دیدار الٰہی
(Hamid Jamil, Gujranwala)
غوث الاعظم حضرت سیّدناشیخ عبد
القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں:
من لم یعرفہ کیف یعبدہ
ترجمہ: جو شخص اللہ کو پہچانتا ہی نہیں وہ اللہ کی عبادت کس طرح کر سکتا ہے۔''
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جو شخص اللہ کہنے میں اللہ کی ذات کی معرفت و حقیقت سے آگاہ و آشنا نہیں وہ
اللہ کی حقیقی یاد سے غافل ہے۔ (سلطان الوھم)
اللہ کو دیکھ کر' پہچان کر عبادت کرنے میں جو خشوع و خضوع اور حضوری قلب کی
کیفیت حاصل ہوتی ہے وہ دیکھے بغیر حاصل ہونا ناممکن ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت اور عبادات کی فرضیت میں
تیرہ سال کا وقفہ ہے' اس دوران حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ رضی
اللہ عنہم کو معرفتِ الٰہی کی تعلیم دی۔ جب یہ تعلیم مکمل ہوئی تو ظاہری
عبادات فرض کی گئیں تاکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی عبادات بے روح نہ ہوں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون
ترجمہ: ''اور ہم نے پیدا کیا انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے'' اس
آیت کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں
کہ :
وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ای لیعرفون
یعنی اس آیت میں لیعبدون (عبادت کے لیے ) سے مراد لیعرفون (معرفت کے لیے)
ہے۔ صوفیاء کے نزدیک بھی عبادت سے مراد معرفت ہی ہے کیونکہ تمام عبادات کا
مقصد اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ جو عبادت انسان کو اللہ کے قریب لے جا کر
اس کی پہچان یعنی معرفت نہیں دلاتی وہ عبادت نہیں۔ چنانچہ اس آیت میں ''
لیعبدون سے مراد عبادت کی اصل روح یعنی ''معرفت'' کا حصول ہے۔ صرف عبادات
کے لیے تو اللہ کے فرشتے ہی کافی تھے۔ اللہ کسی انسان کے نماز روزے کا
محتاج نہیں۔ ہاں وہ یہ ضرور چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے قرب' وصال اور
معرفت کی طلب کریں جیسا کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
کنت کنزا مخفیا فاردت ان اعرف فخلقت الخلق لاعرف
ترجمہ: میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں پس میں
نے مخلوق کو پیدا کیا تاکہ میری پہچان ہو۔
انسان کی تخلیق کا اصل مقصد اور اس کی عبادات کا مغز اللہ کی پہچان ہے' جس
نے اس مقصد سے رو گردانی کی بے شک وہ بھٹک گیا۔ نہ دین ہی اس کا ہوا نہ
دنیا۔ مرنے کے بعد قبر میں انسان سے پہلا سوال یہ پوچھا جائے گا ‘‘ من ربک
‘‘ بتا تیرا رب کون ہے؟جس نے اپنے ربّ کی پہچان ہی حاصل نہ کی ہو گی وہ اس
سوال کا کیا جواب دے پائے گا۔ اگر اس کا جواب یہ ہوگا کہ کائنات اور تمام
مخلوق کا خالق میرا رب ہے تو یہ جواب تو یہود و نصاریٰ کا بھی ہوگا پھر
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا امتی ہونے کی فضیلت اُسے کیسے حاصل ہوگی؟
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُمت اسی لیے خیر الامم ہے کہ اس کے لیے اللہ
کے دیدارو وصال کی راہیں کھول دی گئی ہیں۔ قرآن پاک میں کئی آیات میں اللہ
سے ملاقات (معرفت و دیدار) کی طرف اُمت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو
راغب کیا گیا ہے۔
یایھا الانسان انک کادح الیٰ ربک کدحا فملٰقیہ
ترجمہ: اے انسان تو اﷲ کی طرف کوشش کرنے والا اور اس سے ملاقات کرنے والا
ہے۔
اتصبرون وکان ربک بصیرا
ترجمہ:آیا تم صبر کئے بیٹھے ہو؟ (اور اﷲ کی طرف بڑھنے کی کوشش نہیں کر رہے
ہو؟ )حالانکہ تمہارا رب تمہاری طرف دیکھ رہا ہے اور تمہارا منتظر ہے ۔
فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملا صالحا
ترجمہ: جو شخص اپنے رب کا لقاء (دیدار)چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ وہ اعمالِ
صالحہ اختیار کرے۔
دنیا میں انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کے دیدار کی آرزو بھی دل میں رکھتا
ہے اور بہت دیر تک اس سے ملاقات کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جو انسان اللہ سے
محبت کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن اس محبت کے اظہار کے لیے خالی سجدوں کو کافی
سمجھ لیتا ہے اور اس کے دیدار اور وصال کی خواہش ہی نہیں رکھتا بیشک وہ
اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ان الذین لا یرجون لقاء نا ورضوا بالحیٰوت الدنیا و اطمانوا بھا والذین ھم
عن اٰیٰتنا غٰفلون اولٰئک ما وٰ ھم النار بما کانوا یکسبون
ترجمہ: بے شک جو لوگ لقائے الٰہی (دیدار ) کی خواہش نہیں کرتے اور دنیا کی
زندگی کو پسند کر کے اس پر مطمئن ہو گئے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو
بیٹھے' انہیں ان کی کمائی سمیت جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا۔
دیدارِ الٰہی سے انکاری لوگوں کے انجام سے بھی آگاہی فرما دی۔
اولئک الذین کفروا باٰیٰت ربھم ولقائہ فحبطت اعمالھم فلا نقیم لھم یوم
القیٰمت وزنا ۔
ترجمہ: جن لوگوں نے اپنے رب کی نشانیوں اور اس کے لقاء(دیدارِ الٰہی) کا
انکار کیا ان کے اعمال ضائع ہو گئے۔ ہم ان کے لئے قیامت کے دن کوئی تول
قائم نہ کریں گے ( یعنی بغیر حساب کے انہیں جہنم رسید کیا جائے گا)۔
قد خسر الذین کذبوا بلقاء اللہ
ترجمہ: بے شک وہ لوگ خسارے میں ہیں جنہوں نے لقائے الٰہی( دیدار) کو
جھٹلایا۔
ترجمہ: خوب یادرکھو وہ اپنے ربّ کے لقاء (دیدار) پر شک میں پڑے ہوئے ہیں۔
اور یاد رکھو بیشک وہ (اللہ تعالیٰ ) ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ( حٰم
السجدہ ۔ ٥٤)
ترجمہ :جو شخص اس دنیا میں (لقائے الٰہی سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی (دیدارِ
الٰہی کرنے سے) اندھا رہے گا۔ ( بنی اسرائیل ۔ ٧٢ )
کچھ لوگ دنیا میں دیدارِ الٰہی کا انکار کرتے ہیں اور اس کے لیے حضرت موسیٰ
علیہ السلام کے واقع کو دلیل بناکر پیش کرتے ہیں کہ اگر وہ نبی ہو کر اللہ
کا دیدار نہ کر سکے تو ہم کیسے کر سکتے ہیں حالانکہ اگر ہم قرآن میں حضرت
موسیٰ علیہ السلام کے اس واقع کو بغور پڑھیں تو یہ واقع خود دیدارِالٰہی کے
ممکن ہونے کا ثبوت ہے۔
ترجمہ:جب موسیٰ علیہ السلام ہمارے( مقرر کردہ) وقت پرحاضر ہوئے اور ان کے
ربّ نے ان سے کلام فرمایا تو ( کلامِ ربانی کی لذت پاکر دیدار کے آرزو مند
ہوئے) عرض کرنے لگے۔ اے ربّ! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کر
لوں۔ ارشاد ہوا تم مجھے (براہِ راست) ہر گز نہ دیکھ سکو گے مگر پہاڑ کی طرف
نگاہ کرو پس اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو عنقریب تم میرا دیدار کر لو گے۔
پھر جب ان کے ربّ نے پہاڑ پر تجلیّ فرمائی تو (شدتِ انوار سے) اِسے ریزہ
ریزہ کر دیا اور موسیٰ( علیہ السلام) بے ہوش ہو کر گر پڑے پھر جب ہوش میں
آئے تو عرض کیا تیری ذات پاک ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں
سب سے پہلا مومن ہوں۔ (الاعراف ۔ ١٤٣ )
اس واقعہ سے واضح طور پر دیدارِ الٰہی ثابت ہوتا ہے اور آیت کے آخر میں ‘‘‘
انا اول المومنین ‘‘ '' سب سے پہلا مومن ہوں'' ثابت کرتا ہے کہ آپؑ کو
دیدار ہوا کیونکہ مومن تو ہوتا ہی وہی ہے جو ربِّ جلیل کو دیکھ کر عبادت
کرتا ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ ''میں اللہ کا دیدار کرنے
