اسلام ایک عالمگیر مذھب یا نظام حیات ہی کیوں
(atika abdul razzaq, hafizabad)
اگر ھم تنقیدی یا بغور
جائزہ لیں تمام ادعیان پر جو اس دنیا میں قابل عمل یا زندہ ہیں۔ مثلا اسلام،
عیسائیت، یہودیت،بدھ مت،جین مت،ہندوازم،پارسی،سکھ ازم اور لادین ہم ان کو
دو گروپ میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ الہامی اور غیر الہامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الہامی میں اسلام،عیسائیت،یہودیت ہیں۔
غیر الہامی ہندو ازم،بدھمت،جین مت،پارسی،سکھ ازم، لادین ،
اب ہم پہلے بغور جائزہ اسلام،عیسائیت اور یہودیت کا لیں گے۔ سب سے پہلے
یہودیت حضرت یعقوبؑ سے شروع ہوئی ان کی تعلیم کا اگر لب لباب دیکھیں تو
قرآن کی رو سے وہ مواحد تھے۔ اللہ کو ایک ماننے والے اور اس کی عبادت کرنے
والے تھےاور اس کے دیے ہوئے راستے پر چلنے والے تھے۔انھو ں نے اپنے بیٹوں
سے خالص توحید کی بیعت لی کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے۔ جسس کی
حضرت ابراہیمؑ کرتے تھے۔مگر بعد میں ان کی میں عقائد اور اعمال میں بگاڑ
آنا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سےیے فرعون کے غلام بنا دیے گئے۔ آخر اللہ کی
رحمت سے حضرت موسیٰؑ کی بدولت اس قوم کو فرعون سے نجات ملی اور ساتھ ساتھ
زندگی یعنی عبادت اور زندگی گزارنے کے لیے ایک کتاب یعنی تورات دی گئی۔ اس
مذھب کی بھی اساس خالص توحید پر تھی۔ مگر حالات کے ساتھ ساتھ تورات میں
تبدیل کی گئی جس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ نے اس قوم میں کئی انبیاءؑمبعوث
فرمائےجو ان کو خاص توحید اور صحیح اعمال کی تلقین کرتے رھے۔ مگر یہ قوم
زیادہ تر اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی۔ بہانوں سے توریت میں تبدیلیاں کرتے
رہے۔ آخر میں نصر کے ہاتھوں اور ٹائیٹس کے ہاتھوں ان کو سزا دلوائی۔ آخر
میں حٖضرت عیسیٰؑ پر انجیل نازل کی۔ انھوں نے بھی خالص توحید کی تعلیم دی۔
پر یہ قوم بھی راہ راست پر آنے کی بجائے نا فرمان ہی رہی اور ھدایت نہ
پاسکی۔ بعد میں رومی بادشاہ نے عیسائیت قبول کر لی۔ اس نے اس کی اشاعت میں
کافی کوشش کی۔ اس کے بعد انجیل میں بھی ردوبدل کر دیا گیا۔ عقیدہ توحید کو
عقیدہ ثلیث میں بدل دیا گیایعنی باپ بیٹا،بیوی یعنی خدائی تعلیم کو انسانی
سوچ و فکر یا اپنے مفادات کے لیے بدل دیا گیا۔ یہ تو الہامی ادعیان کا سیا
ق و اسباق ہے۔ اب ہم آئیں گے غیر الہامی ادعیان کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارسی یہ ایران کا مذھب تھا۔ اس کے ماننے والے لوگ آگ کی پوجا کرتے تھے اور
آگ کو ہی مقدس مانتے تھے۔ اس کے علاوہ کوئی ذندگی کا جامع تصور نہ تھا۔
صابی یہ اہل عراق کا مذھب تھا۔ یہ لوگ بت پرست تھے ان کا بادشاہ نمرود تھا۔
خود ساختہ نظریہ پر مشتمل تھایا یہ سمجھئے وقت کے بادشاہ کی بادشاہت کو
محفوظ دینے کے لیے تھا جو یقیناَ وقتی اور غیر فطرتی تھا۔
ہندوازم تجربات اور مشاہدات سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی تھا۔ اس میں
مختلف دیوتائوں کے بت تراش کر کےپوجے جاتے تھے۔زندگی گزارنے کا کوئی مخصوص
لائحہ عمل نہ تھا۔ محض تو ہم پرستی، خودساختہ چیزوں کا مجمو عہ تھا۔
بدھ مت یہ ہندو ازم کی بالادستی اور ذات پات کے نظام کے خلاف ردعمل کے طور
پر وجود میں آیا۔ اس مذھب میں خالص توحید تو نہیں لیکن زندگی گزارنے کے
اچھے اصول ملتے ہیں مگر جامعع تعلیم نہیں ملتی۔
آخر اسلام ہی ایک ایسا جامع نظام حیات ہے۔ جو سراسر الہامی عقائد کی درستگی
کی راہنمائی کرتا ہے۔ اس پر عمل کر کے نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی
کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔
اپنی رائے سے آراستہ کرے تا کہ میں زیادہ سے زیادہ مضمون لکھ کر شائع کر
سکوں۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ |
|