ہمارے خیالات ، ہماری دعائیں

ہمارے خیالات ہی در اصل ہماری دعائیں ہوتے ہیں ۔ جو کچھ ہم دن بھر سوچتے رہتے ہںر ۔ جن باتوں کی ہم فکر کرتے رہتے ہیں اور جن باتوں کے بارے میں ہم دن رات کڑھتے رہتے ہیں یا خوف زدہ اور پریشان رہتے ہیں وہی سب باتیں اور چیزیں ہماری حقیقی زندگی میں رونما ہوتی رہتی ہیں ۔ اورہم اس بات سے اور زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں کہ ہم خدا سے مانگتے کیا ہیں اور ملتا کیا ہے ۔ ہماری دعائیں کیوں نیں سنی جا رہیں ؟ آیئے دیکھیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ۔

در اصل ہوتا یوں ہے کہ ہمارا تحت الشعور ہماری زندگی میں صرف ان تصورات ، خواہشات ، خوف اور پریشانیوں کو رونما کرتا ہے جو تصورات ، خواہشات اور خوف ہمارے دل اور ذہن کے احساسات اور جذبات کے رنگوں سے پوری طرح رنگے ہوئے ہوتے ہیں ۔ چونکہ ہماری دعاؤں کے مقابلے میں ہمارے دن بھر کے تصورات، خیالات پریشانیاں اور خوف اس قدر شدید اور اس قدر پر تاثیر ہوتے ہںع کہ وہ پوری طرح تحت الشعور پر حاوی ہو جاتے ہیں اور ہماری بیچاری دعایئں آنسو بہاتی رہ جاتی ہیں ۔ اور ہمارا تحت الشعور صرف ہماری پریشانیوں اور فکروں کو ہی ہماری روز مرہ کی زندگی میں رونما کرتا رہتا ہے ۔ کیونکہ پریشانیاں دعاؤں سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتی ہیں ۔ دعا تو ہم صرف مقررہ اوقات پر کرتے ہیں لیکن پریشانیاں اور خوف تو ہر وقت ہمارے سر پر سوار رہتی ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو دعا ہم نے صبح ، دوپہر یا رات کے وقت مانگی وہی ہماری دعا ہے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ ہماری اصل دعا تو ہمارے خوف اور ہماری پریشانیاں ہیں جو جن، بھوت اور بدروحوں کی طرح ہمارے زہن پر سوار رہتے ہیں بلکہ ہمیں چمٹے رہتے ہیں ۔ اور ہماری دعا تو کسی مسکین اور بھکاری کی طرح ایک کونے میں پڑی رہتی ہے ۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دعایئں سنی جایئں تو ہمیں دعا کے صحیح طریقوں کو اپناناہو گا ۔ وہ صحیح طریقے کیا ہیں؟

1۔ ہمارا دعا کا طریقہ جو ہمیں بچپن سے سکھایا جاتاہے وہ ہے "بھیک مانگنے کا طریقہ"۔ اور یہی ہماری سب سے بڑی غلطی ہے ۔ ہم ہر وقت خدا سے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ کائنات کا قانون یہ ہے کہ جس کہ پاس ہے اسے دیا جائے گا اور جس کے پاس نہیں ہے اس سے وہ بھی لے لیا جائے گا جو اس کے پاس ہے۔ اس لئےجو بھیک مانگے گا وہ سدا بھکاری ہی رہے گا۔ اس لیئے کہ بھکاری ہر وقت یہی کہتا رہتا ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔ اور جس کے پاس کچھ نہیں ہے اسے کچھ نہیں ملتا۔ یہ ہے قانون کشش ۔ پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے، غمگین شخص کو غم ہی ملتے ہیں ، خوشی خوشیوں کو لیکر آتی ہے ۔ایمان اور یقین اور زیادہ مضبوط ایمان کو پیدا کرتا ہے۔ الہامی کتابوں میں لکھا ہے کہ کل کی فکر مت کرو۔ کل اپنی فکر خود کرے گا۔ اگر ہمارے پاس فکریں ،خوف اور پریشانیاں ہیں تو ہمیں زندگی میں یہی چیزیں ملیں گی اور اگر ہمارے پاس خوشیاں اور شکر گزاری ہے توہمیں خوشیاں اور شکر گزاری کے مواقعے ملیں گے-

