چغل خوری اور غیبت ۔۔ایک عام بیماری
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
ایک مرتبہ ایک صاحب نے کسی
اﷲ والے سے آکرکہا، حضرت فلاں آدمی آپ کوبُرابھلاکہہ رہاتھا،آپ سن کرخاموش
ہوگئے،کچھ جواب نہیں دیا،جب مجلس ختم ہوگئی، توگھرتشریف لے گئے اورایک بہت
بڑاتحفہ تیارکرکے اس برائی کرنے والے کے گھربھیج دیا،لوگوں نے کہاکہ حضرت
وہ توآپ کوبُرابھلاکہہ رہاتھااورآپ نے اس کے پاس تحفہ بھیجاہے،انہوں نے
جواب میں فرمایا:وہ تومیرے محسن ہیں ،اس لئے کہ اس نے بُرائی کرکے میری
نیکیوں میں اضافہ کردیاہے،یہ اس کامجھ پراحسان تھاکہ آخرت میں میری نیکیاں
بڑھادیں،تومیں نے دنیامیں اس کے بدلے میں ہدیہ بھیج دیا۔اﷲ تعالی کاایک
مشرک ،بے ایمان اور چغل خورکے متعلق فرمان ہے:’’ولا تطع کل حلّاف
مھین،ہمازمشاء بنمیم،منّاع للخیر معتد أثیم،عُتُلّ بعد ذلک
زنیم‘‘(ترجمہ)اور تو کہا مت مان کسی بھی قسمے کھانے والے کمینے کا،طعنے
دیتاہے،چغلیاں کھاتاپھرتاہے،خیر سے روکنے والاہے حد بڑھا ہوا گناہگار
ہے،اُجڈ اور پھر حرامزادہ بھی ہے،(القلم 10.11.12.13.)۔حضرت عبداﷲ بن مبارک
رحمہ اﷲ تعالی کاقول ہے کہ ’’زنیم‘‘سے مرادوہ حرامی، ولدالزناہے،جوکسی کی
کوئی بات نہیں چھپاتا۔
حضوراکرم ﷺکاارشادگرامی ہے:’’لایدخل الجنۃ قتات‘‘(ترجمہ)چغل خورجنت میں
نہیں جائے گا (متفق علیہ) ۔
رمضان المبارک میں اپنی اصلاح کی شدید ضرورت ہے،دیگر امراض کے ساتھ بطورِ
خاص اس اخلاقی برائی کی بیخ کنی پر توجہ دینا چاہیئے ،کیونکہ اس کا تعلق
حقوق العباد سے ہے اور روزہ کی معنویت اس سے ختم ہوجاتی ہے،ہمارے یہاں کے
سیاستدانوں اور صحافتی برادری کا تو کام ہی یہی ہے،پلیزرمضان میں کم از کم
احتیاط۔۔ معلوم ہونا چاہیئے،کہ ہراس بات کوظاہرکرناچغلی ہے جس
کوچھپاناچاہیئے،چاہے اس کااظہارزبان سے ہویاعمل سے یاقلم سے یااشارے سے
،چاہے اس کاتعلق قول سے ہویاعلم سے،چاہے وہ کوئی عیب ہویانہ ہو،یہ سب چغلی
میں داخل ہے۔
گزشتہ زمانوں کی بات ہے،ایک آدمی بازارگئے،کوئی ایک غلام خریدکے لے آئے،
بیچنے والے نے یہ بتادیاکہ وہ غلام توبڑااچھاہے،بڑاخدمت گزارہے بڑے کام
کرتاہے لیکن اس میں ایک خرابی ہے ،ایک عیب اس میں ہے،پوچھا،کیاعیب
ہے؟کہا:یہ چغل خوری کرتاہے،لینے والے نے کہا:مجھے چغل خوری سے کیاغرض
ہے،میں نے توکام کرواناہے،گھرکا سامان لے کے آناہے،سودابازار سے لے کے
آناہے،دیگرتمام کام کرنے ہیں۔خیریہ لے کے جب گھرمیں آگئے، چنددن گھرمیں
گزارنے کے بعد،ایک دن اس کوموقع مل گیا،تواپنے آقاکی بیوی سے یوں کہنے
لگا،کہ تمہارے شوہر کوتم سے کوئی محبت نہیں ہے،وہ تودوسری شادی کرناچاہتے
