عشق حقیقی
(Hamid Jamil, Gujranwala)
عشق حقیقی
قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔
والذین امنوا اشد حبا للہ
ترجمہ:'' اور جو ایمان لائے اللہ کے لئے ان کی محبت بہت شدید ہے ۔ ''
انسان کو بہت سے رشتوں اور اشیاء سے محبت ہوتی ہے ۔ مثلاًاللہ تعالیٰ سے
محبت،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت ،ماں ، باپ ،بیوی ،
بچے،بہن،بھائی، رشتہ دار ،دوست ، گھر،زمین،جائیداد ، شہر، قبیلہ ، برادری،
خاندان، ملک اور کاروبار وغیرہ سے محبت ۔جس محبت میں شدت اور جنون پیدا ہو
جائے اوروہ باقی تمام محبتوں پر غالب آجائے اسے عشق کہتے ہیں ۔عشق باقی
تمام محبتوں کو جلا کر راکھ کردیتا ہے ا ور باقی تمام محبتوں پر حاوی
ہوجاتا ہے۔ جیسے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اِرشادِ مبارک ہے ''
اِس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں تم کو تمہاری جانوں
، بیوی، بچوں، گھر بار اور ہر چیز میں سب سے زیادہ پیارا نہیں ہوجاتا۔'' (بخاری
ومسلم)ا للہ نے اللہ پاک سے شدید محبت کو مومنین کی صفت قرار دیا ہے اورعشق
کا خمیر انسان کی روح میں شامل ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات پاک مخفی و پوشیدہ تھی پھر ذات کے اندر ایک جذبہ پیدا
ہوا کہ میں پہچانا جاؤں مگر یہ چاہت اور جذبہ اس شدت سے ظہور پذیر ہوا کہ
صوفیا کرام نے اسے عشق سے تعبیر کیا۔اسی جذبہ عشق میں اللہ تعالیٰ نے اپنے
نورسے ''نورِ احمدی'' کو جدا کیا اور پھر نورِ احمدی سے تمام مخلوقات کی
ارواح تخلیق ہوئیں جیسا کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ
مبارک ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھورحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''جان لو جب اﷲ واحد نے حجلہ تنہائی وحدت سے نکل کر کثرت میں ظہور فرمانے
کا ارادہ فرمایا تو اپنے حسن وجمال کے جلوؤں کو صفائی دے کر عشق کا بازار
گرم کیاجس سے ہر دو جہان اس کے حسن وجمال کی شمع پر پروانہ وار جلنے لگے اس
پر اﷲ تعالیٰ نے میم احمدی (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کا نقاب پہنا اور صورت
احمدی(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) اختیار کرلی''۔(رسالہ روحی شریف)
حاصل بحث یہ ہے کہ جب عشق(اللہ تعالیٰ) نے اپنا دربار سجایا تو سب سے پہلے
اپنی ذات سے نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ظاہر کیا پھر آپ صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور سے تمام مخلوق کی ارواح کو پیدا کیا گیا اور
یہی حقیقتِ محمدیہ ہے جس کے ظہور کیلئے یہ کائنات پیدا کی گئی ۔
اے کہ تیرے وجود پر خالق دو جہاں کو ناز
اے کہ تیرا وجود ہے وجہ وجود کائنات
کئی احادیث و روایات اِس امر کی مُوید ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے رسول کریم
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بتایا کہ
لو لاک لما خلقت الافلاق
یعنی اگرآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں یہ
افلاک پیدا نہ کرتا ۔
خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
کنت نبیاََ و ادم بین الماء والطین
یعنی میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم ابھی مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔
مطلب یہ ہے کہ ابھی تک آدمؑ علیہ السلام کا ظہور نہ ہوا تھا ۔ یا فرمایا:
انا من نور اللہ والخلق کلھم من نوری
( میں اللہ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے)یعنی تخلیق میں آپ
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اوّل ہیں ظہور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
آخر ہیں اس لئے اوّل بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں اور آخر بھی آپ
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔حضرت ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اوّل و آخر ہونے کی ایک خوبصورت مثال دی ہے کہ
مثلاً ایک تاجر ہے۔ وہ اپنے خزانے کے اوپر غالیچے کو لپیٹ کر رکھے مگر اسکے
اندر ایک دوسرے کے اوپر کئی کپڑے بھر دے تو اس صورت میں جب وہ اس غالیچے کو
کھولے گا تو جو کپڑا اس نے سب سے پہلے رکھا ہوگا وہ سب سے آخر میں نکلے گا۔
شجرۃ الکون میں ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظہور کا حال یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم کی روح مبارک سب سے پہلے وجود میں آئی اور سب سے آخر میں آپ کا ظہور
ہوا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کو اوّل و آخر کہا گیا ہے۔اقبال ؒ نے اس کو یوں بیان
فرمایا ہے:
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰس وہی طہٰ
یہ وہی مرتبہ ہے جہاں آپ کُل ہیں۔
ترجمہ: سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے تھا اورآپ سے ہوگا۔
(انسانِ کامل۔ مصنف عبدالکریم الجیلیؒ )
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد ابگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
نورِ مُحمدّیہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ظہور حالتِ بشَریت میں دنیا کی
تاریخ ماہ و سال میں اپنے وقت پر ہوا ۔ یہ آپ کا بشری وجود تھا۔ اَصطفےٰ
واحدا من خلقہ ھو منھم ولیس منھم (ترجمہ:اللہ نے اپنی مخلوق میں سے ایک کو
چُن لیا، بظاہر وہ ان میں سے ہے مگر اپنی حقیقت میں اِن سے نہیں) ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اس دنیائے آب وگل میں ظہور بھی کامل طور پر
ہوا ،یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قل انما انا بشر مثلکم پر بشریت کا
اطلاق ہوا: (ترجمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کہہ دیجیء، میں بھی تمہاری
مثل ایک بشر ہوں) نور کی حقیقت اپنے مقام پر رہی لیکن بعض دیکھنے والوں کی
نظر کے لئے یہ بشریت حجاب بن گئی کہ وہ اس بشریت کے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم کی حقیقت کو نہ دیکھ سکے: وتراھم ینظرون الیک وھم لا یبصرون
(ترجمہ اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دیکھیں ، آپ کی طرف تکتے ہیں اور
کچھ نہیں دیکھتے )ظہور کا سارا حُسن و جمال پیکرِ مُحمدّ صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم میں ڈھل گیا۔ غالب نے کہا ہے:
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
قسمت کھلیِ ترے قد ورُخ سے ظہور کی
مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مصطفٰی آئنہ روئے خداست
منعکس در وے ہمہ خوئے خداست
ترجمہ:مصطفی( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) اللہ تعالیٰ کے چہرے کا آئینہ ہیں