2۔ علم الا ہیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ جو کچھ تم دعا میں مانگتے ہو یقین کرو کہ وہ تم کو مل گیا ہے اور وہ تم کو مل جائگا ۔ یہ ہے ایمان کی قوت ۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ایک شخص کو بیماری سے شفا کی ضرورت ہے اور وہ اپنی اس ضرورت کے لئے دعا کرتا ہے تو اسے چاہئےکہ وہ اپنے ذہن میں یہ تصور بنائے کہ اسے بیماری سے شفا مل چکی ہے ۔ وہ اپنے تصور میں پوری طرح محسوس کرے کہ وہ صحت مند ہے ۔ اسکا ڈاکٹر اسے کہو رہا ہے کہ وہ بلکل صحت مند ہے۔ وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کے کلنک میں بیٹھا محسوس کرے ۔ ڈاکٹر کی آواز اپنے کان میں سنے اور خدا کا شکر کرے کہ اے خدا میں تیرا شکر گزار ہوں کہ تو نے مجھے مکمل شفا دیدی ہے ۔ وہ بار بار دہرائے "میں مکمل شفا یاب ہوں ۔ میں مکمل صحت مند ہوں" ۔ وہ اپنے تصورات میں خوشی سے جھومے ناچے ۔ اس تصور کو اس قدر اپنائے کہ وہ تصور حقیقت محسوس ہونے لگے ۔ اتنا ٹھوس کہ وہ شے جس کی آپ نے خواہش کی ہے اس کو اپنے ہاتھوں میں اپنے سامنے اپنے گھر میں تصور میں دیکھیں، اسے چھوئیں، سونگھیں، سنیں۔ چکھیں ۔ اسکے لیئے مبارکباد وصول کرتے ہوئے اپنے اپ کو تصور میں دیکھیں ۔ فون پر لوگوں سے مبارکباد وصول کرتے ہوئے اپنے آپ کو تصور کریں ۔ اور خدا کا شکر ادا کرتے چلے جائیں۔ یہی آپکی اصل دعا ہے ۔ نہ کہ وہ جوآپ بھکاریوں کے انداز میں کر رہے ہیں۔

3۔ یاوں پر بھی لوگ ایک بہت بڑی غلطی کرتے ہیں ۔وہ اپنی خواہش اور خدا کے درمیان اپنے خوف اور پریشانیوں کی گٹھری لئے کھڑے رہتے ہیں۔ وہ یہ تصور تو بنا لیتے ہیں کہ ہماری خواہش پوری ہو گئی ۔ لیکن پھر دن بھر اپنی فکروں اور پریشانیوں کو اپنے اُوپر سوار کیئےرہتے ہیں کہ پتا نہیں میری دعا سنی جاتی بھی ہے یا نہیں، پتا نیںٹ مجھے اس بیماری سے شفا ملتی بھی ہے یا نیںا ، ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں، میری صحت پہلے کی طرح خراب ہے ، وغیرہ ۔ اور چونکہ یہ تفکرات ہماری دعاؤں کے مقابلے میں کہیں زیادہ قوی ہوتے ہیں اس لئے سارے بنے بنائے دعائیہ تصور کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے اور دعا وہیں کی وہیں دھری رہ جاتی ہے ۔ نتیجہ صفر۔ ایمان متزلزل ، دل اور زہن پریشان اور ناکامی بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ یہ نفسیاتی سائیکل چلتا چلا جاتا ہے ۔ اور ہم اس میں پھنسے رہتے ہیں ۔ اور اس جال سے باہر نکلنے کے تمام راستے ہم خود اپنی منفی سوچ اور تفکرات کی مدد سے اپنے آپ پر بند کرتے چلے جاتے ہیں -

