رمضان المبارک اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ہم
پرایک بار پھر سایہ فگن ہے ۔ یہ دین سلام کی منفرد خصوصیت کہ اس نے اپنے
پیرکارو کے لیے ایک سالانہ عملی تربیت کا پروگرام رکھا ہے جس سے ان میں نظم
و ضبط اور مجاہدانہ تربیت پیدا ہوتی ہے۔ اکٹھے سحری و افطاری کرنے سے مضبوط
سماجی روابط اور قربت کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ جب گھر کے افراد دونوں اوقات
میں ایک ہی جگہ بیٹھ کر خورد و نوش کرتے ہیں تو خوشگوار گھریلو زندگی نظر
آتی ہے ۔ رمضان میں دینی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور عبادات کے ماحول
میں دین کے طرف مزید قربت بڑھتی ہے۔ دین کے روحانی پہلو کا احساس انہیں بھی
ہوتا ہے جس کا احساس شائد عام دنوں میں نہ ہوسکے ۔ واقعی رمضان کی صورت میں
اﷲ نے انسانوں کی تربیت کی جو نعمت عطا کی ہے اس پر جتنا بھی شکر کیا جائے
کم ہے۔ روزہ جہاں انسان کو بہت سی برائیوں سے بچاتا ہے وہاں جسم انسانی کو
افعال پر بھی بہتر اثرات مرتب کرتا ہے اور ساتھ انسانی شخصیت کی تعمیر کرتا
ہے جس سے صبر و براداشت، ایثار و قربانی اور ضبط نفس کے اعلیٰ اوصاف کی
تکمیل ہوتی ہے۔ روزہ قدرتی صبر یوں بھی دیتا ہے چونکہ ہمارا دھیان کھانے
اور پینے کی طرف نہیں ہوتا اس لیے ہمارے دماغ میں موجود Hunger Centerکو
کوئی محرک نہیں ملتا اور اس طرح ہمیں بھوک اور پیاس کا ویسا احساس نہیں
ہوتا جیسا عام دنوں میں ہوتا ہے۔ہمارے ساتھ یہاں کام کرنے والے یورپین ہمیں
روزے رکھتا دیکھ کر محو حیرت ہوتے ہیں اور وہ اس کی قدر بھی کرتے ہیں۔
شمالی یورپ کے ممالک جن میں سویڈن ، فن لینڈ، ناروے اور آئس لینڈ شامل ہیں
وہاں روزے کا دورانیہ بیس گھنٹوں سے زائد ہے۔ قطب شمالی کے اس خطہ کے کچھ
علاقوں میں تو ان دنوں دن رات کا تصور ہی نہیں۔ ان لمبے روزوں کی بابت اکثر
لوگ سوال کرتے ہیں اور مختلف قسم کے فتوے بھی گردش میں ہیں کہ مکہ یا
استنبول کے قوت کے مطابق روزہ رکھ لیا جائے یا پھر سولہ گھنٹے کا روزہ
رکھیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ روزہ فاقہ کشی کا نام نہیں کہ سولہ گھنٹے یا
کسی اور شہر کے وقت کے مطابق رکھاجائے۔ نماز اور روزہ کے اوقات مقامی ہوتے
ہیں اور روزے کا دورانیہ خود اﷲ تعالیٰ نے صبح صادق سے رات تک مقرر کیا ہے
(۱۸۷؍۲) پھر کون اسے تبدیل کرکستا ہے۔ اجتہاد اس معاملہ میں ہوسکتا ہے جو
قرآن میں موجود نہ لیکن جو قرآن میں واضع طور ہو اسے کوئی بھی تبدیل نہیں
کرسکتا ۔ لمبے روزوں کا حل بھی قرآن میں موجود ہے اور اگر قرآن حکیم میں
تدبر کیا جائے تو سورہ بقرہ میں بیماروں، مسافروں اور بہت مشکل سے رکھنے
والوں کو قضا کی سہولت دی گئی ہے۔ جن ممالک میں دن رات کا تعین مشکل ہے، یا
بہت لمبے روزے ہیں یا موسم کی وجہ سے کوئی بہت ہی مشقت سے سیے رکھتا ہے کہ
کوئی کام ہی نہ کرسکے تو وہ اس زمرے میں آجاتا ہے اور یورپی فتویٰ کونسل جس
میں یورپ مین رہنے والے بہت سے علماء شامل ہیں انہوں نے بھی یہی فتو یٰ دیا
ہے۔ یہاں ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ اگرچہ شمالی یورپ کے ان ممالک میں بہت
