غزوہ بدر:معرکہ حق و باطل

حق و باطل کا تصادم روز اول سے ہی نوشتہ دیوار ہے۔ اس تصادم میں کامیابی و فتح ہمیشہ حق کا ہی مقدر بنتی ہے۔تعداد چاہے کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو پھر بھی حق کا باطل کے سامنے جھک جانا ناممکنات میں سے ہے، کیونکہ حق کسی بھی مرحلے پر باطل سے سمجھوتے کا روادار نہیں ہے۔ بالفرض اگر مسلمان اپنے مقصد عظیم کو بھلا کر ظالم استحصالی طاقتوں کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ بیدار کرکے عافیت کی درمیانی راہ اختیار کرلیتے تو کیا معرکہ بدر برپا ہوتا؟ ہرگز نہیں۔ نہ ہی کھبی بے سروساماں لیکن جذبہ شہادت سے سرشار مسلمانوں کو میدان کارزار میں اترنے کا موقع ملتا۔ لیکن یہ تمام امکانات کافور ہو گئے جب امام المجاہدین، ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے قلیل تعداد اور بے سروسامانی کے عالم میں کفر سے ٹکرا جانے کا پختہ عزم کرلیا۔ غزوہ بدر تاریخ اسلام کا فیصلہ کن مرحلہ، حق اور باطل کی کھلی جنگ، جنگوں کے ایک طویل سلسلے کی تمہید، اسلامی تشخص کی پہلی عسکری توجیہہ، اپنے نصب العین کی سچائی پر غیر متزلزل یقین کی علامت ہے۔جسے دیگر غزوات پر کئی اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ بدر کو ایک فیصلہ کن معرکہ قرار دیا اور قرآن مجید نے اسے یوم الفرقان سے تعبیر کرکے اس کی اہمیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ فرمایا ”جو ہم نے اپنے( برگزیدہ) بندے پر ( حق وباطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی، وہ دن (جب بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم متصادم ہوئے تھے۔،، (الانفال8:41) بلاشبہ یوم بدر احقاق حق اور ابطال باطل کا دن تھا، جس دن حق کو واضح اور دوٹوک فتح حاصل ہوئی اور کفرکے مقدر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذلت آمیز شکست لکھ دی گئی۔ مشرکین کا تکبر وغرور خاک میں مل گیا، کبرونخوت کی دستار پاو ¿ں تلے کچلی گئی۔ حق کی راہ میں مزاحم ہونے والی دیوار اپنے ہی قدموں پر بوس ہوگئی۔

اسباب جنگ
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حق وباطل کا تصادم اسی روز ناگزیر ہو گیا تھا جس دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفر وشرک کی آگ میں جلتے ہوئے سماج میں اعلائے کلمةالحق کا پرچم بلند کیا تھا۔ جس روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتوں کی پرستش کو ترک کرکے خدائے وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں سربسجود ہونے کی دعوت دی تھی۔ فاران کی چوٹیوں پر آفتاب ہدایت کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی اندھیروں نے اپنی بقا کی جنگ کے لیے صف بندی کا آغاز کر دیا تھا۔ اسلام اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سازشوں اور شرانگیزیوں کا سلسلہ درحقیقت غزوہ بدر کا دیباچہ تھا۔

کفار کی اسلام سے عداوت
کفار کی اسلام دشمنی کا آغاز تو اسی دن ہو گیا تھا جس دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی بار کفار کو حق کی دعوت دی تھی۔ ان کے عقائد باطلہ کو بے نقاب کرکے توحید کا نعرہ بلند کیا اور بت پرستی کے خلاف دعوتی جدوجہد کا آغاز کیا تو پورا عالم عرب اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ مکروہ سازشوں کا ایک جال بنایا گیا۔وہ کون سا حربہ تھا جو مسلمانوں کے خلاف نہ آزمایا گیا۔ فتنہ وفساد کی آگ بھڑکا کر مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ تیرہ سالہ مکی دور اس امر پر گواہ ہے کہ کفار اسلام دشمنی میں اندھے ہو چکے تھے۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کے منصوبے بننے لگے۔

