ماہ نزول فرقان کا تقدس
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
نوائے وقت میں میری تحریر ماہ
رمضان المبارک کے تقدس کے حوالے سے شائع ہوئی۔ جسے پڑھ کر قارئین کی ایک
خاصی تعداد نے مجھے فون کیئے اور تحریر کو امر با لمعروف اور نہی عن المنکر
کے لحاظ سے سراہا اور کہا کہ فحاشی کے سیلاب کو رمضان المبارک کے تقدس سے
دور رکھا جائے۔اکثر قارئین نے فون کیئے کہ اس بارے مزید لکھوں ۔ اﷲ تعالیٰ
نے قرآن ِ کریم کی سورۃ بقرۃ میں روزے ہمیں متقی بنانے کے لیئے فرض فرمائے
۔ اس میں شبہ نہیں کہ میڈیا قوم کی اخلاقی قدروں کو تباہ کررہا ہے۔ ملک میں
بڑے علمائے دین، اہل علم اور دانشور موجود ہیں۔لیکن میں یہی کہوں گا کہ وہ
لاتعلق کیوں ہیں؟ ہنوز دلی دور است ہے یا وہ بھی ہوا کے رخ پر چلنے کا
فیصلہ کرچکے ہیں۔ بڑے بڑے دینی مدارس والوں نے کیا پڑھایا؟ اگر فارغ
التحصیل مفتی اور سکالرگانے بجانے والوں یعنی فنکاروں اور شو بز میں کام
کرنے والوں کا روپ دھار کر جشن رمضان کے مقدس نام پر سجائی گئی فحاشی کی
محافل میں شرکت کرکے قرآن و سنت کی تعلیمات کا مذاق اڑانے والوں میں شامل
ہوں تو پھر خر عیسیٰ بمکہ رفت والی بات ہے کہ گدھے پر کتابیں لاددینے سے وہ
عالم نہیں بن جاتا۔ یہود کا وطیرہ تھا کہ دین کے نام پر لہوولعب کی محفلیں
سجایا کرتے تھے۔ کراچی کے ایک بہت بڑے دینی مدرسہ کے سربراہ (جو اب اس دنیا
میں نہیں)نے ایک ملازم پیشہ علم دین کے طلبگارکو کہا کہ میاں تم اچھی بھلی
نوکری کرتے ہویہاں تو یتیم اور غریب بچے علم دین حاصل کرنے آتے ہیں۔ جب یہ
لوگ فارغ التحصیل ہوجاتے ہیں یا درمیان میں ہی کوئی اچھی کمائی والی مسجد
مل جاتی ہے۔ تو یہ لوگ بھی حصول دولت کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔ اگر کوئی خوش
الحان ہوتو وہ نعت خوانی کے ذریعہ پیسہ کماتاہے۔ پھر وہ فنکاروں کے لباس
میں ملبوس ہوجاتا ہے۔ بتدریج منازل طے کرتا ہوا مولوی، عالم، علامہ، پیر
طریقت اور خدا جانے کیا کچھ بنتا ہے۔ تصویر کشی شرعا حرام ہے۔ دور جدید کے
تقاضوں کے تحت کچھ صورتوں میں علماء حق نے استثنیٰ دیا ہے۔ لیکن آج شریعت و
طریقت کے علمبرداروں کی بڑی بڑی تصاویرکے اشتہارات انکے تقویٰ کے اصل روپ
کو عوام تک پہنچا رہے ہیں۔ ان اشتہارات پر قرآنی آیات، روضہ رسول مقبول ﷺ
کا عکس مبارک ، بیت اﷲ شریف کا عکس مبارک بھی چھپا ہوتا ہے۔ یہ اشتہارات
دیواروں پر چسپاں کرائے جاتے ہیں اور پھر گندی نالیوں میں بھی یہ پائے جاتے
ہیں۔ ان لوگوں میں خدا کا خوف نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ انہیں بے ادبیوں اور
گستاخیوں کے نتیجہ میں ہم مصیبتوں سے دوچار ہیں۔کون ان کو بند کرے گا؟ اب
یہ ماہ مقدس گناہوں کی معافی ، مغفرت اور جہنم کی آگ سے آزادی کا مہینہ ہے۔
لیکن جو کچھ اس ماہ کے حوالے سے اس ملک میں ہورہاہے اس کانتیجہ یہی ہے کہ
نارجہنم کی تپش اتنی قریب آگئی کہ پہلے کبھی نہ آئی تھی۔ پانی سے زندگی ہے
، وہ بھی نایاب، ہزار جتنوں کے باوجود بجلی سے محرومی۔ جب اس ماہ مبارک کا
تقدس پامال کرنے والوں میں علماء، مفتی، پیر اور مذہبی سکالر شامل ہونگے تو
اﷲ کا قہر بڑھ چڑھ کر آئے گا۔ ان ملاؤں نے دین کو کھیل تماشا بنا لیا ہے۔
غیرمحرم عورتوں کے جم گھٹوں میں راجہ اندر بن کر بیٹھے دین اور حیا سے عاری
عورتوں کو دینی مسائل اور فضائل رمضان سکھا رہے ہوتے ہیں۔ شرم سے ڈوب مریں۔
اگر ٹی وی چینلوں پر جانا ہے تو انہیں کہدیں کہ ماحول کو رمضان المبارک کے
تقدس کے لائق بنائیں۔ شو بز اور اشتہارات میں کام کرنے والی نیم برہنہ
عورتیں ان مولویوں کو پسند ہیں تو داڑھیاں منڈا کر، پگڑیاں کے لاچے بناکر
آئیں تاکہ من تو شدم تو من شدی ہوجائے۔ اب میں کہوں گا کہ اس ملک میں کوئی
حکومت نام کی چیز بھی ہے، اگر ہے تو پاکستان کی نظریاتی حدود کی حفاظت کرے
اور فوری طور پر رمضان المبارک کی ٹرانسمشن خرافات سے پاک کریں۔ پیمرا اس
صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے رمضان المبارک کے تقدس کو بحال کرے ۔) |
|