توکل کی ایک صورت تو یہ ہے کہ
انسان نظری طور سے اپنا معاملہ اللہ ہی کے سپرد کر دے لیکن عملی طور پر اس
کا دھیان اسباب ہی کی طرف لگا رہے اور ظاہری اسباب و وسائل ہی اسکی بیشتر
توجہات کا مرکز بنے رہیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ انسان ظاہری اسباب کو معمولی طور سے اختیار کرے کہ
اللہ تعالیٰ نے انھیں اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، اس کے بعد معاملہ اللہ رب
العزت کے حوالے کر دے اور یہ یقین رکھے کہ یہ ظاہری اسباب کوئی حقیقت نہیں
رکھتے کرنے والے صرف اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔
تیسری صورت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر اس درجہ بھروسہ کرے کہ ظاہری
اسباب کی طرف مطلق نظر نہ کرے یہاں تک کہ اللہ رب العالمین کو بھی نہ پکارے
اور یہ سمجھے کہ وہ تو خود میرے دکھوں اور تکلیفوں کو جانتا ہے۔ شریعت میں
مطلوب توکل کا دوسرا درجہ ہے، بمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے اسی کو سنت قرار دیا ہے کہ انسان ظاہری اسباب کو معمولی طور سے
اختیار کرے، اللہ تعالیٰ سے دعاء بھی کرے لیکن بھروسہ ان ظاہری اسباب پر
کرنے کے بجائے اللہ رب العزت کی ذات پر ہی کرے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا
تقاضائے ایمان بھی ہے کیونکہ جب مومن کا یہ پختہ عقیدہ ہو جاتا ہے کہ ہر
خیر و شر کو پیدا کرنے والا اور نفع و ضرر پہنچانے والا اللہ رب العزت ہی
ہے تو اس پر یہ لازم ہو گیا کہ وہ اپنے معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے۔
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں
کہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے جیسا کہ اس کا حق ہے تو بے شک اللہ
تعالیٰ تمھیں اس طرح رزق دیتا جیسے کہ پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح اپنے
گھونسلوں سے بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے ہوئے واپس آتے ہیں،(ترمذی
شریف و ابن ماجہ)۔ توکل اور اعتماد کا تعلق دل سے ہے جو اعضائے ظاہری کی
عمل و حرکت کے مطلقاً منافی نہیں ہے اس وجہ سے امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے
ہیں کہ جس شخص کا یہ گمان ہے کہ توکل نام ہے کسب وعمل کے ترک کرنے اور ہاتھ
پیر کے معطل کرنے اور اپاہج بن کر پڑے رہنے کا تو وہ غلطی ہے(مرقاہ)۔انوار
سہیلی فارسی کی ایک مشہور کتاب ہے اس میں ایک بڑی حکیمانہ حکایت نقل کی گئی
ہے کہ ایک شخص نے ایک کوے کو دیکھا کہ اس کے پر کٹے ہوئے ہیں وہ دل میں
سوچنے لگا کہ یہ بیچارا کیسے زندہ رہے گا؟ اس کے لیے خوراک کون مہیا کرے
گا؟ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک عقاب نظر آیا جو اپنی چونچ میں شکار
پکڑ کر لایا تھا یہ عقاب کوے کے قریب پہنچا اور کوے کے منہ میں شکار ڈال
گیا، اس شخص نے جب یہ دیکھا تو خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کو اس
طرح رزق دیتے ہیں پھر میں کیوں تلاش معاش کروں اللہ تعالیٰ خود میرے لیے
رزق بھجیں گے چناچہ وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا کئی روز گزر گئے مگر
اسے کچھ نہ ملا کسی حکیم نے اسے سمجھایا کہ، اے بندہ خدا تجھے دو پرندے
دکھائے گئے تھے ایک پر کٹا اور دوسرا عقاب تو نے کوا بننے کو ترجیح کیوں
دی؟ عقاب بننے کا خیال کیوں نہ کیا؟ جو خود بھی کھاتا ہے اور دوسرے معذوروں
کو بھی کھلاتا ہے۔ یہ حکایت توکل کی حقیقت کی بالکل ٹھیک ٹھیک نشان دہی
کرتی ہے کہ جس شخص کے پاس اسباب و وسائل موجود ہوں اس کے لیے اسباب کو چھوڑ
دینا غلط ہے اس کی مثال عقاب کی سی ہے اسے خود بھی کھانا چاہیے اور دوسروں
کو بھی کھلانا چاہیے لیکن اگر کوئی معذوری ہے اور اسباب سے محرومی ہو جائے
تو پھر یہ غیر معمولی فکر بھی غلط ہے کہ روزی کہاں سے آئے گی؟ ایسے حالات
میں صرف یہ سوچنا چاہیے کہ اسباب و وسائل تو چند آلات تھے اصل رزاق تو صرف
اللہ رب العزت ہیں اگر اسے زندگی مقصود ہوئی تو وہ کوئی وسیلہ بھی ضرور
پیدا فرما دے گا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم غزوہ ذات الرقاع میں رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے جب ہم ایک سائے دار درخت کے پاس سے
گزرے تو ہم نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے چھوڑ دیا ایک آدمی
مشرکوں میں سے آیا اور اپنی تلوار میان میں سے باہر نکالتے ہوئے آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہنے لگا کیا تم مجھ سے ڈرتے ہو؟آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں، پھر اس شخص نے کہا کہ تم کو مجھ سے کون بچا سکتا
ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاَ اللہ تعالیٰ، یہ سنتے ہی خوف کی
وجہ سے اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔ یہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
شان یقین و توکل علی اللہ ہی تھی کہ شدید ترین جان کے خطرے کے باوجود آپ نے
اپنے خون کے پیاسے دشمن کو نہایت اطمینان اور سکون سے جواب دیا۔ یہ ہی وجہ
ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنے والوں کو کوئی تکلیف و پریشانی
ہوتی ہے تو بھی وہ مطمئن اور مسرور نظر آتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ دین اسلام
کے مطابق اسباب کو بالکل چھوڑ بیٹھنا غلط ہے لیکن توکل کا مطلب یہ ہے کہ
کسی بھی مرحلے پر ظاہری اسباب پر بھروسہ نہ کیا جائے، اس کے بجائے اختصار
اور اعتدال کے ساتھ اسباب کو اختیار کر کے معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا
جائے۔
گر تو نہیں میرا تو کوئی شے نہیں میری
جو تو میرا تو سب میرا فلک میرا زمیں میری |