تجارتی قافلے اور جنگی تیاریاں
اہل مکہ کا سب سے بڑا ذریعہ معاش تجارت تھا۔ بڑے بڑے تجارتی قافلے گرد وپیش کی منڈیوں میں رواں دواں رہتے۔ مدینہ میں مسلمانوں کو مرکزی حیثیت ہو جانے کا انہیں بڑا قلق تھا۔ چنانچہ مشرکین مکہ کے سردار عوام الناس کو خصوصاً نوجوانوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے رہتے تھے۔کفار مکہ اسلام دشمنی میں بوکھلائے ہوئے تھے۔ کفار نے تجارت کے نفع میں سے ایک مخصوص حصہ لازمی طور پر جنگی تیاریوں کے لیے مختص کرنا شروع کر دیا تھا۔

گشتی دستوں کی نقل و حرکت
کفار کی جنگی تیاریوں کے پیش نظر مسلمانان مدینہ بھی چوکنے تھے اور مدینہ منورہ پر کفار کے متوقع حملہ کا جواب دینے کے لیے دفاعی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اپنے دفاع سے غفلت بہت ہی ناخوشگوار صورتحال پیدا کرسکتی تھی۔ سپہ سالار مدینہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو دفاعی حکمت عملی اپنائی ،ماہرین جنگ اس پر انگشت بدنداں ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نئے زاویہ نگاہ سے دفاع مدینہ کے جملہ پہلوو ¿ں کا جائزہ لیا اور نگران گشتی دستوں کی تشکیل کرکے دشمن کی نقل و وحرکت خصوصاً اس کی اقتصادی ناکہ بندی پر اپنی توجہ مرکوز کردی۔

مشرکین کا پروپیگنڈہ
رجب 2ھ میں حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ کو آٹھ آدمیوں کے ہمراہ دشمن کی نقل وحرکت معلوم کرنے کی غرض سے مکہ اور طائف کے درمیان گھات لگا کر بیٹھنے کے لیے روانہ کیا گیا۔ مقام نخلہ پر مشرکین کے ایک قافلے کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں ایک مشرک عمرو بن حضرمی مارا گیا۔ دو آدمی قیدی بنالیے گئے اور قافلے کے سامان پر قبضہ کر لیاگیا۔ جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوئے کیوں کہ اس دستے کو لڑائی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ ابن حضرمی کا قتل حرمت والے مہینے میں ہوا تھا، اس لیے مشرکین نے اس واقعہ کو مسلمانوں کے خلاف خوب اچھالا کہ مسلمانوں نے حرمت والے مہینوں کو بھی حلال کر لیا ہے۔

اللہ کا فیصلہ
مجاہدین اسلام سے حرمت والے مہینے میں کاروائی محض غلط فہمی کی بنا پر ہوئی تھی، جبکہ مشرکین نے اس پر خوب پروپیگنڈہ کیا۔اللہ تعالیٰ نے اس پروپیگنڈے کا جواب ان الفاظ میں دیا۔ ”لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں، فرما دیں اس میں جنگ بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اس سے کفرکرنا اور مسجد حرام (خانہ کعبہ) سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک (اس سے بھی) بڑا گناہ ہے اور یہ فتنہ انگیزی قتل وخون سے بھی بڑھ کر ہے۔،، (البقرہ، 2 : 217)

سرد جنگ میں سرگرمی
مشرکین مکہ سرد جنگ میں سرگرمی سے مصروف عمل تھے۔سرد جنگ ہمیشہ گرم جنگ کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی مشرکین مکہ سے الجھنا نہیں چاہتے تھے لیکن مذکورہ آیت کے نازل ہونے کے بعد مسلمانوں کو ایک نیا اعتماد ملا۔ باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارنے کا شعور عطا ہوا اور ان کے حوصلوں، ولولوں اور امنگوں کو نیا بانکپن ودیعت ہوا۔ اس پس منظر میں مکہ اور مدینہ کے درمیان جاری سرد جنگ میں گرما گرمی کے آثار پیدا ہونے لگے۔ جذبہ شہادت سینوں میں مچلنے لگا، سر اٹھا کر چلنے کی روایت دلنواز کو مفاہیم کے نئے پیراہن پہنائے گئے۔جبکہ مکہ اور شام کے درمیان تجارتی شاہراہ پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد دشمن کی اقتصادی ناکہ بندی کرنا آسان ہوگیا تھا۔

مسلمانوں کے خلاف کفار کا حربہ
کفار مکہ نے مدینہ منورہ کے مشرکوں، منافقوں اور یہودیوں وغیرہ کو دھمکی آمیز خط لکھااور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔ان اشتعال انگیز کارروائیوں کے پس منظر میں مسلمان کمال حکمت سے آہستہ آہستہ تمام معاملات کواپنے ہاتھ میں لے رہے تھے ۔

