انسان کتنا بھی ہوشیار ہو
جائے مگر زندگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بچوں پر تشدد ظلم و
ذیادتی آج کے دورکا سب سے بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے اس قسم کے واقعات
معاشرے میں ذہنی پسماندگی اور وحشیانہ رویے کو ظاہر کرتے ہے بعض شیطان نما
لوگ اپنی دشمنیکا بدلہ بچوں سے لیتے ہیں، اپنے ناپاک بے ہودہ عزائم کو پورا
کرتے ہیں یا خاندانی جھگڑے کا بدلہ بچوں سے لیتے ہیں اور پھر بچوں کا اغواء
، تشدد ، زیادتی کے بعد بچوں کو موت کی نیند سلادیتے ہیں ایسیدہشتناک خبریں
ایسے انکشافات جو رو نگٹے کھڑے کر دے ایسی خبریں جس نے ہر شخص کو خوف میں
مبتلا کر دیا ہے لیکن ان کے باوجود ہر روز بہت سے معصوم اور بے گناہ بچے
ظلم و زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں بچوں پر بڑھتے ہوئے تشددو زیادتی نے ہر
انسان کو تڑپا دیا ہے ، آئے دن اس قسم کی لرزا خیز خبریں شائع ہورہی ہیں،
بچوں پر زیادتی کی خبریں دیکھ کر دل دہل جاتا ہے بچوں کو یہ بے ضمیر انسان
بے دردی سے موت کی طرف دھکیل دیتے ہیں اب ماں باپ بچوں کو گھر سے باہر
نکالتے ہوئے ڈرتے ہیں
بقول شاعر : روز دو نفل شکرانہ ادا کرتی ہوں میں بچے اسکول سے جب لوٹ کے
گھر آتے ہیں
ایسی صورتحال میں ہمیں اپنے بچوں کو اچھے اور برے کا فر ق بتانا ہے والدین
کو چائیے کہ وہ بچوں کو برے عناصر سے بچانے کے لیے ان کی رہنمائی کریں ان
کو دوستانہ ماحول فراہم کریں اپنے گھر میں بچوں کو ایسا ماحول فراہم کریں
کہ وہ اپنی ضرورت کے لیے باہر نہ دیکھیں یا انھیں کسی دوست کی کمی محسوس نہ
ہو تاکہ بچے آپ کو بغیر کسی شرم کے اپنی بات اپنا ڈر خوف بتا سکیں ، اکثر
واقعات ایسے بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ باہمی رابطوں میں کمزوری کے باعث
گھر سے دور رہنے والے افراد اپنی دنیا الگ بسا لیتے ہین اس لئے خاندانوں کو
ٹوٹنے اور بکھیرنے سے بچانے کے لیے لازم ہے کہ باہمی رابطوں کو اچھا اور
مستقل بنیادوں پر استوار کیا جا ایسے حالات کی وجہ سے والدین بچوں کی طرف
سے بہت پریشان و فکر مند ہیں اس ذہنی پسماندگی پر بہت سے عوامل اثر انداز
ہوتے ہیں اس میں سب سے زیادہ خطرناک والدین اور بچوں کے ردمیان ذہنی ہم
آہنگی کا نہ ہونا ہے ، اس وجہ سے نہ بچے والدین سے کھل کر بات کر سکتے ہیں
اور نہ ہی والدین کوئی بات واضح طریقے سے بچوں کو بتا سکتے ہیں بچوں کا
خیال رکھنا اور ان کی جائز ضروریات کو پورا کرنا والدین کا فرض اور بچوں کا
حق ہے ان کو ان کے حق سے محروم رکھنا قانوناً جرم ہے بچوں پر سختی اور مار