اور اُن میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور ہر صفت منعکس ہے۔
یعنی کائنات کی ابتداء عشق ہے اور انسان کی تخلیق عشق کے لیے ہے حضورِ اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نورِ مبارک سے جب ارواح کو پیدا کیا گیا تو
عشقِ الٰہی کا جوہرِ خاص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت سے ارواحِ
انسانی کے حصہ میں آیا۔
دیدارِ حق کے لیے طالب کے دل میں جذبہ عشق کا پیدا ہونا لازم ہے۔ دراصل روح
اور اﷲ کا رشتہ ہی عشق کا ہے۔ بغیر عشق نہ تو روح بیدار ہوتی ہے اور نہ ہی
''دیدار'' پاسکتی ہے۔ عشق ایک بیج کی صورت میں انسان کے اندر موجود ہے۔ مگر
سویا ہوا ہے جیسے جیسے ذکر وتصور اسم اللہ ذات مشقِ مرقومِ وجودیہ اور مرشد
کی توجّہ سے یہ روح کے اندر بیدار ہونا شروع ہوتا ہے۔ ویسے ویسے روح کی اﷲ
کے لیے تڑپ اور کشش میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
فقراء کاملین نے عشق کو دیدارِ حق کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ عشق کے بغیر
ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ عشقِ حقیقی ہی بارگاہ رب العالمین میں باریابی
دلاتا ہے۔ عشق ہی انسان کو ''شہ رگ'' کی روحانی راہ پر گامزن کرکے آگے لے
جانے والا ہے یہی اس راہ سے شناسا کراتا ہے۔ یہی روح کے اندر وصالِ محبوب
کی تڑپ کا شعلہ بھڑکاتا ہے۔ یہی اسے دن رات بے چین وبے قرار رکھتا ہے۔ آتشِ
ہجر تیز کرتا ہے اور یہی ''دیدارِ حق'' کا ذریعہ بنتا ہے۔
جناب سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عشاق کے متعلق فرماتے ہیں:
ترجمہ:''اگر عاشقوں کو جنت اس کے جمال کے بغیرنصیب ہوتو سخت بدقسمتی ہے اور
اگر مشتاقوں کو اس کے وصال سمیت دوزخ بھی نصیب ہو تو بھی نہایت ہی خوش
قسمتی ہے''(اسرار قادری)
عشق والوں سے معاملہ بھی جدا ہوتا ہے۔ علمائے محض سے اور طرح بات ہوتی ہے
اور عشاق کے ساتھ دوسرے طریقے سے گفتگو کی جاتی ہے عشق مشاہدہ کا وارث ہے
اور حقیقت کی تہہ یا اس کی کنہہ تک کی خبر رکھتا ہے مگر علم کی نظر سطح تک
رہتی ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو قدس سرہ العزیزنے اس کی وضاحت
اس طرح کی ہے:
واضح رہے کہ عشق کی یہ راہ مذہب وملت اور کتابوں میں لکھی ہوئی نہیں اس سے
مراد رب الارباب ہے۔ چنانچہ جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم معراج
سے مشرف ہوکر واپس تشریف لائے تو پہلے عاشقوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم سے پوچھا کہ یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ صلی اللہ
علیہ وآلہٖ وسلم نے اﷲ کو دیکھا؟ فرمایا: من رانی فقد رای الحق
(جس نے مجھے دیکھا' اس نے گویا اﷲ تعالیٰ ہی کو دیکھا) بعد ازاں علماء نے
پوچھا کہ یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
نے خدا کو دیکھا؟ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حق میں وما ینطق عن
الھوٰی ۔ ترجمہ(اورنبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی مرضی سے کچھ نہیں
کہتے)وارد ہے۔ فرمایا: تفکروا فی ایتہ ولا تفکروا فی ذاتہ (اس کی آیات میں
تفکر کرو۔ لیکن اس کی ذات کی بابت نہیں)(محبت الاسرار)
محبوب سبحانی قطب ربانی سید نا غوث اعظمؓ اپنے رسالہ اسرارِ الٰہیہ(الرسالۃ
الغوثیہ) میں بیان فرماتے ہیں؛ ''میں نے اﷲ تعالیٰ کو دیکھا پھر میں نے
