جنگ جاری تھی اور’’العطش۔۔العطش‘‘کی صداگونجی۔خدمت کرنے
والابھاگ کرپانی لایااورزخمی مجاہد کے ہونٹوں سے لگایاہی تھاکہ قریب سے
آواز آئی ’’العطش۔۔العطش‘‘۔زخمی مجاہد نے پیالہ اپنے منہ سے ہٹاتے ہوئے
کہاکہ یہ پیالہ میرے ساتھی کودے دیجئے ۔پلانے والابھاگ کر اس کے پاس پہنچا
اورجلدی سے پانی سے بھراپیالہ اُس کے ہونٹوں سے لگایاتوایک اوربے چین آواز
گونجی ’’العطش ۔۔العطش‘‘دوسرے زخمی نے ساقی سے کہہ دیاکہ لگتاہے میرے بھائی
کو میرے سے زیادہ پانی کی ضرورت ہے لہذاپانی میرے بجائے اسے دے دیاجائے ۔ساقی
دوڑتاہوا تیسرے مجاہد کے پاس پہنچا۔جب پیالہ اُس کے منہ سے لگاتواس کی روح
قصرعنصری سے پرواز کرچکی تھی‘ساقی دوڑتاہوا دوسرے زخمی کے پاس آیاتووہ بے
داعی اجل لبیک کہہ چکاتھا‘ساقی دوڑتاہوا پہلے زخمی کے پاس پہنچاتووہ بھی اس
دنیاسے بے نیاز ہوچکاتھا۔قربانی وجانثاری کی عظیم مثال ‘اپنے اوپراپنے
ساتھی کی خواہش وضرورت کو مقدم ٹھہرانے کی انمول مثال قائم کرنے والے یہ
اصحاب رسول ﷺامت مسلمہ کیلئے ایک بیش بہاخزانہ چھوڑگئے۔آج کراچی کی گلیاں
العطش کی صداسے گونج رہی ہیں۔اورہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاستدان تونہیں البتہ
عوام گھروں سے پانی لے کرنکل آئے ہیں ‘اس عمل کو صاحب ثروت افراد
کوبڑھاناہوگاکیونکہ اس مقدس ماہِ صیام میں اس سے بڑی کیاعبادت ہوگی کہ ایک
انسان کی جان محفوظ کرلی جائے ۔میرے پاک رسولﷺکافرمان عالیشان ہے جس نے ایک
انسان کی زندگی محفوظ کی گویااس نے پوری انسانیت کوبچایا۔
کہتے ہیں کہ اﷲ تعالی نے ایک طوائف کو محض اس لیئے بخش دیاکہ اس نے پیاسے
کتے کو پانی پلایاتھا‘یہاں تومعاملہ انسان کاہے ‘سوچیئے کتنی بڑی نیکی
‘کتنابڑاعمل‘اوروہ بھی اس ماہ میں جس میں ایک نیکی پر دس کاثواب
ملتاہے۔سرکار ِدوجہاں جب کسی مصیبت زدہ انسان کی پکارسنتے تو اپنی نماز
مختصرکردیتے ۔آج ہمیں اسی عمل کی ضرورت ہے ۔علماء کو چاہیئے کہ دوران رمضان
ایک سے زیادہ عمرہ کرنے والوں کی توجہ ان مظلموں کی طرف دلائیں جنھیں اسوقت
امداد کی اشدضرورت ہے ۔ایک سے زیادہ حج کرنے کا ارادہ رکھنے والے بھی اگراس
کارخیرمیں شرکت کریں گے تویقینارب تعالی ان کی نیت کے صدقے انہیں
دوگنااجردیں گے‘مگراس سارے عمل میں علماء کا متفقہ فیصلہ زیادہ قابلِ ترجیح
ہوگااوراخبارکے صفحات پرایک عامی کی تحریر کے بجائے اگرعلمائے وقت اس عمل
کی طرف عوام کوبلائیں گے تویقیناوہ متوجہ ہوں گے ۔دین ہمیشہ انسان کی روح
کاجسم سے تعلق قائم رکھنے کوترجیح دیتاہے پھر نیکی کاحکم دیتاہے ‘تاریخ