ابوسفیان کاقافلہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع موصول ہوئی کہ ابو سفیان بن حرب ایک بہت بڑا قافلہ لے کر ملک شام کی طرف جا رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو سو مجاہدین لے کر دشمن کی اقتصادی ناکہ بندی کے لیے نکلے لیکن قافلہ جا چکا تھا۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو شمال کی جانب روانہ کیا گیا تاکہ وہ قافلے کی واپسی پر نظر رکھیں۔ یہ اصحاب رسول مقام ”الحورا،، میں ٹھہر گئے۔ جب ابو سفیان ایک ہزار اونٹوں کے قافلے کے ساتھ واپس آیا تو اس کی نگرانی پر مامور صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس کی اطلاع فوراً مدینہ منورہ میں دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 313 صحابہ کو لے کر 12 رمضان المبارک 2ھ کو دشمن کی رسد کاٹنے کی غرض سے مدینہ منورہ سے نکلے۔ لیکن ابوسفیان کے جاسوسوں نے اسے اطلاع دے دی کہ مسلمان قافلہ پر حملہ آور ہونے والے ہیں۔ اس نے فوراً مکہ میں سرداران قریش کو اس امر کی اطلاع دی اور فوری مدد چاہی۔کفار مکہ حملے کا سن کر مشتعل ہوگئے۔ انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر لشکر ترتیب دیا۔ مسلمانوں کے خلاف منظم ہونے والے اس لشکر میں ابولہب کے سوا تمام سردار شریک ہوئے۔

چند ایمان افروز واقعات
انسانی تاریخ گوا ہ ہے کہ روزمرہ زندگی میں ایسے محیرالعقول واقعات بھی رونما ہوئے ہیں عقل جن کی توجیہ کرنے سے قاصر رہتی ہے، سوچ جن کے بارے میں سوچ سوچ کر ماؤف ہو جاتی ہے۔ غزوہ بدرمیں اللہ کی مدد اور نصرت کو آسمانوں سے اترے ہوئے اہل ایمان نے ہی نہیں دیکھا بلکہ مشرکین مکہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن بھی اس تائیدغیبی کے عینی شاہد ہیں۔

حالت جنگ میں پرسکون نیند
اللہ نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم ساتھیوں پر عین جنگ کے دوران پ ±رسکون نیند اتار دی، جاگنے کی کوشش کے باوجود لشکریوں کی آنکھیں بند ہونے لگیں لیکن دوسری طرف دشمن اضطراب وبے چینی کی کیفیت سے دوچار تھے۔ جب حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عمار بن یاسر دشمن کی نقل وحرکت کی خبریں لے کر واپس آتے ہیں تو بیان کرتے ہیں کہ کفار تو ڈرکے مارے کسی گھوڑے کو بھی ہنہنانے نہیں دیتے۔اس کیفیت کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا ہے۔ ”جب اس نے اپنی طرف سے (تمہیں) راحت وسکون (فراہم کرنے) کے لیے تم پر غنودگی طاری فرما دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے تمہیں (ظاہری وباطنی) طہارت عطا فرما دے اور تم سے شیطان (کے باطل وسوسوں ) کی نجاست کو دور کر دے اور تمہارے دلوں کو (قوت یقین) سے مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے قدم (خوب) جما دے۔ (الانفال،8 : 11)نتیجہ اس خدائی مدد کا یہ نکلا کہ مسلمان جب صبح نماز کے لیے اٹھے تو تازہ دم تھے چاک وچوبند اور پوری طرح بیدار تھے۔

شیطانی وساوس کا علاج
میدان بدر میں شیطان لشکر کفار کا نمائندہ بن کر پوری طرح متحرک تھا۔ وہ مجاہدین کے دلوں میں وسوسے ڈالنے لگاکہ ساری سہولتیں اور مراعات دشمنان دین کو حاصل ہےں اور ہم مسلمان پانی کو بھی ترس رہے ہیں۔ اللہ تعالی نے بغیر ظاہری آثار کے بارش کر دی جس کے نتیجے میں پانی کی قلت دور ہو گئی اور جنگی نقطہ نظر سے خاصا فائدہ ہوا کہ کفار کی طرف والی زمین دلدل میں تبدیل ہو گئی۔ مسلمان اور نچائی پر تھے اس طرف کی ریت جم گئی۔قدرت خداوندی نے ابلیس کی ہر چال ناکام کردی ۔