پیٹ سے گریز کریں،بچو ں کو احساسِ محرومی اور احساسِ تنہائی کا شکار نہیں
ہونے دیں کیونکہ وہ تنہائی سے راہ ِ فرار اختیار کرنے کے لیے مختلف راستے
اختیار کریں گے ایسے میں وہ غلط راستے پر چل نکلے تو ان کی زندگی برباد
ہوجائے گی اور پھر ہم تمام زندگی اس احساسِ جرم سے نجات حاصل نہیں کر سکیں
گیکہیں ایسا نہ ہوجائے
بقول شاعر : بیشمار یادیں اور یہ بہتے اشکِ ندامت یہ سرمایہ نا بن جائے
کہیں ز ندگی بھر کا
معا شرے کے بالغ افراد اپنے بچوں کی ہر وقت حفاظت نہیں کر سکتے اس لیئے
ضروری ہے کہ بچوں کو اپنے بچاؤ کی تربیت دی جائے ، اکثر گھرانوں میں بچے
نظر انداز ہوتے ہیں یہاں سے مسائل شروع ہوتے ہیں احساسِ کمتری یا برتری میں
مبتلا بچے بے باک اور خود سر ہوجاتے ہیں ا س لئے والدین اور بچوں کی آپس
میں بات چیت ہو ، بچوں سے پیار کریں بچوں میں خود اعتمادی پیدا کریں خود
اعتمادی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ان کو تنہاچھوڑ دیں ، ان پر نظر رکھیں بچوں
کو اچھے برے کا فرق بتائیں بچوں کو دوستانہ ماحول دیں تاکہ بچے آپ سے اپنے
دل کی ہر بات یا پریشانی شیئرکر سکیں، والدین یہسوچتے ہیں کہ بچے عمر کے
ساتھ ساتھ خود بخود سیکھ لیں گے دوسری طرف بچے یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم اپنے
والدین سے یہ پوچھیں گے تو وہ ہمیں ڈانٹ دیں گے یا وہ برا مان جائیں گے
کہیں وہ اسے بد اخلاقی نہ سمجھیں یہ ایک فطری عمل ہے بڑوں کے مقابلے میں
بچے کسی نئی چیز کو جاننے کی لیئے زیادہ تجسس رکھتے ہیں اگر ان کے اس تجسس
یا مسئلے کو والدین طریقے سے حل نہیں کریں گے تو وہ کسی دوسرے فرد سے ضرور
پوچھیں گے اس طرح بچے غلط لوگوں کی باتوں میں پھنس سکتیہیں کسی بچے کو اگر
غلط معلومات مل گئیں تو یہ بچے اور والدین دونوں کے لیے بالکل اچھا نہیں
ہوگا بچوں پر ایسی نظر رکھیں کہ بچے اس بات کو محسوس نہ کرسکیں کہ ان پر
نظر رکھی جا رہی ہے بچوں کو پیار و محبت سے اچھے برے کا فرق سمجھائیں
والدین کو چاہیئے کہ بچوں کو اہمیت دیں کیونکہ اس سے بچوں کے اعتماد میں
اضافہ ہوتا ہے بچوں کے نزدیک سب سے خوشگوار بات یہ ہی ہے کہ ان کی باتوں کو
دلچسپی سے سنا جائے اور ان کی بات کو اہمیت دی جائے پیار محبت سے بچوں کو
ان سوالات کے جوابات دینا چاہئیں جن کے جوابات ان کی عملی زندگی میں مدد
گار ہوں -
بچوں کو یہ واضح طور پر بتائیں کہ اپنی حفاظت کریں لوگ بچوں کو محبت میں
گود میں بٹھا لیتے ہیں تو ان کو صاف الفاظ میں منع کریں یا بچوں کو
سمجھائیں کہ یہ بھی صحیح نہیں ہے بچے پیار کی زبان سمجھتے ہیں اور اس کا
فائدہ کوئی بھی اُٹھا سکتا ہے بچوں کو good touchاور bed touchکا مطلب
