ابھی وقت ہے

یوں تو اچھے دوستوں کی رفاقت کی بدولت معمول ہے کہ زندگی کے مقاصد پر غورکرتاہی رہتاہوں ۔مورخہ ٢٢،٢٣٫٫جون ہی کی بات ہے کہ کراچی میں اس شدت سے گرمی پڑی کے سینکڑوں جانیں داعی الحق ہوگئیں ۔میں اپنے بچّوں کی امّی کے ساتھ افطار کے خوان پر بیٹھا بات کررہاتھاکہ دیکھو!!آپ کے سامنے سب کچھ پڑاہے ۔آم ،کیلے ،طرح طرح کا فروٹ،مشروب وغیرہ سب ہی کچھ ۔لیکن آپ کا ہاتھ فقط پانی کی جانب اُٹھ رہاہے اور کچھ کھانے کو جی نہیں چاہ رہا۔حالانکہ سب کچھ میسر ہے ۔

اللہ عزوجل نے ابھی ہم پر صرف اپنی نعمت ہوابند کی ہے تو ہمیں زندگی کے سب رنگ ماند پڑتے دکھائی دے رہے ہیں ۔اپنے آپ سے کوفت ہونے لگی ہے ۔عیش و تعیش کرنے والے بھی ہواکوترس رہے ہیں ۔مالک تو راضی ہوجا۔توبہ کرتے ہیں ۔تو ہواچلادے ۔تھوڑی سی ہی ہواچلادے ۔

محترم قارئین !!میں سوچ سوچ کے تھک گیاکہ اے کریم تیری کس کس نعمت کاشکر اداکریں ۔ہم تو خطاؤں کا مجسمہ ہیں ۔دنیا نے اپنی لپیٹ میں ایسا لے لیا کہ آخرت کی فکر ہی نہیں ۔

ہمیں تو اپنے آقاومولا عزوجل سے اس بات پر ڈرنا چاہیے کہ وہ ہماری باطنی لغز شوں اور زیادتیوں سے باخبر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہمیں باب ِ رحمت میں داخلے سے روک دے اورہمیں اپنی بارگاہ سے دُھتکار دے اوراپنے محبوب بندوں کی رفاقت سے محروم کردے پھرتُو رُسوائی کے جنگل میں جاگرے اور خسارے کی رسی میں بندھ جائے،پھر جب تُو اپنی گمراہی اور سرکشی سے چھٹکار ا چاہے تو تجھے غیب سے یوں ندا دی جائے:
اِلَیْکَ عَنَّا فَمَا تَحْظٰی بِنَجْوَانَا
یَا غَادِرًاقَدْ لَھَا عَنَّا وَقَدْ خَانَا
اَعْرَضْتَّ عَنَّا وَلَمْ تَعْمَلْ بِطَا عَتِنَا
وَجِئْتَ تَبْغِیْ الرِّضَا وَالْوَصْلُ قَدْ بَانَا
بِاَیِّ وَجْہٍ نَرَاکَ الْیَوْمَ تَقْصِدُنَا
وَطَالَ مَاکُنْتَ فِی الْاَیَّامِ تَنْسَانَا
یَانَاقِضَ الْعَھْدِ مَافِیْ وَصْلِنَا طَمَعٌ
اِلَّا لِمُجْتَھِدٍ بِا لْجِدِّ قَدْ دَانَا
() ہم سے دُورہوجا، ہماری دوستی سے تُونے کوئی فائد ہ نہیں اٹھایا ،اے دھوکہ دینے والے !تُو نے ہم سے مذاق کیا اورخیانت کی ۔
() تُونے ہم سے منہ موڑ لیااور ہماری اطاعت بھی نہیں کی اس کے باوجود بھی تُو ہماری رضا کامتلاشی ہے، اب وصال کاوقت نہیں رہا۔
()ہم کس لئے تیری رعایت کریں کہ آج تُوہماری طرف بڑھتاہے حالانکہ طویل زمانے تک تونے ہم کو بھلائے رکھا۔
() اے عہد تو ڑنے والے !ہماری ملاقات کی خواہش نہ رکھ یہ تو عبادت کی کوششکرنے والے کے لئے ہے اور وہ کوشش کر کے ہماراقرب پاچکاہے۔

اے باقی رہنے والی نعمتوں کو فانی آسائشو ں کے بدلے بیچ ڈالنے والے! کیا تجھے اس کا نقصان نہیں معلوم؟۔۔۔۔۔۔ وصال کے دن کتنے اچھے ہیں اور جدائی کے ایّام کتنے سخت،۔۔۔۔۔۔قوم کی زندگی اس وقت تک اچھی نہیں ہوتی جب تک وہ (راہ ِخدا عزوجل میں سفر کے لئے) اپنا وطن نہ چھوڑدے اور راتیں تلاوت قرآن میں بسرنہ کرے،۔۔۔ اسی لئے نیک لوگ اپنی راتیں اپنے رب عزوجل کے حضور سجدہ او رقیام کرتے ہوئے گزارتے ہیں ۔
محترم قارئین !بڑے خوش بخت ہیں وہ جس کی عکاسی عربی شعر میں کی گئی کہ
طُوْبٰی لِمَنْ سَھِرَتْ بِاللَّیْلِ عَیْنَاہُ
وَبَاتَ فِیْ قَلَقٍ مِنْ حُبِّ مَوْلَاہ
وَقَامَ یَرْعٰی نُجُوْمَ اللَّیْلِ مُنْفَرِدًا
شَوْقًا اِلَیْہِ وَعَیْنُ اللہِ تَرْعَاہ
ترجمہ:()خوشخبری ہے اس کے لئے جس کی آنکھیں رات کو جاگتی ہوں اوروہ اپنے رب عزوجل کی محبت میں بے قراررات گزارتاہو۔
()اوروہ اللہ عزوجل کی ملاقات کاشوق لئے ستاروں کے چھپنے کاانتظارکرتے ہوئے تنہائی میں قیام کرتاہے ،اوراللہ عزوجل کی نگاہ ِرحمت اس کی طر ف متوجہ رہتی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم زندگی کہ ہرہر لمحے کو غنیمت جانیں ۔لیکن ہم نے تو قربت کو دُوری کے بدلے ،عقل کو خواہشات کے بدلے اور دین کو دنیا کے بدلے بیچ دیا ہے۔
عربی شعر میں بہت ہی خوبصورت بات کی گئی ۔جو کہ ہمارے لیے ایک بہترین در س ہے ۔
قُمْ فَارْثِ نَفْسَکَ وَابْکِھَا
مَادُمْتَ وَابْکِ عَلٰی مَھَلْ
فَاِذَا اتَّقَی اللہَ الْفَتٰی
فِیْمَا یُرِیْدُفَقَدْکَمَلْ
ترجمہ:اُٹھ (یعنی تیارہوجا)اوراپنے نفس پر افسوس کراورجب تک توزندہ رہے اس پرروتارہ اور اپنے راحت وآرام پر آنسوبہا، کہ جب کوئی نوجوان اپنی نفسانی خواہشات کے بارے میں اللہ عزوجل سے ڈرتا ہے، تو وہ (ایمان میں)کامل ہوجاتا ہے-

محترم قارئین !آپ سے بس اتنی التجاہے کہ زندگی کے مقاصد پرغورکیجیے جولوگ اپنے مقاصد پر نظر نہیں رکھتے ۔ندامت و پشیمانی ان کامقدر بن جاتی ہے۔ابھی وقت ہے ۔پھر کے یہ لمحے ملیں یا نہ ملیں ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593935 views i am scholar.serve the humainbeing... View More