خوبصورت دیس کے بد قسمت لوگ

ریاست جموں کشمیر کا وہ حصہ جسے عرف عام میں آزاد کشمیر کہا جاتا ہے کے لوگ ناں صرف تحریک آزادی کو نظر انداز کر رہے ہیں بلکہ اپنے عظیم ابا واجداد کے کردار کو بھی فراموش کر چکے ہیں بے حسی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور ہر کوئی محض اپنی زات کے خول میں مقید ہے ۔ان پڑھ کجا اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی وحدت کشمیر کی بحالی میں اپنے کردار و زمہ داری سے کترا تے نظر آتے ہیں جوکہ قدرتی شاہکار اس خوبصورت دیس کے لوگوں کی بڑی بدقسمتی ہے ۔یہاں اکثر لوگ ہمیشہ لوکل سطح کے مسائل و عوامی حقوق کا واویلہ کرتے رہے لیکن گزشتہ چھ عشروں میں یہاں کی زمین پر کوئی ایسانشان نظر نہیں آتاجس سے یہ ظاہر ہو کہ کوئی عوامی کام ہوئے ہیں ،پورے آزادکشمیر گھومیں تو کہیں بین الاقوامی میعار پر تعمیر کی گئی ایک کلو میٹر سڑک نظر نہیں آتی البتہ چند خاندانوں نے بڑے ٹہکے سے زندگی کے شب وروز گزارے اور اب بھی وہ عوام کو بے وقوف بنا کر اپنا کام چلا رہے ہیں۔

۲۰۰۵ میں ہونے والے زلزلے نے اس خطے کو تہس نہس کر کہ رکھ دیا تھا یہ وہ وقت تھا جب یہاں کے حکمرانوں کا کردار ہی کھل کر سامنے نہیں آیا تھا بلکہ بدعنوانی و بے ایمانی نے سول سوسائٹی کی جڑوں کو کہاں تک متاثر کر رکھا ہے یہ بھی اچھی طرح بے نقاب ہوا ۔اﷲ تعالی کی حکمت ومہربانی کہ عالمی برادری نے متاثرہ علاقہ کے لئے دل کھول کرعطیات دئیے کہ ان کی ہی نگرانی میں ان فنڈزسے اس خطہ میں بین الاقوامی میعار کی کئی سکولز کالجز اور ہسپتالز کی عمارتیں تعمیر کی گئیں ۔جنہیں دیکھ کر اپنے حکمرانوں کے کردارو وژن پر رونا آتا ہے اور ان کے ووٹرز پر تو افسوس ہوتا ہے ۔

ہمیں۳۰ نومبر۲۰۱۰کا وہ تاریخی دن یاد ہے جس روز متحدہ عرب امارات کے فرماروا السمو شیخ خلیفہ بن زائد ال انہیان کی خصوصی ہدائت کے عین مطابق راولاکوٹ میں کمبائنڈ ملٹری ہسپتال جو زلزلہ سے تباہ ہوچکا تھا کی تعمیرابو ظبیی میونسپل ڈیپارٹمنٹ کی نگرانی میں مکمل ہوئی اور اس کا افتتاح ہو،اس روز پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ہمراہ وزیر صحت متحدہ عرب امارات محترم ڈاکٹرحنیف حسین یہاں تشریف لائے جب کہ راجہ زولقرنین بھی موجود تھے اس روز ہم پہلی بار اس عمارت میں داخل ہوئے ۔اس بین الاقوامی میعار وطرزتعمیر کا شاہکار عمارت نے شہر کے حسن کو دوبالا کر دیا تھا اور جب ہم اس میں داخل ہوئے تو اس کے درو دیوار ،صفائی و نفاست نے آنکھوں کو خیرہ کر دیا اوربلا شبہ وہ گواہی دے رہے تھے کہ یہاں کے لوگ اس کا حق رکھتے ہیں ،اس عمارت کے فرش کی چمک ایسی کہ اس میں اپنا چہرہ صاف دکھائی دیتا تھا مگر چند برسوں میں اس کی حالت بدل گئی اور ساری چمک دھمک ماند پڑھ گئی ہے اور ہم اسے خود ماضی کے سی ایم ایچ کی جانب لیجا رہے ہیں اس لئے بھی کہ ہمارہ ہمیشہ سے ایک مائنڈ سیٹ رہا ہے کہ چیزوں کو پولیٹیسائز کرنا ہے اور بربادیاں پھیلانی ہیں ہم نے کبھی قومی اثاثوں کو اپنا نہیں سمجھا ۔یہی وجہ ہے کہ آج یہ عمارت مرجھا گئی ہے اس کے درودیوار دھندلا گئے اور ناراض ناراض ہیں ان کا رنگ جگہ جگہ سے اکھڑ چکا ہے اس کے باتھ رومز گندگی کے ڈھیر سے اٹھے رہتے ہیں اور صفائی کا کوئی خاطر خواہ اہتمام نہیں ہے اور اس کے فرش پرانے سی ایم ایچ کے فرش سے بھی بد تر منظر پیش کر رہے ہیں فیملی ہاسٹل کے پاس بنے بچوں کے پارک کا تمام سامان ادھر ادھر بکھرا پڑا ہے اور اس کے افتتاح کے دوسرے روز ہی اس کا مین دروازہ بند کر دیا تھا جو آج تک نہیں کھولا گیا اور تمام لوگ بیک ڈور کو استعمال کرتے ہیں ۔