ہیں،عورت توہوتی ہی ہے کچے ذہن کی،فوراًتسلیم کرلیا،عورت نے پھراسی غلام سے
پوچھا،پھرکیاہوناچاہیئے،اس پریشانی کا ازالہ کیسے ہو،اس نے کہا: ازالہ یہ
ہے کہ آپ نے مجھے اپنے میاں کے سرکے چندبال دینے ہیں اوران بالوں پرمیں کچھ
منترپڑھواکرلے آؤں گااوروہ بال تم اپنے پاس رکھ لینا،توپھرتمھارے میاں تم
سے بے انتہامحبت کرنے لگیں گے۔
عورت اپنے معاملے میں بے چاری مخلص تھی،اس کی یہ تمناتھی کہ شوہرکی توجہ
مجھے حاصل ہو،اوریہ ہربیوی کی خواہش ہوتی ہے کہ شوہرکی محبت حاصل ہو،چنانچہ
عورت نے کہاکہ میں کرلوں گی،رات کوجب شوہرپاس آیاپہلے سے اس نے استرااپنے
پاس رکھ لیاتھاکہ چندبال جب یہ لیٹے گا،میں آہستہ سے کاٹ لوں گی،گویااس
ارادے سے قینچی،چھری یا استر وغیرہ ارکھ لیا،دوسری طرف یہ منافق چغل خوراس
کے شوہرکے پاس گیا،اسے جاکے کہنے لگا: تمہیں معلوم ہے تیری بیوی تجھ سے
محبت نہیں کرتی،اس کاغیرسے تعلق ہوگیاہے،اوروہ تجھے راستے سے ہٹاناچاہتی ہے
اورکسی بھی وقت تجھے قتل کردے گی،خبرداررہنا، ہوشیار رہنا،شوہرجب رات
کوگیا،وہ پہلے سے ہوشیارہوکرگیااورپھرجیسے ہی وہ جاتاہے، تووہ آلہ وہاں
پاتاہے، جس آلہ سے بال کاٹے جاتے ہیں اورجن آلات سے آدمی کوذبح
کیاجاتاہے،جب وہ اسے ملے اوراس نے دیکھے تووہ سمجھ گیاکہ ہاں وہ بات جومجھے
بتائی گئی تھی ،و ہ سچی تھی،یہ آلات بیوی نے خودلاکے رکھے ہیں،یہ
میرابندوبست کرناچاہ رہی ہے اورمجھے راستے سے ہٹاناچاہتی ہے، تواس نے وہ
چھری نکال کرعورت کوذبح کردیا۔ اورچغل خوری کی وجہ سیاچھا خاصا ہنستا
مسکراتا گھرتباہ وبرباد ہوگیا۔لہذا رمضان میں یا غیرِ رمضان میں چغل خوری
کرنے،یا چغل خور کا ساتھ دینے اور انہیں اپنے پاس بٹھانے یا جاکر اُن کے
پاس بیٹھنے سے اَلحَذَر..اَلحَذَر۔
ڈاکٹر ولی خان المظفر
عربی مشاہیر علماء کی نظر میں
امام شافعی : میں نے عربی کے ذریعے فقہ کو پہچانا۔
علامہ سیوطی : عربی زبان کی تعلیم و تعلّم ہر مسلمان پر فرض ہے ۔
ابن تیمیۃ : عربی زبان دین کا حصہ ہے اس کو سیکھنا فرض ہے۔
ابن مبارک : جس شخص کی عربی مضبوط نہیں اس کا علم مضبوط نہیں ۔
امام رازی : قرآن وحدیث کے علوم کے لیے عربی ادب بطور کنجی ہے۔
مجاہد: عربی سے نا آشناشخص پرقرآن کے متعلق لب کشائی حرام ہے۔
خوارزمی: عربی میں اپنی مذمت فارسی میں تعریف سے اچھی لگتی ہے۔
ابن قیم الجوزیہ: قرآن کے فضائل و محاسن عربی کا ماہر ہی جان سکتاہے۔
علامہ شوکانی: اجتھاد کی شرائط میں سے ایک بنیادی شرط عربیت ہے۔
علامہ شاطبی: علمی بحث یا تو عرب کریں یا جو اُن کی طرح عربی جانتاہو۔
امام الہند دہلوی: امام ابوحنیفہ عربی الاصل والنسل تھے۔