لمبے روزے ہیں لیکن چونکہ موسم گرم نہیں ہوتا تو یہاں رہنے والے بڑے تو ایک
طرف اکثر بچے بھی روزہ دار ہیں۔ اگر انسان نے کوئی کام کرنا ہو تو وہ
کرلیتا ہے لیکن اگر فرار کی راہ تلاش کرنا ہو تو ہو وہ پھر کٹھ حجتوں پر
اتر آتا ہے۔لوگ کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ روزے فرض ہوتے ہی اسی سال یعنی
سن۲ھ میں مسلمانوں کو بدر کے مقام پر جنگ لڑنا پڑی تھی اور موسم بھی گرمیوں
کا تھا لیکن انہوں نے روزے رکھ کر کفا رسے جنگ لڑی اور فتح مبین حاصل کی۔
اس میں ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے کہ احکامات پر عمل کرنے میں پوری صدق دل
سے کوشش کرنی چاہیے۔
اس پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ روزوں کا مقصد کیا ہے ۔ جب ہم رمضان المبارک
کی روح کو سمجھ جائیں گے تو پھر ہی اس کی رحمتوں سے استفادہ کرسکیں گے۔
رمضان اور قرآن دونوں لازم ا ملزوم ہیں۔ اسی ماہ مبارک میں انسانیت کے نام
خدا کے آخری پیغام اور ہدایت کا نزول ہوا تھا اسی لئے رمضان کے اختتام پر
جو عید الفطر منائی جاتی ہے وہ قرآن ملنے کی خوشی کی صورت میں جشن نزول
قرآن منایا جاتا ہے جس کا ذکر سورہ یونس میں ہے۔کسی اور مذہب میں رمضان کے
روزوں کی صورت میں مجاہدانہ تربیت کا اس قدر اہم نظام موجود نہیں جیسا کہ
دین اسلام میں ہے مگر بد قسمتی یہ ہے کہ ہم محض فاقہ کشی کو روزہ سمجھ لیتے
ہیں اور ایک حدیث رسول پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق برائیوں کو ترک
نہ کرنے پر صرف بھوک اور پیاس ہی ملتی ہے۔جس قوم میں رمضان کی صورت میں
بہترین سپاہیانہ سالانہ ٹریننگ کا نظام ہو اس قوم کا کردار اور خوبیاں سب
سے اعلیٰ و ارفع ہونی چاہئیں تھیں۔روزہ کی روح اور اس کے اصل مقصد کو نہ ہی
ہم سمجھ پاتے ہیں اور نہ ہی رمضان کے بعداس حاصل تربیت کو باقی گیارہ
مہینوں میں اپناتے ہیں۔کچھ یہی صورت حال ہم دیگر عبادات کے ساتھ کرتے ہیں
جنہیں ہم نے رسمی انداز میں ادا کرنے کو ہی تمام غرض غائیت سمجھ رکھا ہے۔
علامہ اقبال بھی اس حقیقت کو یوں اجاگر کرتے ہیں۔
نماز و روزہ و قربانی و حج یہ سب باقی ہیں تُو باقی نہیں
کیا وجہ ہے کہ ہمارے لاکھوں کے اجتماع ،مساجد میں قیام الیل اور دیگر رسمی
عبادات نتیجہ خیز نہیں ہیں۔جس قوم کا ہر سال لاکھوں افراد کا کئی دنوں تک
عالمگیر اجتماع ہو مگر اس قوم کی تقدیر نہ بدلے تو ضرور سوچنا چاہیے کہ وجہ
کیا ہے۔ہماری پانچ وقت نماز بھی ہمیں برائیوں سے نہیں روکتی حالانکہ یہ
نماز کا دعویٰ ہے۔وجہ بھی قرآن حکیم سورہ الماعون میں خود بتاتا ہے۔جو
صلوٰۃکی حقیقت سے نا آشنا ہوں اور صرف ظاہری حرکات و سکنات کو ہی حقیقت
صلوٰۃسمجھ لیں وہ بجائے اس کے کہ برائیوں سے بچائے اور بہتر نتائج پیدا کر
کے وہ ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے۔ ہمیں رمضان کے روزوں کی روح اور فرضہونے
کی غرض و غائیت کا علم ہونا چاہیے۔ ماہ رمضان کے روزے رکھنے،نماز باقاعدگی
سے ادا کرنے اور قرآن حکیم کی تلاوت کے باوجود اگر ہماری ذاتی اور اجتماعی
زندگی میں بہتری پیدا نہیں ہورہی تو ہمیں ضرور سوچنا چاہیے کہ اس کی وجہ
کیا ہے قرآن حکیم بھی ہمیں حکم دیتا ہے کہ تتفکرون یعنی سوچا کرو۔ |