مسئلہ تقلید اور ایک وضاحت
(مولوی سید وجاہت وجھی, karachi)
بعض لوگوں کو تقلید پر اعتراض ہے
کہ ھم نے کلمہ نبیﷺ کا پڑھا ہے تو ہم امام ابو حنیفہ کی بات کو کیوں مانے ؟
اصل میں ان لوگوں نے تقلید کا مطلب نہیں سمجھا یا یہ لوگ سمجھ کر انجان
بنتے ہیں ، تقلید کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ امام ابو حنیفہ یا دیگر ائمہ کی
بات قرآن و حدیث کی طرح ہے کہ جس کا ماننا لازم ہو،تقلید کا یہ مطلب ہرگز
نہیں،بلکہ ہم جو امام ابو حنیفہ کو مقلد ہیں اسکا مطلب یہ ہے کہ امام اعظم
نے قرآن و حدیث کی جو تشریح کی ہے ھم اس پر اعتماد کرتے ہیں ، کیونکہ
قرآن و حدیث میں بعض دفعہ ہمیں تعارض نظر آئے گا کہ کسی حدیث میں کسی کام
کے کرنے کا حکم ہے جبکہ دوسری حدیث میں اس کام سے روکا گیا ہے یا احادیث
میں اختلافات نظر آئے گے، اب اس طرح کی صورت حال پیش آجائے تو دو صورتیں
ہوسکتی ہے یا ہم خود فیصلہ کرلیں کہ ھمیں کس حدیث پر عمل کرنا ہے اور کس
حدیث کو چھوڑنا ہے یا کسی ماہر سے جو علوم شریعت کا جاننے والا ہو اسکی بات
کو مان لیں ، ایسے میں اگر ہم اپنے علم و عمل کا موزانہ امام اعظم سے کریں
تو انکے علم تقوی دیانت اور ھمارے علم و تقوی میں زمین و آسمان کا فرق ہے
،تو ایسے میں کسی ماہر علوم شریعت کی بات کو ماننا اور اپنی رائے پر نہ
چلنا اس میں ذیادہ احتیاط ہے اور ایک بات یہ بھی ذھن نشین رھے کہ ھم جس
طریقہ پر قائم ہے یہ کوئی نیا طریقہ نہیں بلکہ مسلمان شروع ہی سے کسی نہ
کسی امام کی تقلید کرتے ہوئے آئے ہیں اور ھندوستان اور پاکستان میں یھی
لوگ اسلام لیکر آئے یہ خواجہ معین الدین چشتیؒ ، علی ہجویری ،خواجہ گنج
شکرؒ وغیرہ یہ سارے بزرگ حنفی ہی تھے تو بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہم ان
اولیاء کاملین کے طریقہ کو چھوڑ کر آج کل کے نام نھاد مذھبی اسکالروں کی
راہ اپنائے ۔اللہ ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے |
|