روزہ اور ہماری ذمہ داریاں

روزہ صرف دن بھر کھانے پینے پر پابندی لگانے یا فاقہ کرنے کا نام نہیں اس سے مقصود اللہ اور رسولؐ کے ہر ہر حکم کے اتباع کا جذبہ پیدا کرنا، اپنے اعمال کی اصلاح کرنا اورحیوانی خواہشات کو قابو میں رکھنے کی تربیت حاصل کرنا ہے۔ اسی وجہ سے ماہ مقدس کے دوران خدا کی رحمتوں کی زیادہ بارش ہوتی ہے اور ہر بندہ مومن اورصاحب ایمان ان سے اپنی اپنی استعداد کے مطابق مستفید ہوتا ہے۔ ہم سب اس ماہ عظیم کا بہت احترام کرتے ہیں اور اس کے تقدس کا بہت پاس و لحاظ کرتے ہیں۔ مسلمان عام طور پر زکوٰۃ و خیرات بھی اس مہینے میں سب سے زیادہ دیتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہم چاہیں تو اس مہینے کی ریاضت کے نتیجے میں بقیہ پورے سال کے لئے اپنے خیالات، کردار اور عمل میں سچائی، شفافیت اور للہیت پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ ایک بڑا موقع ہے جو اللہ تعالیٰ ہمیں تربیت اور تزکیہ نفس کے لئے فراہم کرتا ہے لیکن کیا ہم واقعی اس سے پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی دنیا و آخرت کو ہر ممکن سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے ہاں نیک، پارسا اور خدا سے ڈرنے والے لوگوں کی کمی نہیں لیکن یہ کہنے یا لکھنے میں بھی کوئی باک نہیں کہ ہمارا مجموعی طرز عمل رمضان المبارک کے ماہ عظیم کے شایان شان نہیں ہوتا۔ اس مہینے کی آمد کے ساتھ ہی اشیاء ضرورت کی قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھا دی جاتی ہیں۔ منافع خور کی چاندی ہوتی ہے۔ رشوت ستانی میں کمی نہیں آتی، غبن اور بڑے بڑے ڈاکوں کی واردات جاری رہتی ہیں۔ دھوکہ دہی اور فریب کے واقعات میں کمی نہیں آتی اگرچہ مساجد کی رونق بڑھ جاتی ہے، نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن گلی، محلے، بازار اور دفاتر کے اندرہمارے طرز عمل میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ہمارے معاملات جوں کے توں خرابیوں کا شکار رہتے ہیں۔ اس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم روزہ رکھ کر بھی ماہ رمضان کی حقیقی برکات کو سمیٹ نہیں پاتے ۔ اس حوالے سے دو طبقوں کا طرز عمل تو خاص طور پر قابل توجہ ہے اور اس کے اندر بنیادی اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہ اصلاح ہم ماہ رمضان میں نہیں کریں گے تو مسلمان ہونے کے ناتے اس سے اچھا موقع ہمیں نہیں ملے گا۔ یہ دو طبقات ہمارے تاجروں، صنعتکاروں اور حکومتی اہلکاروں پر مشتمل ہیں۔ تجارت اور صنعت کاروں کا اس ماہ مقدس کے دوران طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ وہ اور کچھ نہیں تو ثواب کمانے کی خاطر اشیاء ضرورت کی قیمتوں کو پہلے سے نہ بڑھائیں تھوڑا سا رایثار کرکے ان میں کمی لے آئیں اور ذخیرہ اندوزی سے مکمل پرہیز کرکے ان کی وافر مقدار کو دکانوں اور بازاروں میں مہیا کریں۔ ان کی کوالٹی کو بھی پہلے سے بہتر کریں کہ یہ روزے داروں کا حق اور ماہ رمضان کے احترام کا تقاضا ہے۔ اور جیسا کہ مغربی قوموں کا شیوہ ہے کہ وہ کرسمس کے موقع پر پورے مہینے کے لئے چیزوں کے دام کم کردیتے ہیں، ان کے معیار میں فرق نہیں آنے دیتے ، ہم انہیں برا بھلا تو بہت کہتے ہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان کا یہ طرز عمل ہمارے مقابلے میں اسلام اور دین حق کی تعلیمات کا زیادہ آئینہ دار ہوتا ہے۔

