی خاص کاروائی نہیں ہو سکی، جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے یہاں چند ایک اخبارات اور چند ایک ہی چینلز کے سِوا باقی سب کی خبریں بے صود ہو کر رہ گئی ہیں یہاں نئے آنے والے یا چھوٹے اخبارات وچینلز کی خبروں پر نوٹس لینا ادارے اپنی توہین سمجھتے ہیں ،یہاں چند ایک اخبارات وچینلز کے علاوہ کِسی کو سرکاری اشتہارات نہیں دیئے جاتے ،اور اُن میں سے بھی اگر کوئی حکومت کے خلاف لکھ دے تو اُس کے اشتہارات بھی بند کردیئے جاتے ہیں،مگر میڈیاادارے پھِر بھی اپنا کام جاری رکھتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں کے میڈیا سیلز سب سے مظبوط وامیر ترین اور ورکرز معاشرے کے سب سے کمزور ومفلس ترین لوگ ہیں یہاں کِسی وزیر کا اگر کُتا بھی مر جائے تو خبر بریک میں چلنے لگتی ہے اور ساتھ ہی اُس پہ تبصرے بھی شروع ہوجاتے ہیں کہ یہ فلاں سال میں پیدا ہوا اِس کی ماں کا نام یہ تھا اپنی مالکن کا یہ اکلوتا کُتا تھا ،اِس کی مالکن اِسے فلاں جگہ سُلاتی تھی ،یہ فلاں فلاں چیز کھاتا تھا اور اِس قسم کی پوٹی کرتا تھا وغیرہ وغیرہ لیکن ورکر کی شہادت پہ سنگل کالم یا علاقائی ٹِکر میں بھی جگہ بمشکل مِلتی ہے،دوسرے ممالک میں جو چاہے اخبار نکال لے جبکہ ہمارے ہاں اگر کوئی نیابندہ رپورٹر ہی بن جائے تو پرانے لوگ اُس کے خلاف سینکڑوں محاظ کھڑے کر دیتے ہیں،جیسا کہ حال ہی میں نئے لانچ ہونے والے چینل (بول) کے ساتھ کیا گیا، دوسرے ممالک میں تنقید پر تحقیق شروع ہوجاتی ہے اور ادارے خود کو درست کرنے لگتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تنقید پر تفتیش شروع ہوجاتی ہے اور رپورٹرز جیلوں میں چلے جاتے ہیں،جیسا کہ حال ہی میں ضلع اوکاڑہ کی تحصیل دیپالپور کے علاقہ ہجراہ شاہ مقیقم میں ہوا،دوسرے ممالک میں ورکرز کو کام کا معاوضہ مِلتا ہے جبکہ ہمارے ہاں ورکرز کام کے ساتھ اپنے اداروں کومعاوضہ بھی دیتے ہیں،دوسرے ممالک میں سوال کرنے پر احترام سے جواب دیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں سوال کرنے پر بے عزت کرکے یہاں سے نکل جانے کا کہہ دیا جاتا ہے جیسا کہ حال ہی کی بجٹ پریس کانفرنس میں ہوا ،دوسرے ممالک کے قانون نافظ کرنے والے ادارے معاوضہ کے عوض میڈیا کی خدمات حاصل کرتے ہیں جبکہ ہمارے تھانیدار ڈاکوؤں کے نام لکھنے پر ہمیں پولیس مقا بلوں میں پا رکرنے کی دھمکیاں دینے لگتے ہیں ،یہ سب وہ باتیں ہیں جوآج کل ہمیں دیکھنے وسننے کو اکثر مِل رہی ہیں مگر ہم سمجھ نہیں پا رہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے،اور سمجھ اِس لئے نہیں پارہے کہ ہم اپنے گریبانوں میں جھانکنا پسند نہیں کرتے اگرہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ اِس میں کِسی کا کوئی قصور نہیں ہم ہی غلط ہیں ،کیونکہ ہم نے اپنے اپنے سرکاری وسیاسی خادمین کو اپنا آقا تسلیم کر لیا ہے اور خود اُن کی غلامی میں اُن کی خوشنودی کیلئے اجتماعی مفادات کی بجائے انفرادی مفادات کی جنگیں لڑنے لگے ہیں ،ہم سماج دشمن عناصر کے خلاف لڑنے کی بجائے اُنہیں اپنی صفحوں بٹھانے لگے ہیں جبکہ اپنے بھائیوں کے سرکاٹنے میں مگن ہیں ،یہ سلسلہ کل تک تو علاقائی سطح تک تھا مگر اب مرکزی سطح پر بھی پوری دھوم دھام سے جاری ہے ،یہ عزت تذلیل بھی کل تک توعلاقائی سطح تک ہی تھی مگر اب یہ بھی مرکز تک پہنچ چکی ہے ، یعنی کہ مختلف پریس کانفرنسوں میں اب مرکزی لو گ بھی بے عزت ہونے لگے ہیں ،جوکہ لمحہ فکریہ ہے ،اور ایسا اُسی وقت ہوتا ہے جب کوئی اپنا کِسی دوسرے کو شیلٹر دے ورنہ حالات جو بھی ہوں ،کِسی کی مجال نہیں کہ کوئی کِسی صحافی کو بے عزت کرے اُسے اُس کا حق نہ دے یااُس پر مقدمہ درج کرے ،لہذا اگرہمیں اپنی و اپنی عزت نفس کی بقا چاہئے تواپنی صفحوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگاورنہ وہ دِن دور نہیں جب ایک رپورٹر سے لے کر ادارے کے مالک تک کی کِسی بھی بیوروکریٹ نظر کوئی اہمیت و عزت باقی نہ رہے گی ،اوراگرمیں غلط نہیں توشعبہ صحافت شعبہ بھکارت کہلانے لگے گی، (فی امان اﷲ)۔
Muhammad Amjad khan
About the Author: Muhammad Amjad khan Read More Articles by Muhammad Amjad khan: 61 Articles with 41731 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.