خدا فریبی اور خلق فریبی دراصل
خود فریبی ہے۔ حضرت واصف علی واصف کا یہ زریں قول آج ہمارے قومی رویے پر
صادق آتا ہے۔ ہر سال رمضان میں ایک خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ رمضان المبارک
کے احترام میں اسٹیج ڈراموں کے دن کے شوز معطل رہیں گے لیکن آج کل ٹی وی
چینلز پر رمضان نشریات اور مارننگ شوز دیکھنے کے بعد دل چاہتا ہے کہ اسٹیج
ڈراموں کی بجائے اس رمضان نشریات پر پابندی لگنی چاہئے۔ لیکن کیا کریں کہ
ہمارے معیار دہرے ہیں، انصاف کے پیمانے منافقت پر مبنی ہیں ۔ اسٹیج ڈراموں
کی فحاشی۔۔۔ فحاشی ہے مگر رمضان نشریات ، مارننگ شوز، ایوارڈ شوز اور حیا
سوز ڈراموں کی فحاشی ۔۔۔ فحاشی نہیں۔
ہو اگر بازار میں ، کثافت اس کو کہتے ہیں
الحمرا میں ہو اگر مجرا، ثقافت اس کو کہتے ہیں
غور طلب پہلو یہ نہیں کہ چینلز ـ’’کیا‘‘ دکھا رہے ہیں بلکہ غور طلب پہلو یہ
ہے کہ چینلز ایسا ’’کیوں‘‘ دکھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک زبردست احتجاج
جاری ہے کہ رمضان میں اسلام کے نام پر کیا ہو رہا ہے؟ لوگوں کا کہنا ہے کہ
یہود و نصاریٰ کی ایک عالمگیر سازش کے تحت ہمارے ٹی وی چینلز فحاشی دکھا
رہے ہیں اور’’ معصوم فرزندان توحید ‘‘کو ورغلا رہے ہیں۔ جبکہ کڑوا سچ تو یہ
ہے کہ چینلز وہ کچھ دکھا رہے ہیں جو کچھ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔
مذہب کے نام پر چینلز پر نظر آنے والا یہ دہرا معیار دراصل ہماری انفرادی
زندگیوں کی ہی ایک جھلک ہے ۔ کسی مارننگ شو میں کسی اداکارہ سے فحش اشتہار
کے بارے میں گفتگو ہی فحاشی نہیں بلکہ پورا رمضان ذخیرہ اندوزی کر کے اور
غریب لوگوں کو لوٹ کے، جب کوئی حاجی صاحب اپنی بیگم کے ہمراہ آخری عشرے میں
عمرے پر جاتے ہیں تو یہ بھی اسلامی شعار کے چہرے پر ایک زناٹے دار تھپڑ کے
مترادف ہے اور کھلی فحاشی ہے۔ وہ بنگلہ جس کی ایک ایک اینٹ اور سیمنٹ کا
ایک ایک ذرہ حرام کا ہے، اس کے ماتھے پر لکھا ہوا’’ھذا من فضل ربی‘‘ بھی
مذہب کے ساتھ کھلواڑ ہے اور فحاشی ہے۔ جب ایک دکاندار کھانے پینے کی اجناس
میں زہر سے زیادہ خطرناک کیمیائی اشیاء کی ملاوٹ کر کے فروخت کرتا ہے اور
رات کو تراویح میں جا کے کھڑا ہوتا ہے تو مسجد کے درودیوار اس پر ہنستے ہیں
۔ تو جناب باطن میں کچھ اور۔۔۔اور ظاہر میں کچھ اور ۔ یہ رویہ صرف ٹی وی
اداکاروں کا ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہمارا قومی رویہ ہے
سوشل میڈیا پر تو سب رمضان نشریات کے خلاف ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے کوئی
ٹی وی دیکھتا ہی نہیں۔ مگر اعدادوشمار اور حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ یہ
فرزند ان توحید بھی رمضان نشریات کے خلاف ’’سٹیٹس‘‘ دینے کے بعد وہی مارننگ
شو دیکھنے بیٹھتے ہیں جس میں بال کھولے کوئی حسینہ فحاشی کے خلاف درس دے
رہی ہوتی ہے۔ اگر آپ اتنے ہی پار سا ہوتے تو ان شوز کی ریٹنگ اتنی زیادہ نہ
ہوتی۔سب جانتے ہیں کہ چند برس پہلے رمضان نشریات حمد و نعت،ذکر صحابہؓ،ذکر
اولیاء اﷲ اورپندو نصائح کی باتوں پر مشتمل ہوتی تھیں۔ایک شخص نے نشریات کا
بنیادی ڈھانچہ ہی بدل دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب اس کی تقلید میں
مصروف ہو گئے،ایسا کیوں ہوا۔۔۔؟اس لئے کہ ہم سب نے اسے دیکھنا چاہا۔میڈیا
عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتا ہے۔اگر کوئی چیز مقبول نہ ہو تو ریٹنگ کے گراف
خود ہی فیصلہ سنا دیتے ہیں۔رمضان نشریات کے نام پر یہ کھیل،یہ تماشاآخر
مقبول ہے تو جاری بھی ہے اور ترقی بھی کر رہا ہے نا۔۔۔ ایک چینل پہ ایک
ایسا مارننگ شو بھی ہے جسے آپ اپنی فیملی کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن جب
میں نے ریٹنگ کے گراف دیکھے تو معلوم ہوا کہ اسے تو کوئی دیکھتا ہی نہیں۔
جناب اگر صرف میڈیا قصور وار ہوتا اور ہم حقیقتاً ’’فرزندان توحید‘‘ہوتے تو
ہمیں اعدادو شمار میں یہ چیز نظر آتی ۔ اگر آپ کسی اداکارہ سے نہیں بلکہ
واقعی کسی عالم دین سے اسلام سیکھنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو بتاتا چلوں کہ
پاکستان میں مذہبی چینلز بھی ہیں۔ اور آپ ان سب کے نام اچھی طرح جانتے ہیں
لیکن انہیں کوئی نہیں دیکھتا وہ بے چارے ناظرین کو ترستے ہیں۔
ہماری کل حقیقت اتنی ہے کہ جن لوگوں کے خلاف ہم فیس بک پر احتجاج کرتے
ہیں،حقیقی زندگی میں ان کے ساتھ ایک ’’ سیلفی ‘‘ لینے کو ترستے ہیں۔ہم صرف
باتوں کے مسلمان ہیں۔ انڈیا کے خلاف خطبے تو دیتے ہیں لیکن جیسے ہی انڈیا
کی کوئی فلم ریلیز ہوتی ہے تو یہی لوگ جو آج ٹی وی چینلز پر تنقید کر رہے
ہیں ان کے’’ سٹیٹس‘‘ آنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔ ’’دل دھڑکنے دو‘‘ ۔۔۔ آخر میں
ایک شعر جس پہ اگر آپ چاہیں تو عمل بھی کر سکتے ہیں۔
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم ہو جا یا سراسر سنگ ہو جا |