تراویح آٹھ نہیں،بیس رکعات ہیں!!
(Mohammad Rafique, Dera Nawab Sahib)
اہلحدیث حضرات آٹھ رکعت تراویح کے سنّت
موکدہ ہونے ثبوت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں اور بیس رکعت تراویح
پڑھنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اس بارہ میں متعدد احدیث کے
حوالے پیش کرتے ہیں، قطع نظر کہ ان حوالوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟سوال یہ ہے
کہ جب سے حضرت عمرؓ نے مسجد نبویﷺ میں بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا
اس وقت سے لے کرآج تک چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے حرمین شریفین
میں جو کہ مرکز اسلام ہے آج تک بیس رکعت تراویح با جماعت اد اکی جارہی ہیں
کوئی ایک سال بھی ایسا نہیں گذرا جب وہاں آٹھ رکعت تراویح با جماعت ادا کی
گئی ہو جیسا کہ یہا ں اہلحدیث ادا کرتے ہیں حضرت اماّں عائشہ صدیقہ رضی
اللہ تعالیٰ عنھا کی حیات مبارکہ میں عہد فاروقی، عہد عثمانی اور عہد علوی
میں بیس رکعت تراویح با جماعت مسجد نبوی ﷺ میں ادا کی جاتی تھی مگر حضرت ام
المومنینؓ نے ان سے کبھی یہ نہیں کہا کہ ’’تراویح تو آٹھ ہیں تم بیس رکعات
کیوں پڑھتے ہو‘‘؟ اورکیامکّہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کے علماء کرام کو آٹھ
رکعت تراویح کی حدیثو ں کا علم نہیں اورکیا یہ حضرات علم سے کورے ہیں؟
اور پھر بنیادی سوال یہ ہے کہ لفظ’’تراویح‘‘ کا معنی کیا ہے اور اسکا اطلاق
کم از کم کتنی رکعات پر کیا جاسکتا ہے؟ تو تراویح کا معنی انکی معتبر کتاب
سے سن لیجئے:۔
’’ اس نماز کا نام تراویح اس لئے رکھا گیا کہ لوگ اس میں ہر چار رکعت کے
بعد استراحت کرنے لگے کیونکہ تراویح جمع ترویحہ کی ہے اور ترویحہ کے معنی
ایک دفعہ آرام کرنے کے ہیں‘‘۔(فتاوی علمائے حدیث ج نمبر۶)
غیر مقلدین( اہلحدیث حضرات) تراویح کا یہ معنی اسلئے بیان نہیں کرتے کہ اس
معنی پر آٹھ رکعت کو تراویح کہنا درست نہیں کیونکہ تراویح جمع کا لفظ ہے
اور عربی گرامر کی رو سے اسکا اطلاق کم از کم تین پر ہوتا ہے۔ اس لئے چار
رکعت کو ترویحہ،آٹھ رکعت کوترویحتین ، اور بارہ رکعت کو کم از کم تراویح
کہا جائے گا۔ یعنی اہلحدیث حضرات کے معتبر فتاوٰی کی رو سے لفظ تراویح کا
اطلاق کم از کم بارہ رکعات پر ہوتا ہے آٹھ پر نہیں۔ کیا مسلک اہلحدیث کا
کوئی عالم،پروفیسر یا عربی دان یہ ثابت کر سکتا ہے کہ لفظ تراویح کا اطلاق
آٹھ رکعات پر درست ہے؟
اور پھر یہ کہتے ہیں کہ بیس رکعات میں سے آٹھ رکعات تراویح سنت ہیں اور
باقی مستحب (نفل) ہیں۔مگر انکے اس دعوٰی پر اہلحدیث کی ساری جماعت عاجز ہے
کہ وہ آٹھ رکعت کے ساتھ تراویح اور سنت کا لفظ اور بارہ رکعت کے ساتھ مستحب
کا لفظ دکھا دیں ۔
یہ حضرات (غیر مقلدین) یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ نماز تراویح اور تہجد دراصل
ایک ہی نماز کے دو نام ہیں رات کی نماز جب سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جائے تو
تہجد کہلاتی ہے اور اگر سونے سے قبل عشاء کے ساتھ پڑھ لی جائے تو اسکو
تراویح کہتے ہیں(صلو ۃ الرسول ص۳۷۸)۔
مگر یہ دعوٰی قرآن پاک یا کسی صریح صحیح حدیث سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
اور نماز تراویح کی تعریف میں انکے علماء کرام لکھتے ہیں کہ’’ نماز تراویح
وہ نماز ہے جو رمضان کی راتوں میں عشاء کی نماز کے بعد با جماعت ادا کی
جائے اور اس میں جماعت بھی شرط ہے اگر اکیلے پڑہیں گے تو تراویح نہ
ہوگی‘‘(فتاوٰی علمائے حدیث ج۶ ص نمبر۲۴۳)۔
اور اسکی دلیل میں یہ حدیث بیان کرتے ہیں:
ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے
سوال کیا کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم کی رات کی
نماز کی کیا کیفیّت ہوتی تھی ؟ تو انھوں نے فرمایا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ
علیہ و سلّم رمضان ہو یا غیر رمضان گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے
تھے۔(صحیح بخاری ، صحیح مسلم)
مگر اس حدیث سے انکا آٹھ رکعت تراویح کا دعوی بالکل باطل ہے اس لئے کہ :۔
(۱) اس میں اکیلے نماز پڑھنے کا ذکر ہے اور بغیر جماعت کو تراویح نہیں
کہتے(فتاوی علمائے حدیث)۔
(۲) اس میں اس نماز کا ذکر ہے جو رمضان ،غیر رمضان سارا سال پڑھی جاتی ہے
جبکہ تراویح سارا سال نہیں پڑھی جاتی۔
(۳) اس میں گھر میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے جبکہ تراویح مسجد میں پڑھی جاتی
ہے۔
(۴) اس میں وتر سے پہلے سونے کا ذکر ہے جبکہ غیر مقلدین(اہلحدیث ) تراویح
اور وتر کے درمیان مسجد میں کبھی نہیں سوتے۔
(۵) یہ کسی حدیث سے ثابت ہیں کہ اس نماز کا نام گیارہ ماہ تہجد اور بارہویں
مہینے تراویح ہو جاتا تھا۔
(۶) اس حدیث میں چار چار کعت پڑھنے کا ذکر ہے جبکہ تراویح میں دو دو رکعت
پڑھی جاتی ہیں۔
(۷) اس حدیث میں قرآن پاک ختم کرنے کا کوئی ذکر نہیں جبکہ تراویح میں قرآن
پاک ختم کیا جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ اہلحدیث حضرات کا یہ دعوٰی کہ تراویح کی آٹھ رکعات ہیں اس کا
کوئی مستند ثبوت اور دلیل انکے پاس نہیں جبکہ بیس رکعت نماز تراویح کے
دلائل آفتاب کی طرح روشن ہیں جنھیں غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا اور ان پر عمل
ہوتا ہو ا نظر آرہا ہے۔ امید ہے کہ اہلحدیث حضرات اس بارہ میں کوئی وضاحت
فرمائیں گے کہ..........بول کہ لب آزاد ہیں تیرے |
|