والاپہلا مسلمان ہوں۔'' کیونکہ اگر یہ معنی نہ لیے جائیں تو ''پہلا مومن''
سے خدانخواستہ یہ شک پیدا ہو تا ہے کہ کیا گزشتہ انبیاء نعوذ باللہ ''مومن''
نہ تھے؟ بعض لوگ'' لن ترانی ‘‘ '' (تو مجھے نہیں دیکھ سکتا) سے یہ بات ثابت
کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کو دیدار نہیں ہوا۔ غور طلب
بات یہ ہے کہ اللہ نے یہ ہر گز نہیں فرمایا کہ ''میں دیکھا نہیں جا سکتا'
بلکہ یہ فرمایا کہ ''تم مجھے (براہِ راست ) ہرگز نہ دیکھ سکو گے۔'' اللہ نے
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایسا اس لیے فرمایا کہ اللہ اپنا جلوہ اپنے
محبوب ترین نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ، اور ان کے وسیلے سے ان کی امت
کی خاطر، محفوظ رکھنا چاہتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء نے حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا امتی ہونے کی خواہش کی۔
تفسیرضیاء القرآن میں پیر کرم شاہ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
''جہاں تک امکانِ رویت کا تعلق ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ۔ سب تسلیم
کرتے ہیں کہ اس دنیا میں بیداری کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن
ہے۔اگرناممکن ہوتا تو موسیٰ علیہ السلام اس کا سوال نہ کرتے۔کیونکہ انبیاء
کرام کو اسکا علم ہوتا ہے کہ فلاں چیز ممکن ہے اور فلاں چیز ناممکن اور منع
ہے ۔جو چیز ناممکن اور منع ہو اس کے بارے میں سوال درست ہی نہیں ہوتا۔ ''
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود چاہتا ہے کہ اسے دیکھا اور پہچانا جائے اسی
لیے اس نے فرمایا کہ''میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ مجھے
پہچانا جائے اسی لیے میں نے مخلوق کو تخلیق کیا۔'' اور پہچان صرف دیدار کے
بعد ہی ممکن ہے۔ کئی احادیث اور اولیاء کرام کے اقوال بھی دیدارِ الٰہی کے
ذریعے اللہ کی پہچان اور معرفت حاصل کرنے پر دلالت کرتے ہیں۔
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا قریب ہے وہ وقت جب تم اپنے
پروردگار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔'' (مشکوٰۃ)
ایک اور روایت میں ہے کہ
''ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چودھویں کے چاند کو دیکھ کر فرمایا جس طرح تم
چودھویں کے چاند کو دیکھ رہے ہو اسی طرح تم پروردگار کو دیکھو گے اور خدا
تعالیٰ کو دیکھنے میں تم کوئی اذیت اور تکلیف محسوس نہیں کرو گے۔ ''(الفتح
الربانی)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا
''میرے دل نے اپنے رب کو نورِ ربی کے واسطہ سے دیکھا۔' ' (سِرّالاسرار)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان ہے
''میں اپنے رب کی اس وقت تک عبادت نہیں کرتا جب تک کہ اُسے دیکھ نہ لوں۔''
غرضیکہ اللہ کے دیدار کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت حاصل کرنا
اس کی محبت کا اولین تقاضا اور تمام عبادات کی جان ہے۔ دینِ اسلام کی بنیاد
توحید یعنی کلمہ طیبہ ‘‘ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ‘‘ کی زبانی
تصدیق تو بہت آسان ہے لیکن یہ بنیاد اس وقت تک ادھوری ہے جب تک قلب اس کی
تصدیق نہ کرے اور قلب کسی بات پر یقین تب تک نہیں کرتا جب تک مشاہدے کے
ذریعے اسے اچھی طرح جانچ اور پرکھ نہ لے۔ چنانچہ قلبی تصدیق تبھی ممکن ہے
جب اللہ تعالیٰ کو جان کر پہچان کر پورے یقین کے ساتھ واحد مانا جائے۔ اسی
طرح نماز مومن کی معراج تبھی بنتی ہے جب معرفتِ الٰہی حاصل کرنے کے بعد
نماز یوں ادا کی جائے گویا اللہ کو دیکھ کر ادا کی جارہی ہے۔
