ہر داناانسان خودکو گودسے گورتک
طالبعلم سمجھتا اورمسلسل کچھ نہ کچھ سیکھتارہتاہے ۔خودکوعقل کل یاکامل
سمجھنے والے درحقیقت علم اور عقل سے عاری ہوتے ہیں۔ہم سے ہرکسی
کواپنااپنااحتساب کرناچاہئے اوردیکھناچاہئے کہ ہم نے معاشرے سے کیا لیا ہے
اورہم اسے کیا دے رہے ہیں ۔اسلام دین فطرت ہے ،ہماری بنیادبھی ہے اورہماری
بقاء کارازبھی اسلامی تعلیمات کی پاسداری میں مضمر ہے۔جس طرح کہاجاتا ہے کہ
یہ زندگی محبت کیلئے انتہائی مختصر ہے تولوگوں کو نفرت کیلئے کہاں سے وقت
مل جاتاہے۔اس طرح یہ زندگی تعلیم وتربیت کیلئے بہت کم ہے توپھرتفریح بلکہ
بیہودہ تفریح کے نام پراپناقیمتی وقت کیوں بربادکیا جائے۔ایک صحتمندانسان
کیلئے تفریح ضرورہونی چاہئے مگر وہ اسلامی اورمشرقی اقدار کے منافی نہ ہو
۔ہمیں مشرقی کہا جاتا ہے لیکن ایک مخصوص طبقہ مغرب کی تقلید میں بندگلی میں
جاپہنچا ہے اوردوسروں کوبھی زبردستی گھسیٹ کراس بندگلی میں لے جاناچاہتا ہے
۔
سورج ہمیں ہرشام یہ درس دیتا ہے
مغرب کی طرف جاؤ گے توڈوب جاؤگے
ایک زمانہ تھا ہمارے گھروں میں دادیاں اور نانیاں ہوتی تھیں اوران کادم
غنیمت ہوتا تھا،ان کے دم سے گھروں میں برکت اوربصیرت ہوتی تھی۔ نانیاں
دادیاں اپنے پوتے ، پوتیوں، نواسے ، نواسیوں کو فجر کی نماز کیلئے اٹھاتیں،
قرآن مجید پڑھنے کیلئے بٹھاتیں اوراس کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب سے روشناس
کراتیں، ایک طرح سے یہ اس دور کے مارننگ شوزتھے اورباقاعدگی سے ہرصبح صادق
ہمارے گھروں میں ان کاخصوصی اہتمام ہوتا تھا۔ بچے صحت مند ناشتہ کرتے تھے۔
بزرگوں اوربڑوں کو سلام کر کے اور ان کی دعاؤں کے ہمراہ گھروں سے رخصت ہوتے
تھے۔ یوں یہ سلسلہ اگلی نسلوں تک منتقل ہوتا رہتا تھا۔لیکن عہدحاضر میں
ٹیکنالوجی کی نام نہاد ترقی نے ہماری معاشرتی اقدارکاحلیہ بگاڑدیا ہے،اس
نام نہادترقی کے اثرات سے معاشرہ اتنا مستفید یامتاثرہواکہ اب نانیو ں یا
دادیوں کے مارننگ شوز چینلز پر شفٹ ہو گئے ہیں۔ہماری خواتین کو درپیش
انتہائی اہم اور حساس نوعیت کے مسائل جن میں پاؤں کے انگوٹھوں اور انگلیوں
پر کالے دھبے دور کرنے، منہ پر موقعوں کے خاتمے، زائد بالوں کے خاتمے پر ،
بڑھے ہوئے پیٹ کو اندر کرنے ، کندھوں کی چربی زائل کرنے ،موٹے گال پتلے
کرنے،پچکے گالوں پر گوشت چڑھانے، آئی بروز کو برابر کرنے، ساس اور بہوؤں کو
ایک دوسرے سے نمٹنے ، شوہروں کوریموٹ کنٹرول سے اپنے قابو میں کرنے، گھروں
کی صفائی کے طریقے، منگنی کی انگوٹھی کس انگلی میں پہننا چاہئے، ساڑھی
پہننے کے طریقے، بالوں میں کرل کرنا، بالوں کو سیدھا کرنا، جلد کو جوان
رکھنا، ہاتھوں اور پاؤں کی جھریوں کو ختم کرنا،کولہے کم کرنا،گھریلوحکیمی
نسخے، غرض اسی طرح کے ہزاروں قسم کے دیگر حساس مسائل کا حل ایک خاتون اینکر
10دس لاکھ کے کپڑوں، بھاری میک اپ، مہنگے ترین پرس اور جوتوں کی نمائش کے
ساتھ صبح سویرے ٹی وی سکرینوں پرجس طرح دو گھنٹے پنجے گاڑھ کر بیٹھی ہوتی
ہیں۔ وہ دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے کہ اس ملک میں غربت،
مہنگائی، نفسیاتی مسائل اور غریب طبقے میں پائی جانے والی بے چینی اور دیگر
اہم معاشرتی مسائل اہم نہیں ہیں۔ریٹنگ کی آڑمیں معاشرے کوبگاڑنے سے گریز
جبکہ سنوارنے کاخصوصی اہتمام کیا جائے ۔
کہاجاتا ہے''Your words can change your world'' لہٰذاء مارننگ شوزمیں مثبت
،تعمیری اوراصلاحی موضوعات کاانتخاب کیا جائے ۔معاشرے سے تشدد ،تعصب