عاتکہ کا خواب
غزوہ بدر سے پہلے ابوسفیان کے تجارتی قافلہ کو لاحق ہونے والے خطرات کے حوالے سے خوب افواہیں پھیلائی گئیں لیکن یہ خبر مکہ پہنچنے سے تین دن قبل عاتکہ نے حضرت عباس بن عبدالمطلب کو اپنا خواب بتایا کہ میں نے خواب میں ایک شتر سوار کو دیکھا کہ وہ وادی بطحا میں آ کر پکارتا ہے۔ ”اے دھوکے بازو! تین دن کے اندر اپنی قلت گاہوں کی طرف دوڑ کر آؤ۔،، عاتکہ نے اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا بھائی! میں نے اونٹ کو کعبے کی چھت پر دیکھا۔ اس نے یہی نعرہ لگایا، میں نے اسے جبل ابی قبیس پر دیکھا۔ وہاں بھی شتر سوار نے یہ الفاظ دہرائے اور ایک چٹان نیچے لڑھکا دی، جو نیچے آ کر پھٹی تو اس کے ٹکڑے ہر گھر تک پہنچے۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب نے کہا کہ بہن واقعی یہ ایک عجیب وغریب خواب ہے۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد حرام میں داخل ہوا تو ابوجہل باہر کی طرف بھاگا جا رہا تھا۔ ادھر ضمضم اہل مکہ کو پکارا رہا تھا کہ مسلمان تمہارے تجارتی قافلے پر حملہ کرنے والے ہیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد اس موضوع پر مزید گفتگو نہ ہو سکی۔ البتہ لوگ عاتکہ کے خواب سے اچھے خاصے پریشان دکھائی دیتے تھے۔

غزوہ بدر میں ابلیس کی سرگرمیاں
باطل کی پشت پناہی پر ہمیشہ شیطانی سوچ کار فرما ہوتی ہے۔ غزوہ بدر میں بھی ابلیس لعین ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہا، ایک طرف تو یہ کفارومشرکین کو مشتعل کر کے آمادہ جنگ کرتا رہا تو دوسری طرف مجاہدین اسلام کے دلوں میں بھی وسوسے ڈال کر قصر ایمان ویقین کی بنیادوں کو متزلزل کرنے کی سعی رائیگاں میں مصروف رہا۔ جب قریش بے سروسامانی کے عالم میں نکلے ہوئے مسلمانوں کی جائے پناہ ثابت ہونے والی سرزمین پر شب خون مارنے کی تیاریاں کر رہے تھے تو اس وقت قریش کے رؤسا نے سوچا کہ بنی کنانہ سے ان کی دشمنی چل رہی ہے لیکن ہماری عدم موجودگی میں وہ مکہ پر حملہ نہ کر دیں لیکن ابلیس سراقہ بن مالک کی شکل میں نمودار ہوا اور اس نے اکابرین قریش کو پوری تسلی دی کہ میں ضامن ہوں آپ کی عدم موجودگی میں بنو کنانہ مکہ پر حملہ نہیں کریں گے۔ اس طرح قریش کی جنگی تیاریوں میں مزید تیزی آ گئی۔ لیکن جب ابلیس لعین مشرکین مکہ کی مدد میں مشغول تھا تو مسلمانوں کی مدد کے لیے آنے والے فرشتوں کو قطار اندر قطار اترتے دیکھا تو اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور بھاگ کھڑا ہوا۔

غزوہ بدر کے اثرات ونتائج
غزوہ بدر کی جغرافیائی، سیاسی، معاشی، تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی زندگی ہی میں انقلاب آفریں تبدیلیوں کا باعث نہیں بنا بلکہ اس نے تاریخ انسانی کے سفر ارتقاءکو مختلف حوالوں اور مختلف جہتوں سے نہ صرف یکسر بدل کے رکھ دیا بلکہ تعلیمات اسلامی نے علمی، فکری اور اعتقادی دنیا کو ابہام وتشکیک کی گرد سے پاک کرکے عدل وانصاف کی حکمرانی کے شعور کو پختہ کیا۔