حاجی امداد اﷲ: میں نے اپنے شوق سے اولاً عربی کی تعلیم لی پھرتفسیرــ․․․․۔
ابوالکلام آزاد: عربی میری مادری زبان ہے،اردو سیکھی ہے۔ احمد حسن زیات :
عربی ادب تمام زبانوں کے ادب سے زیادہ کامل ہے۔ علامہ ابن نجیفی : عربی سے
ناواقف مجتہد ’’ضلّ وأضلّ‘‘ کا مصداق ہے۔ علامہ کشمیری : قرآن کے لیے سب سے
زیادہ ضرورت لغت کی ہے۔
مولانا اعزاز علی : عربی ادب کا علم تما م علوم کا مجموعہ ہے ۔
مفتی محمد شفیع : ا نسانیت کی سب سے پہلی زبان عربی زبان ہے۔
علامہ بنوری: اسلام اور عربی زبان کا جو باہمی رشتہ ہے وہ محتاجِ بیا ن
نہیں۔
مفتی محمود : تفقّہ فی الدین کے لیے عربی ادب ضروری ہے۔
ابوالحسن علی ندوی: عربی کو کبھی بطور زبان پڑھانے کی کوشش نہیں کی گئی۔
خواجہ خان محمد: علمی استعداد عربی کے بغیر ممکن نہیں۔
مفتی احمدالرحمن : علماء عربی زبان میں ضرورمہارت حاصل کریں۔
مولانا لدھیانوی شہید: قرآن وحدیث میں مہارت عربیت پرموقوف ہے۔
مفتی شامزئی شہید: رسوخ فی العلم کے لیے رسوخ فی العربیہ شرط ہے۔
علامہ حیدری شہید: صرف عربی ہی نہیں عربوں سے بھی محبت ضروری ہے۔ علامہ
احسا ن ا لہی ظہیرشہید: مسلمان پر عربی زبان بقدر ضرورت فرض ہے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین خان: عربی ساری انسانیت کی زبان ہے۔
سرآغا خان : پاکستان کی سرکاری زبان عربی ہونی چاہیے۔
قاضی حسین احمد: ارَبک لینگویج انٹرنیشنل ڈے کا بھرپوراہتمام کیا جائے۔
علامہ عبدالغنی شہید : علوم دین کی عمار ت عربیت پر قائم ہے۔
مولانا بجلی گھر : اس مولوی کو عالم نہیں مانتا جس کو عربی نہیں آتی۔
حضرت شیخ سلیم اﷲ خان : عربی زبان کا ماہر عالم سونے کی چڑیا ہے۔
مولانا عبدالمجید لدھیانوی: علوم ِعربیہ کی عمارت عربی زبان پر استوار ہے۔
حضرت حکیم اختر : عربیت پر قادر علماء کی قدر کرتا ہوں۔
شیخ الاسلام محمد تقی عثمانی :علماکاعربی پر مکمل عبور حاصل کرنا ضروری ہے
۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر: عوام کیلیے ایمہ ٔمساجد عربی کی تعلیم کا اھتمام
کریں۔
شیخ مغفوراﷲ: سلف نے عربی اسلوب وطرزِتکلم کے لیے دور کے اسفار کیے۔
مولانا فضل الرحمن : پاکستان میں عربی لازمی مضمون کر دیں گے۔
محترمہ بینظیر بھٹو: میرا خاندان یمنی الاصل عرب ہیں۔
مولانا محمد احمد لدھیانوی: کارکنوں کو عربی سیکھنے کا حکم دیتا ہوں۔
جنرل حمیدگل: عربی زبان اسلام کی اساس ہے۔
مولاناشیرانی : ملک میں عربی زبان لازمی قرار دینا آئین کا تقاضا ہے۔
ڈاکٹر شیرعلی شاہ: عرب ممالک ویزے کے لیے عربی زبان شرط بنائیں۔
حافظ حسین احمد : دوقومی نظریے کے مطابق مسلم قوم کی زبان عربی ہے۔
