دنیا بھر میں ہر سال 26 جون
انسداد منشیات کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے،پاکستان سمیت ایشیا میں
کروڑوں خاندان منشیات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ اس دن کو منانے کا
مقصد منشیات کے استعمال کو روکنے کے لئے جامع حکمت عملی مرتب کرنا ہے، ایک
محتاط اندازے کے مطابق صرف پاکستان میں منشیات کی لعنت میں گرفتار افراد کی
تعدادلاکھوں سے تجاوز کر چکی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، لیکن
حکومت کے پاس اس حوالے سے کوئی ٹھوس اعداد وشمار نہیں۔ پاکستان میں منشیات
کے عادی افراد کی تعداد میں روز بروز اضافے کی بڑی وجہ معاشی ناہمواری کے
علاوہ افغانستان میں پیدا ہونے والی منشیات اور ان کی بذریعہ پاکستان دنیا
بھر میں سمگلنگ ہے-
دنیا میں پانچ سو سے زائد ایسے مرکبات یا مفردات ہیں جنہیں بطور نشہ
استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں سے معروف نام شراب، بھنگ، چرس، گانجا، افیون،
سگریٹ، حقہ، کافی، قہوہ، کوکو، چائے اور افیون ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ جس
چیز کا نشہ کیا جارہا ہے وہ سگریٹ نوشی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے
مطابق دنیا بھر میں ہر سال5.4 ملین افراد کی موت کی وجہ بالواسطہ یا بلا
واسطہ طور پر تمباکو نوشی ہی ہوتی ہے۔ ہر روز دنیا میں مرنے والے دس افراد
میں سے ایک تمباکو نوشی کے باعث ہلاک ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے
صحت WHO کی رکن ریاستوں نے اس دن کی ابتدا 1987ء میں کی تھی۔ اس تمام عرصے
میں مختلف ممالک میں تمباکو نوشی کے خلاف حوصلہ افزا اقدامات بھی اٹھائے
گئے تاہم متعدد ممالک میں صورتحال اب بھی جوں کی توں ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے فریم ورک کنونشن آف ٹوبیکو کنٹرول کی منظور شدہ قرارداد
کے تحت منایا جانے والا یہ دن مختلف ممالک کی حکومتوں کی توجہ عوامی مقامات
پر تمباکو نوشی پر ممکنہ پابندی اور اس سے لاحق ہونے والی بیماریوں کے خلاف
پیشگی اقدامات کے لیے توجہ مرکوز کرنے کا اعادہ کرتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے
مطابق دنیا بھر میں تمباکو نوشی کا استعمال کرنے والے افراد کی مجموعی
تعداد ایک ارب سے زائد ہے۔ ادارے کے مطابق ہر سال تمباکو نوشی کرنے والے
افراد کے ہمراہ رہنے والے چھ لاکھ افرادجو تمباکو نوش نہیں کرتے وہ بھی
ہلاک ہوتے ہیں اور ان میں سے 28 فیصد تعداد بچوں کی ہے۔
آج سنگاپور میں دیگر ممالک کی نسبت سب سے کم لوگ یعنی تین فی صد آبادی
تمباکو استعمال کرتی ہے۔ جبکہ عالمی تنظیم صحت کے مطابق روس میں تمباکو
استعمال کرنے والوں کی تعداد انتہائی زیادہ ہے۔ تمباکو نوشی کرنے والے
ممالک میں یونان، سلووینیا ، یوکرین، بلغاریہ ، چیک جمہوریہ ، مقدونیہ، روس،
مالدووا، ہسپانیہ ، بوسنیا و ہرزیگوویناسرفہرست ممالک ہیں۔ روس کی ایک
تہائی بالغ آبادی تمباکو نوشی کی عادت میں مبتلا ہے۔ روس میں تمباکو نوشی
سے مقابلے کے لیے ایک خصوصی منصوبہ تیار کیا جا چکا ہے جس کے مطابق ثقافتی