اہل مکہ پر مسلمانوں کی فتح کے اثرات
غزوہ بدر میں مسلمانوں کی شاندار اور باوقار فتح کے اثرات فوری طور پر اہل مکہ پر مرتب ہوئے اور قدرتی طور پر ایسا ہونا بھی چاہیے تھا۔ اس عبرتناک شکست نے مشرکین مکہ کے غرور کو خاک میں ملا دیا، ان کا پندارِ آرزو ٹوٹا تو یہ اپنی ہی نظروں میں ذلیل و رسوا ہوگئے۔ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگی جنون کو انتہا تک لے جانے والے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ قریش کی عسکری اور سیاسی شہرت کا خاتمہ ہوگیا۔ مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کی سازش کرنے والے چودہ میں سے گیارہ سردار مارے گئے۔ باقی تین سرداروں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس شرمناک شکست سے دوچار ہونے کے باوجود انہوں نے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ ان کی آتش انتقام ٹھنڈی نہ ہوسکی۔ شکست خودرہ قریش نے اپنا غصہ مکہ میں مقیم مسلمانوں پر نکالنا شروع کر دیا اور ان کا سانس لینا تک دو بھر کر دیا۔

اہل مدینہ پر غزوہ بدر کے اثرات
غزوہ بدر سے ریاست مدینہ کو داخلی طور پر ہی نہیں خارجی طور پر بھی استحکام ملا۔ بے سروسامانی کے عالم میں ابلیسی طاقتوں سے ٹکرا جانے والے اہل ایمان کو ایک نئے حوصلے اور ایک نئے ولولے سے نوازا گیا۔ مسلمانوں کو کفار پر نفسیاتی برتری بھی حاصل ہوئی اور انہیں اپنی ثقافتی اکائی کے تحفظ کے لیے نئے اقدامات کے بار ے میں عزم وعمل کے نئے دروازوں پر دستک دینے کا ہنر بھی عطا ہوا۔ مدینہ منورہ کے آسمان سے خوف وہراس کے بادل چھٹ گئے۔ مدینہ منورہ کی غیرمسلم قوتیں اب کھلم کھلا اسلام دشمنی کا مظاہرہ نہیں کرسکتی تھیں۔

دنیائے یہود کا رد عمل
مدینہ اور مدینہ کے مضافات میں آباد یہود قبائل نے غزوہ بدر میں مسلمانوں کی عظیم فتح کی خبر پر حیرت، خوف اور نفرت کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ وہ کیسے گوارا کر سکتے تھے کہ مدینہ کی نوزائیدہ مملکت کو سیاسی، معاشی اور عسکری حوالے سے استحکام نصیب ہو۔ تاہم بہت سے یہود نے بخوشی اسلام قبول کر لیا۔لیکن بد بخت بدبخت ہی رہے۔ کعب بن اشرف تو کھلی دشمنی پر اتر آیا۔ کفار کی شکست پر افسوس کا اظہار کیا۔ یہودی درپردہ ہی نہیں اعلانیہ طور پر مشرکین مکہ کو امداد کی پیش کش کرنے لگے کہ وہ آئیں اور اپنی شکست کا بدلہ لیں۔ روز بروز ان کی سرکشی میں اضافہ ہونے لگا۔ ان کا یہ باغیانہ رویہ مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف تھا۔

غزوہ بدر اور دیگر قبائل
عرب کے دیگر قبائل نے بھی مسلمانوں کی فتح کی خبرکو خوش دلی سے قبول نہیں کیا۔ وہ بھی ان گنت تحفظات کا شکار ہوگئے۔ بعض قبائل کی گزر اوقات ہی لوٹ مار پر ہوتی تھی۔ تجارتی قافلے بھی ان کی دستبرد سے محفوظ نہ تھے ۔انہیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ اگر مسلمانوں کی حکومت کو استحکام ملا اور یہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی تو یہ سب سے پہلے اللہ کی حاکمیت اور اس کے قانون کی بالادستی کے لیے اقدامات کرے گی۔ انہیں یہ بھی ڈر تھا کہ اسلامی حکومت ترجیحی بنیادوں پر امن وامان قائم کرے گی جس سے ان کی لوٹ مار کی راہیں مسدود ہوجائیں گی۔ غزوہ بدر میں ذلت آمیز شکست سے قریش کی سیاسی، مذہبی اور معاشی قیادت کے بت پر کاری ضرب پڑی اور معاشرے پر قریش کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔تمام عالم میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701078 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.