خلق خدا کچھ ہی دن میں اللہ کی رحمت، برکت اور مغفرت کے پیکج سے محروم ہونے
جارہی ہے۔ رمضان نیکیوں کے موسم بہار کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں ہر طرف
قرآن کی تلاوت، انفاق فی سبیل اللہ، غریبوں کی مدد اور ایک دوسرے سے تعاون
و ہمدردی کی بہاریں رہتی ہیں۔ ہر مسلمان نیکی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔
عام دنوں کے مقابلے میں اس ماہ اللہ کے ہاں بھی نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھا
دیا جاتا ہے اور نیکیوں کے مواقع بھی بڑھ جاتے ہیں، جن کا تقاضا ہے کہ ہر
مسلمان بڑھ چڑھ کر اپنے مولا کو راضی کرنے کی فکر کرے اور اس ماہ کا ایک
ایک لمحہ ضایع ہونے سے بچائے، لیکن یہاں تو سارا معاملہ برعکس ہے۔ ٹی وی
چینلوں کے رمضان کے نام پر مخصوص پروگراموں نے عوام کو عین سحر و افطار کے
بابرکت اوقات میں لایعنی باتوں میں مصروف کر کے انہیں اللہ کی عبادت سے دور
کردیا ہے۔ سحر و افطار کا قیمتی وقت مسجدوں میں جاکر دین سیکھنے کی بجائے
ٹی وی چینلوں سے بے دینی سیکھنے میں برباد کیا جارہا ہے۔ اسٹیڈیم کے
تماشائیوں کی طرح مخلوط محفلیں سجاکر ماہ مبارک کو مذاق بنادیا گیا ہے۔ جو
وقت سنجیدگی کے ساتھ اللہ کے سامنے گڑگڑانے کا تھا، اسے مخلوط محفلوں میں
ٹھٹھا مخول اور ہنسی مذاق میں گنوایا جارہا ہے۔
رمضان المبارک اللہ سے عافیت و بھلائی مانگنے کا مہینہ ہے، لیکن ٹی وی
چینلوں نے عوام کو موبائل اور لان کے کپڑے مانگنے کے لیے مضحکہ خیز حرکتیں
کرنے پر لگادیا ہے۔ ٹی وی مالکان نے یکم رمضان سے عوام کے روزوں کے ساتھ
کھلواڑ کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا، وہ تاحال جاری ہے اور کئی برسوں سے جاری
ہے۔ اجتماعی طور پر پوری قوم کو دین کے نام پر اس بے ہودگی کے پیچھے
لگادینا سراسر غیر سنجیدہ و غیر شرعی فعل ہے۔ علمائے کرام کو ان لغو حرکات
کے خلاف آواز اٹھانا چاہیے اور چینل مالکان کو اس بات پر مجبور کرنا چاہیے
کہ وہ پیسے اور ریٹنگ کے چکر میں سادہ لوح عوام کے ساتھ گھناﺅنا مذاق نہ
کریں۔ وقت آگیا ہے کہ بے مہار میڈیا کو لگام دی جائے اور اسے اصول و ضوابط
کا پابند بنایا جائے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ میڈیا انتہائی پراثر اور وسیع حلقہ رکھنے والی طاقت ہے۔
ماضی میں میڈیا صرف اخبار کا نام تھا، اب میڈیا سیکٹر میں الیکٹرانک میڈیا
کا طوطی بولتا ہے اور جو کچھ الیکٹرانک میڈیا دکھاتا ہے، وہی قوم میں رواج
پاجاتا ہے۔ اگرچہ زمانہ تیز سے تیزتر ہورہا ہے، مگر ہمارا میڈیا اس سے بھی
دو چار قدم آگے نکلنے کو بے تاب ہے، چاہے اس کے لیے سماجی قدروں، تہذیبی
اطوار اور مذہبی تعلیمات کی حرمت کو پامال کرنا پڑے۔ ماہرین نفسیات کہتے
ہیں کہ جو چیزبہ یک وقت دیکھی اور سنی جائے، اس چیز کے مقابلے میں جلدی ذہن
نشین ہوتی ہے، جو صرف دیکھی یا صرف سنی جائے۔ الیکٹرانک میڈیا کاتو کام ہی
دکھانا، سنانا اور ذہن بنانا ہے۔
ملک میں ایک نہیں، سو کے لگ بھگ ٹی وی چینل ہیں۔ وہ زمانہ لد گیا، جب اکیلے
سرکاری ٹی وی کا راج تھا، لیکن ملک میں مواصلات کے شعبے میں انقلاب آیا تو
ٹی وی چینلوں کی لائن لگ گئی۔ لائسنس کے ساتھ انہیں ہر طرح کی آزادی بھی