یہ منفی سوچ ہمیں تباہی کی طرف کھینچے چلی جاتی ہے ۔ ایسی حالت میں آپکی دعا کبھی نھیں سنی جاتی کیوں کہ آپکی اصل دعا تو آپکی فکریں اور پریشانیاں ہیں جو آپکا پیچھا نہیں چھوڑتیں کیونکہ آپ ان پریشانیوں کو اپنے سر پر سوار کیے رہتے ہیں۔آپکو چاہئے کہ پہلے اپنی پریشانیوں اور خوف کو پرے پھینک کر خوشی کے احساس میں پوری طرح کھو جائیں ۔ اور جب کبھی خوف اور پریشانی ذہن میں آئیں انہیں پرے جھٹک کر فوری طور پر انکی جگہ خوشی کے احساس کو ذہن میں لایئں ۔ ہمیں اس طریقے کی مدد سے اپنے ذہن کی تربیت کرنی ہو گی ۔ ۔ اسلئے ہمیں چاہئے کہ جب ہم دعا میں اپنی خواہش یا اپنا مطالبہ خدا یا کائناتی قوتوں کے ہاتھوں میں دیدیں تو پھر اپنے تمام خوف اور پریشانیوں کو ذہن سے نکال دیں۔ ہمیں اپنی خواہش اور خدا کے درمیان سے اپنے آپ کو نکالنا نیہائت ضروری ہے۔
4۔ یہاں پر ایک اور شرط ہے جس کا آپ کو خیال رکھنا ہو گا۔ وہ یہ کہ آپ تصور میں اپنے آپ کو ایسے مت دیکھیں جیسے آپ کسی فلم کا سین دیکھ رہے ہیں ۔ آپ فلم کے سین میں بھی ہیں اور بیٹھے تماشا بھی دیکھ رہے ہیں ۔ یہ غلطی نیں کرنی ۔ آپ نے تماشائی بن کر نیں بیٹھنا ، بلکہ آپ اپنے آپ کو اس تصور کے اندر اس طرح سے محسوس کریں جیسے کہ آپ اب یہاں نہیں بیٹھے بلکہ اس تصور کے اندر موجود ہیں ۔ اس بات کو بڑے دھیان اورغور سے سمجھیں کیونکہ اسی طریقے میں کامیاب دعا کا راز پنہاں ہے ۔ آپ نے باہر کھڑے ہو کر فٹبال کا میچ نہیں کھیلنا بلکہ آپ نے بہ نفس نفیس فٹبال گراونڈ میں داخل ہو کر فٹبال کھیلنا ہے ۔ سب کچھ تصور میں ۔ آپ نے وہ تمام حرکات محسوس کرنی ہیں جو فٹبال کھیلتے ہوئے محسوس ہوتی ہیں ۔
5۔ اپنی دعا میں الفاظ کی جگہ تصورات اور محسوسات (فیلنگ) کا ا ستعمال کریں ۔ علم نفسیات اور علم الاہیات کے ماہرین کے مطابق ہمارا تحت الشعور صرف ان درخواستوں کو قبول کرتا ہے جو تصورات اور محسوسات کی صورت میں پیش کی جاتی ہیں ۔ خالی خولی الفاظ تحت الشعور کے نزدیک ایک بے معنی چیز ہیں ۔ اسکی بہترین مثال ہماری زندگی کے واقعات ہیں جو ہالرے ذہن میں تصویروں اور محسوسات کی شکل میں ہوتے ہیں نہ کہ الفاظ کی شکل میں ۔ ہماری زندگی الفاظ نہیں بلکہ تصویریں ،محسوسات ، آوازیں اور خیالات ہیں۔ ہماری یادیں بھی تصورات، آوازیں اور محسوسات ہیں ۔ یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنی دعا یا خواہش کو تحت الشعور میں پہنچانا ہےتو ہمیں الفاظ کی بجائے تصورات اور محسوسات کا استعمال کرنا ہوگا ۔ تصورات کے اس طرح کے استعمال کو انگریزی زبان مین "وژن" کہتے ہیں ۔

