اس حقیقت کو ہر شعور رکھنے والا انسان
بخوبی سمجھتا ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی ہر شے ایک ظاہری وجو د رکھتی ہے جو
اس دنیا میں اس کی پہچان کے لیے اللہ اُسے عطا کرتا ہے اور ایک باطنی وجود
رکھتی ہے ۔ہر شے کی تمام قوتیں جن کی بنا پر وہ ترقی کرتا ہے او ر پھلتا
پھولتا ہے ،اس کے ظاہری وجود میں نہیں بلکہ باطنی وجود میں موجو د ہوتی
ہیں۔اگر جسم میں روح موجو د نہ ہو تو جسم کیسے بڑھے اور ترقی کرے۔عقل و علم
کی تمام قوتیں جو ترقی کے لیے لازمی ہوتی ہیں،ظاہری جسم کی نہیں بلکہ
اندرونی قوتیں ہیں۔
بالکل اسی طرح ہمارے دینِ اسلام کی بھی ایک روح یا باطنی حصہ ہے جو اللہ
تعالیٰ سے خالص اور محبت بھرے تعلق پر قائم ہوتا ہے او ر دوسرا ظاہری اعمال
کا حصہ ہے۔دونوں کی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلم ہے۔اگر روح نہ ہو تو ظاہری
اعمال بے فائدہ ہیں اور اگر دین کی روح یعنی اللہ سے خالص محبت تو ہولیکن
اپنے اعمال کو ان کے مطابق نہ ڈھالا جائے تو محبت کا یہ دعویٰ بھی بے کار
ہے۔البتہ ہر شے کی طرح دین میں بھی روح کو بنیادی حیثیت حاصل ہے یعنی اگر
اپنے ہرعمل میں اللہ سے خالص تعلق اور محبت کا خیال نہ رکھا جائے تو اس عمل
کا ظاہر خواہ کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو،اللہ کے ہاں اسے کچھ قبولیت حاصل
نہیں کیونکہ وہ مردہ جسم کی طرح بے کار ہے۔مثلاً جو نماز اللہ کی محبت کی
بجائے لوگوں کو دکھانے کے لیے پڑھی جائے یا جو پیسہ اللہ کی رضا کی بجائے
لوگوں میں نام کمانے کے لیے راہِ خدا میں خرچ کیا جائے وہ ’’نیکی‘‘ میں
شمار نہیں ہو گا بلکہ ریاکاری کے زمرے میں آئے گا جسے چھوٹا شرک کہا گیا ہے
اور اسی طرح دیگر تمام اعمال کے لیے ہے جنہیں ہم دین میں شمار کرتے ہیں۔
ایک عام مسلمان عموماً کوشش کرتا ہے کہ وہ اس ریاکاری سے بچے لیکن شیطان کو
بھی اللہ کے بندوں کو راہ سے بھٹکانے کے لاکھوں حربے آتے ہیں جو مسلمان خود
کو اس ریاکاری سے بچا پاتے ہیں شیطان ان کا دھیان عبادات کی روح یعنی اللہ
سے خالص تعلق اور رابطہ پیدا کرنے کی بجائے عبادات کے ظاہری اعمال کی طرف
لگا دیتا ہے۔دورانِ نماز دھیان کبھی اللہ کی طرف ہونے ہی ہیں پاتا۔اگر دنیا
سے ہٹ بھی جائے تو مکمل فکر اس بات کی رہتی ہے کہ پیر ٹھیک جگہوں پر رکھے
یا نہیں،تکبیر کے وقت بازو مناسب اُونچائی تک اُٹھائے یا نہیں،سجدے کے وقت
پیر کے انگوٹھے اوراُنگلیوں کی سمت ٹھیک تھی یا نہیں۔پورا دھیان اسطرف ہے
کہ ہاتھ پیر کہاں ہیں،دل کہاں ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں،کپڑے اور نماز کی
جگہ پاک ہے یا نہیں ،اس کی فکر میں کھو کر یہ بھول گئے کہ روح بھی پاک ہے
یا نہیں۔نماز تو مومن کی معراج ہے۔معراج سے مراد ہے روح کا تمام دنیا سے
بلند ہو کر اللہ سے ملاقات کرنا اور ہماری نمازوں میں تو روح موجو د ہی
نہیں ہوتی اللہ سے ملاقات کیا خاک ہوگی۔ایسی ہی نمازیں ہیں جو نمازیوں کے
منہ پر مار دی جاتی ہیں اور ایسے ہی روزے ہوتے ہیں جن سے روزہ رکھنے والے
کو بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
قرآن کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ ’’اسے صرف پاک لوگ چھو سکتے ہیں‘‘ ہم
سمجھتے ہیں کہ وضو کرنے اور صاف کپڑے پہننے سے ہم پاک ہو گئے۔اب قرآن پڑھنے
کے لائق ہو گئے۔حالانکہ اس آیت میں اللہ یہ فرما رہا ہے کہ صرف پاکیزہ روح
کے لوگ ہی قرآن کی اصل تعلیمات کو سمجھ سکتے ہیں اور اس کے پیغام کی حقیقت
تک پہنچ سکتے ہیں۔قرآن کی اصل روح تک نہ پہنچنے کے باعث ہی کوئی عالم قرآن