سمجھائیں اس میں کوئی شرم نہیں یہ آپ کے بچے کی زندگی کی ایک سچائی ہے جسکو
بتانا آپ کا فرض ہے بچوں کو سمجھائیں کہ کوئی بھی بات اچھی یا بری آپ سے یا
اپنے بزرگ ( دادا دادی یا نانا نانی ) سے کہہ دیں بچوں کو ’’نہیں ‘‘ کہنا
سکھائیں گفٹ ، یا کوئی چیز کسی بھی انجان، دور یا قریب کے رشتہ دار سے نہ
لیں اگر بچے خدانا خواستہ کسی مصیبت یا ایسی صورتحال میں پھنس جائیں جس سے
باہر نکلنا انکے بس میں نہیں تو اپنے والدین سے ضرور شیئر کریں اگر کوئی
تحفہ لیتے ہیں تو والدین کو یہ معلوم ہونا چاہیئے بچوں کو بھرپور اعتماد
دیں کہ اگر کوئی انہیں ڈرائے یا دھمکائے تو فوراً بتائیں دولت و نمود و
نمائش سے بچیں، بچوں کو اسکول اور ٹیوشن چھوڑنے اور لینے خود جائیں ، یا
کوشش کریں کہ ٹیوشن اور دینی تعلیم کا انتظام گھر پر ہی ہوجائے اس طرح آپ
ذہنی کوفت اور خوف سے محفوظ رہیں گی بچوں کے ٹیچر سے بھی ملاقات کرتے رہیں
، ٹیچر اپنے ہر بچوں پر ماں کی طرح توجہ دیتی ہیں اتنی زیادہ توجہ کہ آپ سے
زیادہ بچے کی نیچر، اس کی ٹیچر جانتی ہیں -
ہمارے معاشرے میں مسائل کا دباؤبڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے گھر کے بڑے اس دباؤ
کو کم کرنے کے لیے ہمہ وقت مصروف نظر آتے ہیں ، اکثر گھروں میں ماں باپ
دونوں ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں نا چاہتے ہوئے بچوں کو وقت نہیں دیتے بچے
اپنے ماں باپ سے شکوہ کرتے ہیں کہ بسا اوقات یہ باتیں دلوں میں رنجش کا سبب
بنتی ہیں بچوں کو مختلف صورتحال کی تربیت دیں تاکہ وہ اپنا تحفظ خود کر
سکیں مثلاً کسی سے بچاؤ کی صورت میں ہاتھ یا بازو پر کاٹ کر بھاگ سکتے ہیں
وہ چیخ چلاکر دوسروں کو مدد کے لیے بلا سکتے ہیں بچوں کو مختلف قسم کی
تربیت دیں اس میں شرم کی بات نہیں ہے یہ آپ کے بچے کی زندگی کا معاملہ ہے
کسی بھی خطرے سے پہلے انہیں ذہنی طور پر تیار کر لیں اس طرح آپ انہیں محفوظ
کرسکتے ہیں بچوں کا زیادہ تر واسطہ مردوں سے پڑتا ہے وہ ہر ایک کو انکل ،
آنٹی کہہ کر پکارتے ہیں اس سے بات کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے
گھرکے نوکر کو چاچا یا ماسی کہہ پکارتے ہیں ان سے فری بھی ہوجاتے ہیں لوگوں
کے چہرے پر اچھا یا برا نہیں لکھا ہوتا بچوں کو ان کی عمر کی مناسبت سے
صحیح اور غلط کا فرق سمجھائیں کوئی انہیں ٹافیاں ، بسکٹ ، یا کوئی چیز دے
اور اپنے ساتھ چلنے کو کہے تو صاف منع کردیں بچوں کو ’’ نہیں ‘‘کہنا سکھانا
ضروری ہے، کوئی ہراساں کرے تو یہ بات چھپانے کی نہیں ہے فوراً والدین کو