گواہ ہے کہ اگرمدینہ میں سرکارنے پہنچ کربھائی چارہ جیسی عظیم مثال قائم کی
اوراسی بھائی چارے کی بدولت اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوئیں ‘انصار نے
بلاتوقف اپنی جائیداد میں ان لوگوں کوشامل کرلیاجن سے ان کاخون نہ ملتاتھا۔
کراچی میں ہمارے اہل وطن 1400کے قریب پانی کی عدم دستیابی ‘گرمی ‘حبس
اورلوڈشیڈنگ کی وجہ سے جاں بحق ہو چکے ہیں ۔حکمران کہہ رہے ہیں کہ ’’گرمی
کی وجہ سے اموات کاذمہ ہمارانہیں ‘‘ ۔جبکہ سیدنا عمر کافرمان عالیشان ہے کہ
فرات کے کنارے کتابھی بھوکا مرگیاتواس کاجواب عمرؓ کودیناہوگا۔آپ دنیاکے
پہلے حکمران ہیں جنھوں نے غیرپالتوجانوروں کے کھانے کابندوبست بھی ریاست کی
ذمہ داری قراردیا‘حیف ہے ایسے بشرپرجو اہل وطن کی ضروریات کو اپنافرض خیال
نہیں کرتا۔لیکن یہ وقت حکمرانوں کو کوسنے دینے کانہیں میدان ِ عمل میں
نکلنے کاہے۔سردخانوں میں جگہ کم پڑگئی ہے ‘پانی کمیاب ہے ‘بجلی کاحصول ممکن
نہیں ۔الخدمت فاؤنڈیشن اور اس جیسے مخیر اداروں اورسول سوسائٹی کے ہرفرد
کافرض ہے کہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس کارخیر میں حصہ ڈالے۔پہلے مرحلے
میں میتوں کیلئے سرد خانوں کی تعمیر‘مریضوں کیلئے طبی سہولیات اوربجلی
کامناسب بندوبست شامل ہیں ۔پھرظاہرہے جہاں میتوں کو دفنانے کیلئے پانی
دستیاب نہیں وہاں اہل وطن کے پاس قبرمیں اتارنے کیلئے جگہ خریدنے کے پیسے
بھی نہ ہوں گے ۔اس سارے کام میں ہمیں آگے آناہوگا۔تنگ وتاریک رہائشی سلسلوں
کیلئے سولرپینل اوربجلی کے متبادل ذرائع بھی مصیبت زدہ لوگوں تک پہنچاناہوں
گے۔ایک مرتبہ سرکارِدوجہاں روزہ داروں کے ساتھ سفر پر تھے اورکچھ اصحاب
کوروزے نہیں تھے ۔ توجب راستہ میں پڑاؤ پڑاتوتمام کام ان اصحاب رسول ﷺ نے
کیا جنھیں روزے نہیں تھے توسرکارنے کیا فرمایا:(مفہوم)آج روزہ نہ رکھنے
والے روزہ داروں پرسبقت لے گئے۔
ماہِ صےام عبادت کامہینہ ہے عبادت ضرور کیجئے لیکن سنیئے ہم نے پڑھاہے کہ
ایک بزرگ خشک چھڑی زمین میں دبائے عبادت کررہاتھے۔راہگیرنے پوچھابابایہ
چھڑی کسی ہے ۔جواب دیا‘جب رب راضی ہوگاتویہ سبزہوجائے گی۔راہگیرنے بھی ایک
خشک چھڑی زمین میں دبائی اورعبادت میں مشغول ہوگیا‘اس کچھ دیر ہی ہوئی تھی
کہ کسی مصیبت زدہ نے پکارا‘بزرگ اپنی جگہ بیٹھاعبادت میں مصروف رہا اورراہ
گیرنے اُٹھ اس شکستہ حال بندے کی مددکی ۔جب راہ گیر اپنی عبادت کی جگہ پر
واپس آیاتواُس کی چھڑی سبزہوچکی تھی اوربزرگ کی چھڑی ہنوز خشک تھی۔۔۔ |