جینا تو مشکل ۔۔مرنا اس سے زیادہ مشکل
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
پیر کی رات تراویح پڑھ کر گھر
آئے کھاناکھانے کے لیے بیٹھے ہی تھے کہ اطلاع ملی کے اسحاق تیموری بھائی کی
اہلیہ کاانتقال ہو گیا ،افطار کے بعد ہی سے عبید بتارہے تھے کہ اسحاق صاحب
بہت پریشان ہیں وہ اپنی اہلیہ کو لے کر مختلف ہسپتالوں میں جا رہے ہیں کوئی
ہسپتال بھی انھیں داخل نہیں کررہا وہ پہلے لیاقت نیشنل ہسپتال گئے وہاں گیٹ
سے ہی گارڈز اور چوکیداروں نے کہا کہ جگہ نہیں ہے کہیں اور لے جاؤآغا خان
لے گئے وہاں سے بھی واپس کردیا گیا ایک اور پرائیویٹ ہسپتال کے بعد آخر میں
سندھ ہسپتال لیاقت آباد لائے جہاں ان کا انتقال ہوگیا اگر دیکھا جائے کہ
کراچی میں حالیہ ہیٹ اسٹروک مرنے والوں کی جو تعداد میڈیا پر بتائی جارہی
ہے یہ وہ تعداد ہے جو ہسپتال آگئے اور ان کی انٹری ہو گئی لیکن وہ لوگ
جنھیں مختلف اسپتالوں میں ان کے لواحقین لیے گھومتے رہے اور انھیں فور طبی
امداد نہ مل سکی اور وہ راستے ہی میں جاں بحق ہو گئے ،جیسے یہ کہ امیر زون
اسحاق صاحب کی اہلیہ کا واقعہ ہوا پھر اس سے وابستہ اور جڑے ہوئے مسائل جس
نے مرنے کو جینے سے زیادہ مشکل بنا دیا اب مسئلہ یہ کے لاش کو اگر گھر لے
جایا جائے برف کا کوئی انتظام نہیں شدید گرمی میں چند گھنٹے بھی نہیں رکھا
جاسکتا میں جب رات کو اسپتال پہنچا تو بتایا کہ کہیں سرد خانے کا انتظام
نہیں ہو رہا بڑی مشکل ایک جگہ انتظام ہوا تو اب مسئلہ ایمبولنس کا آگیا
ایدھی اور امن ایمبولنس سمیت جتنے متعلقہ ادارے تھے ہر جگہ سے یہی جواب ملا
کہ کوئی ایمبولنس نہیں ہے بڑی مشکل سے سندھ ہسپتال کی ایمبولنس کے ڈرائیور
سے بات کر کے اس کو راضی کیا مرحومہ کے بیٹے اور دیگر ایدھی سرد خانے لے
گئے ہم دیگر کارکنان اسحاق صاحب کے ساتھ ان کے گھر آگئے یہاں سب لوگ دیگر
انتظامات میں مصروف ہوگئے کہ بارہ بجے کے بعد یہ اطلاع آئی کہ اسی حلقے کے
رکن جماعت جناب ظفر صدیقی صاحب کا بھی اسی ہیٹ اسٹروک میں انتقال ہو گیا
اسی دن رات ان کی بھی طبیعت خراب ہوئی تو جناب معین عباس مدنی صاحب انھیں
اپنی کار میں لے کر پہلے لیاقت نیشنل پھر آغا خان دونوں جگہ سے انکار کے
بعد جمال نور ہسپتال لے گئے جہان وہ ڈاکٹر کے انتظار میں کچھ دیر اے سی روم
میں بیٹھے ٹھنڈا پانی پیا کچھ طبیعت بہتر ہوئی جب ڈاکٹر آیا تو اس نے یہ
کہہ کہ دیکھنے سے انکار کردیا کہ ہمارے یہاں جگہ نہیں ہے آپ انھیں کہیں اور
لے جائیں پھر انھیں عثمان میموریل ہسپتال حسین آباد لے کر آئے جہاں سے کسی
مریض کو واپس نہیں کیا جارہا تھا وہاں امید ہوئی کہ اب انھیں ٹریٹمنٹ مل
جائے گا لیکن ابھی ظفر بھائی کو کار سے اتارا ہی تھا کہ اچانک طبیعت بگڑی
انھیں ایک ہچکی آئی اور گردن ڈھلک گئی انا لﷲ و انا الیہ راجعونانھیں بھی
فوری طور پر ایدھی سرد خانے لایا گیا سرد خانے کے باہر جہاں اور ڈیڈباڈیز
اس انتظار میں رکھی تھیں کہ جیسے ہی اندر سے کوئی ڈیڈ باڈی نکلے گی تو یہ
اندر جائے گی بہر حال منگل والے دن اسحاق صاحب کی اہلیہ اور ظفر صدیقی صاحب
کی نماز جنازہ ادا کی گئی ۔
جن لوگوں کو اس دنیا سے جانا ہے وہ تو چلا جائے گا ان دو واقعات میں کئی
اسباق پوشیدہ ہیں پہلے تو یہ کہ ہمارے نجی اسپتالوں کا رویہ انتہائی
سفاکانا تھا وہ چاہتے تو ہر مریض کو ابتدائی طبی امداد دے سکتے تھے لیکن
انھوں نے اس آفت کو بھی اپنی کمائی کا ذریعہ بنایا اور صرف ان لوگوں کو
اپنے اسپتال میں داخل کیا جن کے بارے میں انھیں یہ یقین تھا کہ اس سے ٹھیک
ٹھاک پیسے مل جائیں گے اگر ہمارے شہر کے تمام نجی اسپتال مالی مفادات کو