بتانا چاہیئے بچوں کو اپنے دفاع کے لیے تربیت دینا بھی ضروری ہے مثال کے
طور پر بھاگنا ، چیخنا ، کاٹنا ، مچلنا ، ہاتھ پیر مارنا وغیرہ یہ معلومات3
سال کے بچے کے لیے بھی کافی ہے ، اپنے ماضیسے سیکھیں ،اگر بچپن میں
خداناخواستہ آپکے ساتھ یا آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقع ہے تو مناسب الفاظ
میں بچوں کو سمجھائیں وہ معلومات دیں جو آپ کو نہیں ملی تھیں ۔بچوں کا محبت
کی تلاش میں بھٹکنے نہ دیں کہیں کوئی انہیں مس گائیڈ نہ کر دے والدین مجبور
اور بے بس ہوجاتے ہیں آپ کو جتنا بھی جب بھی ٹائم ملے بچوں کو اپنی محبت
اور ان کی اہمیت کا یقین دلائیں انہیں محبت سے سمجھائیں کہ یہ سب ان کے
بہتر مستقبل کے لیے شب و روز انتھک محنت میں مصروف رہتے ہیں-
آج کل کے دور میں الیکڑانک میڈیا نے بچوں کو وقت سے پہلے بڑا کر دیا ہے
کیبل کی مدد سیغیر ملکی چینل ہمارے معاشرے میں پھیل چکے ہیں یہ ہمارے
معاشرے اور ہمارے بچوں پر بہت بری طرح اثر انداز ہورہے ہیں والدین بچوں کو
اپنے گھر میں ان پروگرام کی روک تھام کر لیں گے مگر بچے کسی دوسرے بچوں سے
ملتے ہیں تو ان کے درمیان یہ پروگرامز ایسے زیر ِ بحث ہوتے ہیں ( جسے ٹی وی
پر پروگرام دیکھ رہے ہوں) تو جو نہیں دیکھتے وہ بھی تجسس میں مبتلا ہوجاتے
ہیں اکثر بچے ٹیوشن سے جلدی چھوٹی لیکر آجاتے ہیں کہ انہیں ڈرامہ دیکھنا
ہوتا ہے اس طرح پھرغلط ذرائع نکلتے چلے جاتے ہیں ، بچوں کوآپ ہی اچھے برے
کا فرق سمجھا سکتے ہیں، بچوں کو ان کی عمر اور ذہنی سوچ کے لحاظ سے ضروری
معلومات دینی چاہیئے کیونکہ والدین ہی بچوں کے سب سے زیاوہ قریب ہوتے ہیں
بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون ، ٹبلیٹ، اسمارٹ فون پکڑاکر آپ ان سے دشمنی کر
رہے ہیں کتنے والدیں کو تو یہ بھی پتا نہین کہ ان کے بچوں کے پاس موبائل
فون ہیں یا نہیں فلموں کی اسٹوری ہو یا فلم اسٹار کی گوسپ ہر بچے کو معلوم
ہوتا ہے مگر ان سے نماز یا کلمہ سنیں تو چند بچوں کو یاد ہوگا ، ہم اپنے
بچوں کے کچے ذہنوں کو خود تباہ کر رہے ہیں -
بچے ہمارا سرمایہء حیات ہیں یہ ہماری زندگی ہیں ان کے دم سے ہمارے گھر میں
رونق ہے بچے سب کو عزیز ہوتے ہیں سیاسی اور دوسرے لوگوں سے جھگڑا اور دشمنی
سے بچیں جہاں تک ہو بچوں کی حفاظت کو ممکن بنائیں بچے فرشتوں کی طرح معصوم
ہوتے ہیں ان کی حفاظت کریں یہ ہمارے باغ کے پھول ہیں انہیں مرجھانے مت دیں
ان کی حفاظت کریں بچوں کو ان موضوع پر معلومات اور آگاہی ضروری ہے کیونکہ
یہ واقعات معمولی نہیں کہ انہیں نظر انداز کیا جائے یہ واقعہ بچوں کی زندگی
، سوچ اور نفسیات پر بہت بری طرح اثر انداز ہوسکتا ہے - |