حضرت غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ الفتح الربانی میں واضح طور پر
فرماتے ہیں ''ہمارا پروردگار موجود ہے اور دیکھا جا سکتا ہے۔''
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو جسم اور مکان سے پاک ہے اسے
دیکھنا کیسے ممکن ہے؟ حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس کا جواب
نہایت آسان الفاظ میں دیتے ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں:
''صاحبِ یقین و معرفت مسلمان کے لیے دو ظاہری اور دو باطنی آنکھیں ہیں۔ پس
وہ ظاہری آنکھوں سے زمین پر بسنے والی مخلوق کو دیکھتا ہے اور باطنی آنکھوں
سے(روحانی ترقی کے بعد) آسمان پر بسنے والی مخلوق کو دیکھتا ہے۔ اس کے بعد
اس کے دل سے تمام پردے اٹھا دیئے جاتے ہیں پس وہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس
کو بلاشبہ و بلاکیف دیکھتا ہے۔ پس وہ مقرب و محبوبِ خدا بن جاتا ہے۔''
(الفتح الربانی)
یہ حقیقت ہر باشعور انسان پر عیاں ہے کہ انسان کا ایک ظاہری جسم ہے جو
دیکھا جاسکتا ہے اور ایک باطن ہے جسے روح' دل یا قلب' اندر کا انسان یا
ضمیر کہا جاتا ہے اور جو عام لوگوں سے چھپا ہوا ہے۔ یہ باطنی انسان ہی اصل
انسان ہے۔ ظاہری جسم صرف اس باطنی انسان کے لیے اس دنیا میں لباس کا کام
دیتا ہے۔ یہ جسم اسی دنیا میں تخلیق ہوتا ہے اور باطنی انسان یا روح کے
اپنے اصل وطن واپسی کے وقت اسی دنیا میں رہ جاتا ہے۔ وہ انسان جو اللہ کی
طرف سے آیا اور جسے واپس لوٹ کر اللہ کے ہاں جوابدہ ہونا ہے' باطن کا حقیقی
انسان ہے اِنَّا للہ وانا الیہ راجعون (بے شک ہم اللہ کی طرف سے ہیں اور
اللہ کی طرف ہی ہمیں لوٹ کر جانا ہے)۔ اللہ کا دیدار کرنا' اللہ کی معرفت
اور پہچان حاصل کرنا اس باطنی انسان یا روح کا کام ہے کیونکہ اس کا تعلق
اللہ سے ہے ۔جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ آدمؑ اور اولادِ آدم میں
پھونکی گئی روح کے متعلق فرماتا ہے :
ترجمہ:'' اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی'' (سورہ حجر۔۲۹)
یہی روح اللہ کا قرب و دیدار حاصل کرنے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔
اللہ کا دیدار بھی ظاہری آنکھوں نے بصارت سے نہیں بلکہ روح نے نورِ بصیرت
سے کرنا ہے۔ جن کی روح نور بصیرت حاصل کر کے اللہ کا دیدار نہیں کرتی ان کے
بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: پس یہ (ظاہری) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہیں جو سینوں
میں ہیں۔ ( سورت الحج ۔ ٤٦)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ اسمِ اللہ
ذات کے نور سے دیدارِ الٰہی کے متعلق فرماتے ہیں:
جس طرح اس دنیا میں کسی چیز کو دیکھنے کیلئے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک
آنکھ (نورِ بصارت) دوسری روشنی (سورج یا مصنوعی روشنی) اگر ایک چیز کی بھی
کمی ہو تو کچھ دیکھا نہیں جا سکتا اس طرح باطن میں دیکھنے کے لئے بھی دو
چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک باطنی یا قلبی آنکھ (نورِبصیرت) اور دوسرا اسمِ
اللہ ذات کانور-اور اللہ تعالیٰ کو اسمِ اللہ ذات کے نور ہی سے دیکھا
جاسکتا ہے اسی لئے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر72میں اسی باطنی اندھے پن
کا ذکر ہے فرمانِ الٰہی ہے:''جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی
اندھا ہی رہے گا'' یعنی جو یہاں دیدار یا نورِ بصیرت سے محروم ہے وہ آخرت
میں بھی دیدار یا نورِ بصیرت سے محروم رہے گا۔(شمس الفقرا))۔
تحریر : خادم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس |
|