،حسد،نفرت ،منافقت،غیبت ختم جبکہ محنت اورانسانیت سے محبت کاکلچر عام کرنے
کی تدبیر کی جائے ۔معاشرتی برائیوں کے سدباب کیلئے ہرطبقہ کواپناکلیدی
کرداراداکرناہوگا۔کہاجاتا ہے کہ کسی کوبرائی کی ترغیب یاتربیت نہ دوکیونکہ
ہوسکتا ہے تم خود تووہ برائی ترک کردولیکن جس دوسرے کوتم نے اس برائی
پرلگایاتھا وہ ختم نہ کرے اوریوں تمہارے نامہ اعمال میں اس برائی کاگناہ
لکھاجاتا رہے ۔
کیا کسی مارننگ شو کی میزبان نے ارض وطن کے دور دراز غیرترقی یافتہ علاقوں
میں کھیتوں میں کپاس چنتی ہوئی عورتیں ، گھروں سے کئی کئی کلو میٹر کے
فاصلے سے بھاری بھر کم مٹکوں میں پانی بھر کے لانے،دشوارا ترین پہاڑی
راستوں میں کاروبارِزندگی چلانے اورگھروں، فیکٹریوں، ہسپتالوں، سکولوں ،
ایئر پورٹوں اور دفاتر میں نچلے عہدوں پر کام کرنے والی خواتین، مزدور
خواتین کے بارے میں بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان کے شب و روز کس طرح گزرتے
ہیں اور وہ کتنی مشقت اور مسائل سے زندگی بسر کرتی ہیں،جی ہاں یہ تمام
اینکرز کیلئے سوالیہ نشان ہے جنہوں نے مارننگ شوز کو بے وقت نمائشی
مہندیوں، شادیوں اورڈھولک کی رسموں تک محدود کر رکھا ہے۔ ناقص ترجیحات کے
سبب مارننگ شوزتربیت گاہ کی بجائے اذیت گاہ بنے ہوئے ہیں۔جن میں ان خواتین
مہمانوں کی شادی کی رسومات ایک تواتر کے ساتھ دکھائی جا رہی ہیں جن کے اپنے
بچے اب شادیوں کی عمر تک پہنچ چکے ہیں۔اس کے علاوہ مارننگ شوز میں اینکرز
کی بڑھتی ہوئی مناپلی کو چیک کرنے کا کوئی طریقہ کار کسی میڈیا ہاؤس کے پاس
شاید نہ ہو۔ اینکرز مہمانوں کا انتخاب کرتے ہوئے صرف اور صرف ذاتی تعلقات،
رشتہ داریاں اور مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کرتی ہیں۔
مزید برآں اگر ان اینکرز کی کوالیفیکیشن کو دیکھا جائے تو وہ ان کے کان میں
لگے ہوئے ایئر پیس تک محدود ہے جہاں سے دی جانے والی کمانڈ کو Followکیا
جاتا ہے اور خصوصی طور پر اینکرز کو انگریزی بولتے ہوئے کیمرہ بغیر کسی
لحاظ کے ان کے چہرے کی اذیت کو عوام کے سامنے جس طرح عیاں کرتا ہے اس سے ان
کی تعلیمی قابلیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ یہ
اینکرز جنوں، بھوتوں، چڑیلوں ، مرئی اور غیر مرئی طاقتوں، مردوں
،قبرستانوں، تعویز گنڈوں اور کالا جادو کرنے والوں کے بارے میں جس طرح بڑھ
چڑھ کراپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے عوام کو اپنی جنرل نالج سے مستفید کر رہی
ہیں اس سے چھوٹے بچوں کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ بھی ایک
سوالیہ نشان ہے۔
کیا ہمارا معاشرہ اور اس کی اخلاقیات اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ کسی شخص
کی بیٹی ، بہن، بہو اور تمام مقدس رشتے ٹی وی اینکرزسے لڑکوں کی چھیڑ خانی
کے طریقے اور ان سے بچاؤ کی ترکیبیں سیکھیں۔اس کے علاوہ ٹی وی سکرینز کے
ذریعے بے حیائی کی جو ترغیب دی جارہی ہے اور واضح طور پر مارننگ شوز میں
لڑکے اور لڑکیوں کو بٹھا کر یہ پوچھنا کہ آپ کو ان سے پہلی محبت کب ہوئی،
کہاں ہوئی، کیسے ہوئی جیسے بیہودہ سوالات مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے
80فیصد عوام کے ذہنی دباؤ،مسائل اور پریشانیوں کو کم کرنے میں مدد دے سکتے
ہیں۔ یہ آج کا وہ سوال ہے جو ہر عزت دار باپ ، شوہر اور بھائی میڈیا ہاؤسز
کے پالیسی میکرز سے پوچھنا چاہتا ہے۔ |