اداروں، طبی اداروں کے دفاتر، کھیلوں کے مراکز، ریل گاڑیوں اور طیاروں میں
تمباکو نوشی پر پابندی عائد کی جائے گی۔ اس کے علاوہ سگریٹس پر عائد محصول
میں اضافہ کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں اٹھارہ سال سے زائد عمر کے بیس فی صد افراد
تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ پاکستان میں تمباکو نوشی کا بڑھتا ہوا رجحان لوگوں
کی بیماریوں میں شدید اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ تمباکو نوشی پر پابندیوں کے
حوالے سے گرچہ ملک میں قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو
رہا ہے۔پاکستان میں تمباکو نوشی سگار، سگریٹ، بیڑی، پان،حقہ، نسوار، گٹکا
اور شیشہ وغیرہ کے ذریعے کی جاتی ہے ۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں
قانونی طور پر ممانعت کے باوجود نوے فی صد دکاندار کم عمر بچون کو سگریٹ
فروخت کر رہے ہیں ۔ جبکہ بہت سے یورپی ممالک میں پبلک مقامات پر تمباکو
نوشی منع ہے-
ڈاکٹرزکے مطابق بہت سی مہلک بیماریوں کا باعث بننے والی تمباکو نوشی کو ترک
کرکے بہت سے انسانوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں پھیپھڑوں کے
سرطان کے نوے فی صد مریضوں کی بیماری کی وجہ تمباکو نوشی ہوتی ہے۔ ایسے دو
تہائی مریضوں کے مرض کی تشخیص عام طور پر اس وقت ہو پاتی ہے جب صورت حال
بہت بگڑ چکی ہوتی ہے۔ تمباکو میں ہزاروں قسم کے کیمیکلز ہوتے ہیں ان میں
چالیس سے ساٹھ کیمیائی مادے ایسے ہوتے ہیں جو مختلف قسم کے سرطان کا باعث
بنتے ہیں۔ عام طور پر لوگ جہالت،سماجی تعلقات، فیشن یا ذہنی دباؤ کی وجہ سے
سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ پاکستان میں عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی منع ہے لیکن
پھر بھی ہسپتالوں، دفتروں، وزرا کے کمروں، سیکرٹیریٹ، بسوں اور تعلیمی
اداروں کے اندر کھلم کھلا تمباکو نوشی کی جاتی ہے اور قانون توڑنے والوں
میں عام طور پر قانون کے محافظ بھی شامل ہوتے ہیں۔
بظاہر تو سگریٹ پیکٹوں پر لکھا ہوتا ہے ’’سگریٹ نوشی مضر صحت ہے‘‘ مگر اس
کی فراہمی عام ہے۔ یہ باآسانی جھوٹے بڑے کی پہنچ میں ہوتی ہے۔اس پر قابو
پانے کے لیے درج ذیل اقدامات پر سختی سے عمل کرائے جائے ۔سگریٹوں پر عائد
ٹیکسوں میں اضافہ کرکے، تمباکو نوشی کے خلاف باقاعدہ ابلاغی مہم چلا کر،
تمباکو نوشی سے متعلقہ قوانین پر موثر عمل کرکے اور تمباکو نوش افراد کو
نفسیاتی مدد فراہم کر کے ہی تمباکو نوشی کے رجحان میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
اگر حکومت تمباکو نوشی پر کنٹرول کرلے تو پھر ہماری منشیات جیسی بیماری سے
بھی جان چھوٹ سکتی ہے۔ نشے کی لعنت نے نوجوان نسل کو بہت زیادہ متاثر کیا
ہوا ہے ۔ایک نشئی پورے خاندان کو داؤ پر لگا دیتا ہے ۔ وہ اپنے نشے کی
ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہر چیز بیچنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ اگر حکومت
سنجیدہ ہوکر اور سختی سے تمباکو نوشی کی پابندی پر عمل کرائے تو ہمارا ملک
اس سے بیماری سے کافی حد تک نجات پاسکتا ہے۔ |