کی کچھ تفسیر کرتا ہے اور کوئی کچھ،حالانکہ اللہ کا پیغام ایک ہی ہے۔تلاوتِ
قرآن پاک کرتے ہوئے بھی پورا دھیان صرف تلفظ اور الفاظ کی ادائیگی کی طرف
ہونے کی وجہ سے قرآنی آیات کی نورانی تاثیر سے محروم رہ جاتے ہیں جو قلب پر
سیدھا اثر کر کے اس کی صفائی کی قوت رکھتی ہیں۔اگر دھیان اس بات پر ہو کہ
قرآن کے ذریعے ہم اللہ سے ہم کلام ہو رہے ہیں تو اپنے دل پر ضرور اسکے اثر
کو واضح طور پر محسوس کریں۔نماز کے دوران بھی اگرقلب و روح کی حاضری ہو تو
اللہ کے قرب کے تجلیات کا احساس ضرور ملتا ہے۔کبھی رقت طاری ہو جائے ،کبھی
خوفِ خدا کی کیفیت اور کبھی اسکے محبت کے لطف کا سرور چھا جائے،اگر نماز
میں ہمیں یہ کیفیات نہیں ملتیں تو اس کا واضح مطلب ہے کہ ہمارے صرف اعضاء
نے نماز پڑھی روح و قلب نے نہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے
کہ’’ لا صلوٰۃ اِلَّا بحضورِ القلب ‘‘یعنی قلب کی حاضری کے بغیر کوئی نماز
نہیں۔
بے روح ،بے حقیقت ،بے کار اور مردہ امت کو دین کی روح سے ہٹا کر ظاہر پرستی
کی طرف مائل کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ ان علماء کا ہے جو ٹی وی چینلوں اور
اخبارات کے ذریعے عام سادہ لوح مسلمانوں کا دھیان مستقل عبادات کے ظاہری
اعمال کی طر ف منتقل کراتے رہتے ہیں کہ اگر فلاں عمل ٹھیک نہ ہوا تو نماز
نہ ہو گی،اگر کپڑوں پر اتنی سی گندگی لگی ہو گی تو نماز فاسد ہو جائے گی
وغیرہ وغیرہ ،کبھی یہ کیوں نہیں کہتے کہ اگر دنیا کی طرف سے دھیان ہٹا
کراللہ کی طرف پوری توجہ نہ کی تو نماز نہ ہو گی،اگر روح کو
حسد،تکبر،لالچ،ہوس،کینہ کی گندگیوں سے صاف نہ کیا تو نماز بالکل نہ ہو
گی۔کیوں نہیں اس بات پر زور دیتا کہ اللہ عملوں اور شکلوں کو نہیں بلکہ
دلوں کے احوال کو دیکھتا ہے۔کیوں نہیں سمجھاتے کہ اپنے جسم اور کپڑوں کی
حالت کو بعد میں درست کرنا پہلے دل اور نیت کو درست کر لو۔اگر علماء کے
درسو ں میں تعلق باللہ کی بات ہوتی بھی ہے تو صر ف 5 فیصد،باقی 95 فیصد صرف
ظاہری اعمال پر زور ہوتاہے حالانکہ یہ تناسب الٹ ہونا چاہیے تھا۔ان کے اسی
رویے نے فرقہ پرستی کو بھی جنم دیا ہے۔جس طرح انسان کے ظاہری جسم کے بہت سے
حصے ہوتے ہیں اور روح صرف ایک۔اسی طرح ظاہری جسمانی اعمال پر زور دینے والے
دین کو جسم کے مختلف اعضاء کی طرح بہت سے فرقوں میں بانٹ دیتے ہیں۔جبکہ روح
کے اعمال پرزور دینے والے دین کو صرف ایک ہی سمت میں لے کر جاتے ہیں جو
صراطِ مستقیم ہے یعنی اللہ سے سچا تعلق۔یہی وجہ ہے کہ اولیا ء کرام نے کبھی
فرقہ پرستی کی بات نہیں کی۔کسی بھی ولی نے کبھی بھی اپنا تعلق کسی فرقے سے
نہیں جوڑا۔جبکہ علماء کرام کا عالم یہ ہے کہ اپنے فرقے کے علاوہ دوسروں کو
کافر تک قرار دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔اور یہ سب دین کی روح سے دوری اور
ظاہر پرستی کے باعث ہے۔ان کے اسی رویے کی وجہ سے اُمت کا ایک بڑا حصہ دین
سے ہی متنفر ہو چکا ہے کہ کوئی عالم کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔پتہ نہیں کون سچا
ہے کون جھوٹا،اس لیے دین کو چھوڑو دنیا پر توجہ دو۔علماء کے اس رویے کی وجہ
سے لوگ اولیاء اللہ سے بھی متنفر ہو گئے ہیں جو دین کی صحیح راہ دکھانے
والے ہیں۔
ظاہر پرستی کے اس رویے نے ہمیں دین کی حقیقت اور روح سے کوسوں دور کر دیا
ہے۔آج ہم صرف دین کے بت کی پرستش کر رہے ہیں اور جس بت میں روح نہ ہواُس کا
ترقی کرنا،پھلنا پھولنا ناممکن ہے۔پس ہم دین و دنیا میں آگے بڑھنے کے بجائے
پستی کی طرف گامزن ہیں۔
تحریر: مسز عنبرین میغیث سروری قادری |