ملی۔ یہ ٹی وی چینلوں کا عروج کہا جاسکتا ہے، لیکن اس عروج کے ساتھ ساتھ
بہت سی چیزوں پر زوال بھی آنا شروع ہوگیا۔ چونکہ میڈیا نے صنعت کی شکل
اختیار کی، اشتہارات اس صنعت کی نشونما و تزئین و آرایش کا میٹریل بنے اور
اشتہارات کی سالانہ مالیت لگ بھگ پچاس ارب روپے کا تعین ریٹنگ پر ہوتا ہے ،
اس لیے ریٹنگ کی دوڑ میں بازی لے جانے کے لیے دوسرے چینلوں کو چت کرناضروری
ٹھہرا۔ مقابلے کی اس دوڑ میں چینل خود تو آگے نکل گئے، لیکن مقصدیت کو کہیں
پیچھے چھوڑ گئے۔ دوسرے چینلز کو شکست دینے کے لیے ہر وہ چیز دکھائی جانے
لگی جس سے ریٹنگ بڑھتی ہو، خواہ قوم کے اذہان پر منفی اثرات ہی مرتب ہوں
اور ماہ مبارک میں عوام کی عبادات کے ساتھ کھلواڑ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
ریٹنگ کی اس دوڑ میں ایک طرف تو چینلز نے گرماگرم ٹاک شوز اور چیختی
چنگھاڑتی بریکنگ نیوز کا سلسلہ شروع کیا ، جبکہ دوسری جانب ناظرین کی آنکھو
ں کو خیرہ کرنے کے لیے عورت کو بطور آلہ اور ذریعہ استعمال کرتے ہوئے ٹی وی
اسکرین پراخلاقی اقدار سے گرے ہوئے اشتہارات اور مغربی و بھارتی تہذیب میں
گندھے ہوئے پروگرام دکھائے جانے لگے۔ حالانکہ ریٹنگ کی جانچ کا خود کار
نظام ”پیپل میٹر“ کسی چینل کی مقبولیت کے معیار کے لیے معتبر نہیں ہو سکتا۔
اس میں آبادی کے نمائندہ نمونے کو لے کر 9 شہروں میں تقریباً700 گھرانوں
میں ایک آلے کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے کہ کون سا چینل کس وقت دیکھا جا
رہا ہے۔ ان گھرانوں سے رپورٹ خودکار طریقے سے میڈیا لاجک کے دفتر میں لگے
کمپیوٹروں میں جمع ہوتی رہتی ہے، جس کے بعد میڈیا صنعت سے منسلک کمپنیوں کو
بھیج دی جاتی ہے اور اسی رپورٹ کی بنا پر چینلوں کوکم یا زیادہ اشتہارات
ملتے ہیں، اسی لیے ہر چینل میں بعض لوگوں کی دل کی دھڑکن ریٹنگ کے ساتھ
اوپر نیچے ہوتی ہے، ریٹنگ کی خاطر ان کے ہاں مداری بننا بھی کوئی عیب نہیں
اور ساری دنیا کے سامنے نیچ حرکتیں کرنا بھی کوئی عار کی بات نہیں۔ چینلز
کی آپسی مسابقت میں جہاں میڈیا نے عوام میں قائم اپنے اعتماد، اعتبار اور
وقار کا گلاگھونٹا،وہیں ریٹنگ کی اس دوڑ میں ملک کے بہت سارے اہم مسائل کو
خاطر خواہ جگہ نہ مل سکی۔
قانونی طور پر ملک میں میڈیا کی تشہیر اور کیبل آپریٹرز کے حوالے سے ضابطہ
اخلاق یہ ہے کہ کسی بھی طریقے سے بے شرمی پر ابھارنے، شہوانی جذبات
بھڑکانے، غیر شائستہ اور توہین آمیز خیالات کی تشہیر کی اجازت نہیں ہے۔ یہ
حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم تہذیب و تمدن اور مذہب کے حوالے سے کسی بھی قسم
کا سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتی۔ اس لیے متعلقہ ادارے پیمرا کی
ذمہ داری ہے کہ وہ ذرایع ابلاغ کو ناشائستگی، غیر سنجیدگی، قومی اقدار کے
منافی میڈیائی تفریح سے محفوظ رکھے۔ الیکٹرانک میڈیا کے مالکان کو چاہیے کہ
اپنی ذمہ داری کا ادراک و احساس کرتے ہوئے رمضان میں دین کے نام پر بے دینی
پھیلانے کی بجائے شریعت اور مشرقیت کی حدود میں رہ کر شعور کی بیداری پر
مبنی ایسے پراگرام قوم کو دکھائیں جو قومی شناخت، ملکی اقدار اور فکری یک
جہتی میں ممدو معاون ثابت ہوں۔
|