محبت میں مفاد ہوس اور ذاتی پسند و ناپسند
(Sami Ullah Khan, Mianwali)
محبت اخلاص سچائی اور روحانی
پاکیزگی کا نام ہے۔جب بھی محبت میں مفاد ہوس اور ذاتی پسند و ناپسند شامل
ہوتی ہے تو وہ محبت نہیں رہتی اسے ہم دوغلی محبت کہتے ہیں ۔ کچھ احباب کہتے
ہیں کہ انسان کی محبت جسمانی تقاضوں سے مبرا و غافل نہیں ہوسکتی جب کہ ہم
کہتے ہیں کہ محبوب کو دیکھ کر اسکو سوچ کر یا اسکے دل میں اتر جانے کے بعد
انسان میں ہوس کا وجود اور اسکی حیثیت بے معنی سی ہو جاتی ہے۔ لفظ محبت کی
گنتی میں ہر رشتہ ناطہ تعلق شامل ہے۔ افسوس کہ آج کے معاشرے میں اخلاص کی
اتنی ہی کمی ہے جتنی بازاری دودھ میں دودھ کی کمی ہوتی ہے۔آج کل کم وبیش
ہرسطح پر پرفریب اور مکارانہ محبت کا آغاز ہو چکاہے۔ عاشق اپنی جنس مخالف
یا محبوب ہستی سے دغا کر رہا ہے سیاستدان کی تقریروں میں وطن سے محبت کیلئے
جو لفاظی استعمال ہوتی ہے اسے دیکھ کر دل خون کے آنسوروتاہے ۔ حد تو یہ ہے
کہ ایک ہی گھر کے افراد مفاد کی عمیق گہرائیوں کو ناپ کر ایک دوسرے سے تعلق
رکھتے ہیں ۔ آہ وہ دور بھی تھا جب اخلاص اتنا ہی زیادہ تھا جتنا آج فریب ہے۔
مجھے اس بشر پر حیرانی ہوتی ہے جو محبت کا نام لے کر دوسروں کو دھوکہ
دیتاہے حالانکہ درحقیقت وہ اپنے اشرف المخلوقات ہونے سے انکار کر رہا
ہوتاہے۔
لوگ جھوٹی محبت میں اتنے تواتر سے محبت بھرے الفاظ بولتے ہیں کہ کسی طوطے
کا سا گمان ہوتاہے ۔ شاید ہم لوگ لفظوں کی حرمت کے قائل نہیں رہے میں نے
دیکھا ہے کہ کچھ لوگ جنس مخالف کو بہن کہتے ہیں لیکن ان کے لفظوں کے ادا
کرنے۔ باڈی لینگویج اور ان کے دیکھنے کے انداز ان کے اپنے ادا کیئے ہوئے
لفظوں کا ساتھ نہیں دے رہے ہوتے ۔اہل علم کو چاہیئے کہ لفظوں کی حرمت سے
کھیلنے والے کو وہی سزا دیں جو کہ ایک ریاست اپنے باغی کو دیتی ہے ویسے اس
کی ضرورت اس لیئے نہیں کہ ایسے جھوٹے عاشقوں یا جھوٹے تعلق و رشتے قائم
کرنے والوں سے سکون چھن جاتاہے۔مسخرے اور روحوں کے قاتل تو کجا اکا دکا
روحانی استاد بھی اس قعرمذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں بصد شوق غوطے کھا رہے
ہیں۔
جھوٹی محبت کا ایک روشن پہلو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں
۔ یہ اپنے دینی پیشوائوں سے محبت کا دم بھرتے ہیں ۔بڑے بڑے بول بولتے ہیں
جب کہ درحقیقت یہ ایک عورت سے جھوٹا پیار کرنے والے عاشق سے بھی کم درجے پر
فائز ہوتے ہیں ۔ انکے قول و فعل میں بس اتناہی فاصلہ ہوتا ہے جتنا زمین اور
آسمان میں ہے۔
ہم جذبات کی رو میں بہنے سے قبل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صحافت کے کوچہ میں
بھی کئی ایسے دیوزہ گر موجود ہیں جو اپنے پیشے سے جھوٹی محبت کا دم بھرتے
ہیں اور الفاظ سے وہی کھیل کھیلتے ہیں جو ایک روحانی مجرم کسی رقاصہ سے
کھیلتاہے۔ |
|