آپکی جو بھی خواھش ہو اس خواہش کو اسی انداز میں اپنے ذہن میں لائیں اور یہی طریقہ ہر خواہش کے لئے اپنائیں ۔ آپ اپنی صحت کے لئے وژن بنائں ۔ اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے وژن بنائں ۔ اپنے عزیزواقارب سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے وژن بنائیں ۔ دنیا میں امن کے لئے وژن بنائں ۔ چونکہ یہ طریقہ قانون قدرت پر مبنی ہے ، کائنات کے اصولوں پر مبنی ہے اس لیئے ہمیشہ کامیابی ہو گی بشرطیکہ آپ کی دعا یا آپکی خواہش مذکورہ شرائط پر پوری اترے ۔

خدائے برحق اور اسکی تمام کائناتی قوتیں آپکے ساتھ ہیں ۔ وہ آپکے دل میں ہے ۔ وہ آپ کے ذہن میں ہے ۔ وہ آپ کا اپنا تحت الشعور ہے ۔ وہ کہیں اسمانوں میں نیں ہے ۔ وہ آپکے پاس ہے ۔
اسے اپنے دل میں ڈھونڈیں، تلاش کریں
"اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی" ۔
خدا سے باتیں کریں وہ آپکو جواب دیگا اور آپکی ہر خواہش پوری کرےگا۔
پڑھ پڑھ عالم فاضل ھویا ، کدے اپنے آپ نو پڑھیا ای نہیں
جا جا وڑدا مسجداں مندر ، کدے من اپنے وچ وڑیا ای نہیں
ایویں روز شیطان نال لڑدا ، کدی نفس اپنے نال لڑیا ای نہیں
اسمانی اڈدیاں پھڑنا ایں بلھیاہ ، جیہڑا گھر بیٹھا اونوں پھڑیا ای نہیں

ہر وقت خدائے پاک کا شکرادا کرتے رہیں ۔ اس شکریہ کے احساس میں پوری طرح کھو جائیں ۔ اپنی خواہش کے ساتھ ایک ہو جائیں ۔
"رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی" ۔

اپنے ذہن کو مثبت سوچ سے بھر لیں: آپ کامیاب ہیں ۔ آپ خوشحال ہیں ۔ آپ صحت مند ہیں ۔ آپ دولت مند ہیں ۔ کیونکہ جس کے پاس خدا ہے اس کے پاس سب کچھ ہے اور جس کے پاس خدا نیں اس کے پاس کچھ بھی نیںش ۔ مجھے کامل یقین ہے کہ آپ کے پاس خدا ہے ۔ ان الفاظ کے معنی پر غور کریں " آپ کے پاس خدا ہے " ۔ خدا کا مطلب ہے محبت، صحت، زندگی، کامیابی، خوشحالی، اطمینان، سکون ۔ اور یہی ہمارے مسائل کا حل ہے ۔ تمام فکروں سے آزادی ۔ بے اندازہ خوشی اور اطمینان کی حالت ۔ خدا کو آپ کسی بھی نام سے پکار سکتے ہیں: بھگوان، اللہ، خدا، یہووا، کامی ساما ، گوڈ ، رب ۔ آپ اس سے کسی بھی زبان میں بات کریں وہ سمجھتا ہے ۔ کیونکہ خدا کی زبان صرف اور صرف محبت ہے ۔

آپ اسے کسی بھی نام سے پکاریں اور پوری طرح دل میں ڈوب کر پکاریں وہ ضرور جواب دیگا کیونکہ وہ آپکا دل، آپکا ذہن، آپکا شعور ہے ۔ وہ آپکی آواز سنتا ہے اور اس کے لئے اس خدائے قادرمطلق کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے ۔ خدائے پاک و برتر کا شکر ہو ۔ آمین ۔
 
Mumtaz Shah
About the Author: Mumtaz Shah Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.