بالائے طاق رکھ کر خدمت خلق کے جذبے سے کام کرتے تو شاید اتنی تعداد میں
اموات نہ ہوتیں ۔سرکاری اسپتالوں کے بارے میں تو کہنا ہی کیا کہ یہاں پر
پہلے ہی سے سہولیات کا رونا رویا جاتا لیکن جب کوئی آفت نازل ہو جاتی تو
صورتحال اور زیادہ تشویشناک ہو جاتی ہے ،لیکن حیرت انگیز طور پر اس دفعہ
جناح اسپتال کی کارکردگی کچھ بہتر نظر آئی اس میں یقینا ڈاکٹر سیمیں جمالی
کی انتظامی صلاحیتوں کا بھی عمل دخل ہے ۔یہ تو ایک اچانک ناگہانی تھی کے
اتنے لوگ ایک ہفتے کے اندر جاں بحق ہو گئے سوال یہ ہے کہ اگر کوئی اس سے
بڑی آفت یا ناگہانی مصیبت آگئی تو لاشیں سڑکوں پر سڑتی رہیں گی اور کوئی
اٹھانے والا نہ ہو گا ۔ایک مسئلہ مرنے والوں کی تعداد کا ہے ہسپتالوں کی
رجسٹریشن کے مطابق ایک ہزار سے زائد افراد اب تک ہلاک ہو چکے ہیں لیکن اس
میں وہ تعداد تو شامل نہیں ہے جو اسپتال پہنچ ہی نہ پائے یا جن کو ہسپتال
والوں نے لیا ہی نہیں جیسے کہ یہ اوپر کی دو مثالیں ہیں ۔اس دن یہ اطلاع
ملی کہ ابھی دو افراد کی نماز جنازہ پڑھائی گئی ہے اور انھیں جلد ہی دفن
کردیا گیا اس لیے کہ ڈیڈ باڈی گھر پر رکھنے لے لیے برف نہیں مل رہی ،سرد
خانوں میں گنجائش نہیں گھر والوں نے کسی طرح قبر کا نتظام کر کے رات ہی میں
ان کی تدفین کر دی ۔ان کی بھی کہیں انٹری نہیں ہوئی اسی طرح کل لیاقت آباد
میں دو بلکل جڑے ہوئے مکانوں میں پانچ منٹ کے وقفے سے اچانک دو لوگ ہیٹ
اسٹروک کا شکار ہوئے اور وہیں دم توڑ دیا ۔اس طرح کہ تمام واقعات کو جمع
کیا جائے تو کراچی میں مرنے والوں کی تعداد ڈھائی تین ہزار تک ہوگی ۔اب
موسم قدرے بہتر ہو رہا ہے لیکن ان تمام اموات کا کراچی میں اگر کوئی ادارہ
ذمہ دار ہے تو وہ کے الیکٹرک ہے یہ ادارہ کراچی کے شہریوں کے لیے ایسی
خوفناک بلا بن گیا ہے جس نے لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں ان کے آنسو بھی خشک
ہو گئے پرویز مشرف ،شوکت عزیز ،آصف زرداری اور ایم کیو ایم سمیت وہ سب اس
کے ذمہ دار ہیں جنھوں نے اپنے وقتی مفاد کے پیش نظر اس ادارے کو کراچی کے
شہریوں پر مسلط کیا ہے اس ادارے نے اربوں روپیہ منافع کمایا لیکن کراچی کے
شہریوں کے لیے ایک یونٹ بجلی اضافی پیدا نہیں کی ایسا لگتا ہے کہ صوبائی
اور وفاقی حکومت سمیت سب اس ادارے سے ڈرتے ہیں کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں
کے کہ شدید گرمی کے ماحول میں آپ کے ادارے کی نا اہلی کی وجہ سے تین ہزار
افراد جاں بحق ہو گئے دو روز قبل اعظم نگر لیاقت آباد میں ایک بہت غریب
بوڑھا آدمی جس کا یک بچہ ذہنی معذور ،ایک کچھ کام کرتا تھا وہ خود گھر کے
دروازے کے باہر بچوں کی چیزیں فروخت کرتے تھے ان کے گھر دو روز سے بجلی
نہیں تھی کل ان کی بیوی کی طبیعت خراب ہوئی اسپتال لے گئے وہاں ان کا
انتقال ہو گیا ان بوڑھی خاتون کی طبیعت چھوٹے سے گھر میں مسلسل بجلی نہ
ہونے کی وجہ خراب ہوئی اور پھر انتقال ہو گیا ۔ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ
اس مرتبہ جس نوعیت کی گرمی پڑی ہے اس نے ائیر کنڈیشن کو ایک ضرورت بنا دیا
ہے کیا کے الیکٹرک کراچی کی اس طرح کی آئندہ کی شہر کی ضروریات کو پوری
کرسکے گا اس پہلو پر بھی سوچ بچار کی ضرورت ہے -
جماعت اسلامی کو چاہیے وہ کراچی کے مرحومین جو کے الیکٹرک کی سفاکی کی وجہ
سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے کا مقدمہ لے کر سپریم کورٹ میں جائے اس حوالے سے
جب میری جناب حافظ نعیم الرحمن ساحب سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ہم
عدالت جارہے ہیں اس پر کام شروع ہو گیا ہے ۔
|
|