سوال کیا اے رب عشق کے کیا معنی ہیں؟
فرمایا! ''اے غوث الاعظمؓ عشق میرے لیے کر' عشق مجھ سے کر اور میں خود عشق
ہوں اور اپنے دل کو ' اپنی حرکات کو میرے ماسوا سے فارغ کردے۔ جب تم نے
ظاہری عشق کو جان لیا پس تم پہ لازم ہوگیا کہ عشق سے فنا حاصل کرو۔ کیونکہ
عشق عاشق اور معشوق کے درمیان پردہ ہے پس تم پر لازم ہے کہ غیر سے فنا
ہوجاؤ کیونکہ ہر غیر عاشق اور معشوق کے درمیان پردہ ہے۔''
حضرت رابعہ بصری ؒ کا قول ہے:
سجدہ مستانہ ام باشد نماز
درد دل با او بود قرآن من
ترجمہ:مستانہ وار محبوب کو سجدہ کرنا عاشقوں کی نمازِ حقیقی اور درد بھرے
دل کاسوز وگداز ان کا قرآن پڑھنا ہے۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
عشق آں شعلہ است کہ چوں بر فروخت
ہر کہ جز معشوق با شد جملہ سوخت
ترجمہ: عشق ایسا شعلہ ہے جب بھڑک اُٹھتا ہے تو معشوق (حقیقی) کے سوا تمام
چیزوں کو جلادیتا ہے۔
خواجہ حافظ فرماتے ہیں: ''جو شخص دل میں اﷲ کا عشق نہیں رکھتا یقیناًاس کی
عبادت بے سود' مکروریا ہے۔'' (دیوان حافظ)
بابا بلھےؒ شاہ اپنی کافی'' نی میں ہن سنیا'' میں فرماتے ہیں اﷲ کے عاشق
علم وعقل کی بلندیاں پار کرکے جہاں پہنچ جاتے ہیں اس کی عالموں فاضلوں کو
کچھ خبر نہیں ۔
میاں محمد بخش صاحب رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
جنہاں عشق خرید نہ کیتا ایویں آ بھگتے
عشق باہجھ محمد بخشا کیا آدم کیا کتے
ترجمہ: جنہوں نے اس دنیا میں عشق کا سودا نہ کیا اُن کی زندگی فضو ل اور بے
کار گزری اور عشق کے بغیر آدم اورکُتے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
جس دل اندر عشق نہ رچیا کتے اس تھیں چنگے
خاوند دے گھر راکھی کر دے صابر بھکے ننگے
ترجمہ: جو دِل عشقِ الٰہی میں مبتلا نہ ہوا اُس سے تو کُتے بہتر ہیں کہ
اپنے مالک کے گھر کی نگہبانی تب بھی صبر سے کرتے ہیں جب مالک انہیں کھانے
کو بھی نہ دے اور دھکے مار کر نکالنے کی کوشش بھی کرے تو بھی نہیں جاتے۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں بھی اپنے مرشد مولانا روم رحمتہ اللہ
علیہ کی طرح عشق ہی راہِ فقر کی کلید ہے اور عشق ہی منزل تک پہنچاتا ہے۔
راہِ فقر راہِ عشق ہی ہے۔ عشق کے بغیر فقر کی انتہا دیدارِ الٰہی تک پہنچا
ہی نہیں جاسکتا۔
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دین بت کدہ تصورات
آپ رحمتہ اللہ علیہ بھی تمام عارفین کی طرح عشق کے بغیر ایمان کو نامکمل
قرار دیتے ہیں:
مسلمان اگر عشقِ الٰہی میں مبتلا نہیں ہے تو علامہ اسے مسلمان نہیں سمجھتے
۔
مسلم ار عاشق نباشد کافر است
ترجمہ: مسلمان اگر عاشق نہیں تو وہ مسلمان نہیں کافر ہے۔
از نگاہ عشق خارا شق بود
عشق حق آخر سراپا حق بود
ترجمہ: عشق کی نگاہ سخت پتھر کو بھی توڑ دیتی ہے۔ حق کا عشق آخر کار خود حق
کی مکمل صورت بن جاتا ہے۔ (حق کے ساتھ عشق آخر خود حق بن جاتا ہے)
اصل ''توحید'' عشق ہے اور عشق کے بغیرتوحید ایسے ہے کہ جیسے تلوار کے بغیر
ایک نیام ۔
عاشقی؟ توحید را بر دل زدن
وانگہے خود را بہر مشکل زدن
ترجمہ: عاشقی کیا ہے؟ عاشقی توحیدِ ایزدی (اللہ تعالیٰ) کو دِل میں بسانا
ہے اور پھر ہر مشکل سے ٹکرانا ہے یا ہر مشکل کا سامنا کرنا ہے تاکہ توحید
صحیح معنوں میں پختہ ہو جائے ۔
تحریر : خادم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس |
|