دوسوپچاس بستروں پر مشتمل ۲۸اٹھائیس ملین امریکن ڈالرسے تعمیرکیاگیا شیخ خلیفہ بن زائد ہسپتال راولاکوٹ جو سول و ملٹری کا کمبائنڈ ہے ۔بیشک اس ہسپتال پر عباسپور، ہجیرہ ،حویلی ،منگ،تھوراڑ،پانیولہ،بھنگوئیں ،پاچھیوٹ اور راولاکوٹ کے پانچھ لاکھ افراد کا بہت بھاری بوجھ ہے جو کسی بھی طرح مناسب نہیں لیکن اس کے سٹاف کا رویہ قطعی طور پر اس مقدس پیشے کے شایان شان نہیں ہوتا یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں اور انہیں جبراً یہاں سزا کے طور رکھا گیا ہے ۔ان کی لاپروائی کے قصے زبان زد عام ہیں اور ان کے کئے گئے آپریشنز کے اوزار اکثر راولپنڈی کے ہسپتالوں سے جا کر برآمد ہوتے ہیں ۔ان کی اہلیت ایسی ہے کہ ایک جیسی درسگاؤں سے فارغ التحصیل ڈاکٹرز اور نرسز ہیں لیکن ناجانے کیوں خطہ کے ہسپتالز میں آنے والا مریض یوں محسوس کرتا ہے کہ شائد وہ کسی تھانے میں آگیا ہو اور اگر کسی پاکستانی ہسپتالز میں جائیں تو ڈاکٹرز کے مہذب روئے سے ہی مریض کا آدھا مرض جاتا رہتا ہے ۔اور راولاکوٹ ہسپتال کی فائلز اور رپورٹز کو پاکستانی مراکز صحت والے دیکھ کر یوں واپس کرتے ہیں جیسے نمائشی و غیر سنجیدگی سے پڑھی گئی نمازیں یوم قیامت منہ پر ماری جائیں ۔

اس صورتحال کا کون زمہ دار ہے ؟ بھارت یا افغانستان یا پھر امریکہ ۔۔۔ ؟ اس ہسپتال میں ماہانہ لاکھوں روپے اور بھرپور پروٹوکول سے لطف اندوز ہونے والے اسی شہرا ور اسی دیس کے لوگ ہی تو ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود یہ ڈاکٹر برادری انسانیت دوست نہیں ہے ۔اور اس کی مینجمنٹ اس عمارت کی مینٹیننس کے لئے اقدام کرنے سے قاصر کیوں ہے ؟ ماہانہ کروڑوں روپئے کھڑوس و انسانی جذبوں سے عاری ڈاکٹرز پر خرچ کئے جا سکتے ہیں تو صفائی ستھرائی کے لئے مذید بیس پچیس ہزار خرچ کر کے صفائی کے عملہ میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے ،لیکن ڈاکٹرز ،نرسزکی اخلاقی تربیت اور صفائی عملے میں اضافہ تبھی ممکن ہو سکتا ہے کہ منیجمنٹ بذات خود محب وطن و انسانیت دوست ہو۔جو اپنے قومی اثاثوں کو اپنی ملکیت سمجھ کر ان کی حفاظت کو اپنی زمہ داری سمجھیں اور انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنا سکیں ۔۔۔لیکن یہ سب اس بد قسمت دیس کے لوگوں کے نصیب میں کہاں۔۔۔۔۔اﷲ ہمارا حامی وناصر ہو‘‘ آمین
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 82155 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.