سید سلمان ندوی: علماء کے لیے عربی فرض عین ہے۔
مولانا طارق جمیل: ہم نے اپنے یہاں بول چال عربی میں لازم کی ہے۔
ڈاکٹر امجد: بچوں کو شروع ہی سے عربی زبان مکمل سکھادینا ضروری ہے۔
شیخ شفیق بستوی: علوم دینیہ میں مہار ت عربی ادب میں پختگی پرموقوف ہے۔ شیخ
یوسف القمر: عربی عالم ِاسلام کی سرکاری زبان ہونی چاہیے۔
عمران خان: پاکستان میں اردو انگریزی کی طرح عربی بھی سرکاری زبان ہونی
چاہیئے۔
ڈاکٹر خالد سومرو: علومِ شریعت میں پختگی عربیت پر موقوف ہے۔
مولانا رفیق اﷲ خان : عربی اور اسلام دونوں مربوط ہیں۔
قاری حنیف جالندھری: عربی اسلام اور علم کی زبان ہے۔
مفتی منیب الرحمن: عشقِ مصطفی میں عربی سیکھنا فرض ہے۔
مفتی فیروز الدین ہزاروی: پاکستان میں عربی کی ترویج ضروری ہے۔
مولاناادریس سومرو: عربی زبان کے بغیر دینِ سلام کا صحیح فہم مشکل ہے۔
محمودشام: اہلِ پاکستان عصرِ حاضر میں عربی پر توجہ دیں۔
حاجی مسعود پاریکھ: عربی زبان سیکھنا مسلمانوں پر فرض ہے۔
شیخ محمود سامرائی: اگلی صدی اسلام اور عربی کی صدی ہے۔
یحییٰ پولانی : عربی اور انگریزی فی زمانہ میں مسلمان کے لیے ضروری ہے۔
غنی خان : عربی تحریروتقریر میں مجھے پشتوکی طرح کوئی تکلف نہیں ہوتا۔
حاجی ہارون: عربی بین الاقوامی طورپرتسلیم شدہ زبان ہے۔
ڈاکٹرعبد الرشید: عربی کی طرف عالمی سطح پر رُجحان بڑھ رہاہے۔
ڈاکٹر محسن نقوی : علوم دینیہ کے لیے عربی ادب بلاشک وشبہ ضروری ہے۔
ڈاکٹر دانش: عربی کے لیے اب ٹھوس پلاننگ کی شدید ضرورت ہے۔
ڈکٹر عامر لیاقت: عربی کی اہمیت کو میڈیا میں مؤثر طریقے اٹھاناہوگا۔
ڈکٹر قبلہ ایاز: عصری جامعات میں عربی کو فروغ دیا جائے۔
ٓآسیہ عارف: میں اپنی زندگی عربی کے لیے وقف کرتی ہوں۔
جاوید چودھری: قرآنی اصطلاحات کی تہ تک رسائی بغیر عربی کے ممکن نہیں۔
شیخ سمیع اﷲ عزیز: مدارس کے بجائے عوام میں عربی کے لیے کام کیاجائے۔
مولانا عبدالہادی: انگریزی کی طرح عرَبک لینگویج سینٹرزکی حاجت ہے۔
شیخ موسی العراقی :عرب لیگ وخلیج اتحاد کو عربی زبان پر بھی توجہ دینی
چاہیے۔
عظمت علی رحمانی: پاکستان عربی تہذیب علَم بردار دوسرا مصر بن سکتاہے۔
رعایت اﷲ فاروقی:برصغیر میں عربی کے فروغ کے لیے مربوط کام کرنا ہوگا۔
خلیل بُلیدی: عصرِ حاضر کی عربی شاعری بھی نصاب میں شامل ہو۔
خالد حجازی: جدید عربی کے لیے جدید ذرائعِ اِبلاغ کی طرف جانا ہوگا۔
آئینِ پاکستان: عربی کو فروغ دینے کے لیے حکوت اقدامات کریگی۔
اقوامِ متحدہ: عرَبی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے توسط سے عالمی زبان ہے۔ |
|