اسی طرح حکومتی کارندے جو عام سرکاری ملازم سے لے کر بڑے بڑے عہدوں پر فائز بیوروکریٹس اور نامی گرامی وزراء پر مشتمل ہیں ان کابھی فرض ہے کہ وہ کم از کم اس مہینے کے دوران کام چوری نہ کریں، رشوت لینے یا دینے کے قریب نہ پھٹکیں، غبن کا بھی ایک پیسہ ہضم نہ کریں اور ان میں سے جو ایسا کرتا ہوا پایا جائے اسے پکڑ کر قانون کے تحت سخت ترین سزا کا مستحق ٹھہرائیں کہ جو شخص رمضان کے دوران ایسی حرکات کرتا ہے وہ دہرے گناہ کا مرتکب قرار پاتا ہے۔ ایک قانون کی خلاف ورزی دوسرے شرعی اصولوں کی پامالی۔ اگر ہمارے سرکاری اہلکاروں کی بھاری اکثریت کے اندر یہ جذبہ اور طرز عمل عود کر آئے تو ہمارے حکومتی ملازم سرکاری اختیارات کے ساتھ اتنی بے پناہ اخلاقی قوت کے مالک بن جائیں گے کہ وہ جس تاجر یا صنعتکار کو منافع خوری، ذخیرہ اندوزی یا قیمتوں میں غیر ضروری اضافے کا مرتکب پائیں اس کی قانون کے تحت بروقت گرفت کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔یوں ان کے اندر غیرقانونی یا غیر اخلاقی کام کی حرارت یا ہمت باقی نہ رہے گی۔ نتیجہ یہ ہوگاکہ روزہ داروں کو سستی یا مناسب قیمتوں پر اشیاء ضرورت دستیاب ہوں گی۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ان کے نرخ آسمان سے باتیں نہیں کر رہے ہوں گے۔ دکانوں پر ملنے والی مصنوعات کا معیار پہلے سے بہتر ہو جائے گااور رمضان کی رحمتیں اور برکتیں مساجد سے نکل کر ہمارے گھروں، گلی بازاروں اور دفاتر کو اپنی لپیٹ میں لیں گی۔ پھر ہمیں وہ تربیت حاصل ہوگی جو پورا سال ہمارے طرز عمل کو درست رکھنے میں مدد دے گی۔ کیا یہ کوئی مشکل یاناممکن کام ہے۔ رمضان کا حقیقی معنوں میں اقدام صرف اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم سب اپنے اعمال کی خود اصلاح کریں گے، اپنا محاسبہ خود کریں گے، تمام حکومتی حکام اپنی ذمہ داریوں کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ فرض شناسی اور ایمانداری سے ادا کریں گے، تاجر اورصنعتکار حقیقی معنوں میں خدا کے خوف سے سرشار ہو کر عام آدمی کی جیبوں کو لوٹنے سے مکمل احتراز کریں گے۔ لہٰذا اس ماہ عظیم کے آغاز پر ہم بڑی دردمندی اور عاجزی کے ساتھ اپنی قوم کے ہر ہر فرد سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ معاشرتی قومی اور دوسری ہر قسم کی ذمہ داریوں سے اس طرح عہدہ برآ ہونے کی کوشش کریں کہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ صرف اور صرف یہ طرز عمل اپنا کر ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ ہمارے روزے اوردیگر جسمانی عبادات جن میں تراویح اور نمازیں شامل ہیں بارگاہ خداوندی میں شرف قبولیت حاصل کریں اور اس کی جناب سے ہم پر صرف ماہ رمضان میں ہی نہیں بلکہ پورا سال رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہے۔
Ainee Tahir
About the Author: Ainee Tahir Read More Articles by Ainee Tahir: 4 Articles with 5678 views Ye Meri Umar, Mere Maah-o Saal De Uss Ko,
Mere Khuda Mere Dukh Se Nikaal De Uss Ko …!
.. View More