روزے کی حقیقت

حضرتِ سَیِّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ تعالیٰ علہا فرماتے ہیں: روزے کی حققتے ''رُکنا''ہے اور رُکے رہنے کی بَہُت سی شَرائِط ہیں مَثَلاً مِعْدے کو کھانے پینے سے رَوکے رکھنا،آنکھ کو شَہوانی نظر سے روکے رکھنا، کان کو غِیبت سُننے ، زَبان کو فُضُول اور فِتنہ انگزء باتیںکرنے اور جسم کو حُکْمِ الہٰی کی مخالَفَت سے روکے رکھناروزہ ہے۔ جب بندہ اِن تمام شرائِط کو پورا کریگاتَب وہ حَقیقتاً روزہ دار ہو گا(کَشْفُ الْمَحْجُوب ص(354
افسوس صَدکروڑافسوس!ہمارے بھائی روزہ کے آداب کا بِالکل ہی لِحاظ نہیں کرتے وہ صِرف بُھوکے پیاِسے رَہنے ہی کو بَہُت بڑی بَہادُری تصوُّر کرتے ہیں ۔روزہ رکھ کر بے شُمار ایسے اَفْعال کر گُزرتے ہیںت جو خِلافِ شَرع ہوتے ہیں۔اِس طرح فِقہی اِعتِبار سے روزہ ہو تَو جائے گالیکن ایسا روزہ رکھنے سے روحانی کیف وسُرور حاصِل نہ ہوسکے گا۔۔
محترم قارئین! خُدا را اپنے حالِ زار پر تَرس کھایئے اور غور فرمایئے! کہ روزہ دار ماہِ رَمَضانُ المُبارَک میں دن کے وَقت کھانا پینا چھوڑدیتا ہے حالانکہ یہ کھانا پینا اِس سے پہلے دِنوں میںبھی بِالکل جائِز تھا۔پھر خُود ہی سوچ لیجئے کہ جو چیزیں رَمَضان شریف سے پہلے حَلال تھیں وہ بھی جب اِس مُبارَک مہینے کے مُقَدَّس دِنوں میں مَنْع کردی گئیں ۔تو جو چیزیں رَمَضانُ الْمُبارَک سے پہلے بھی حرام تھیں مَثَلاً جُھوٹ ،غِیبت ،چغلی ، بد گمانی ، گالم گلوچ ،فلمیںر ڈِرامے، گانے باجے، بد نگاہی، داڑھی مُنڈانا یا ایک مُٹّھی سے گھٹانا، والِدین کو ستانا، بِلا اجازتِ شَرعی لوگوں کا دل دُکھانا وغیرہ وہ رَمَضانُ المبارَک میں کیوں نہ اور بھی زیادہ حرام ہوجائیں گی؟ روزہ دار جب رَمَضانُ المبارَک میںِ حلال وطیِّب کھانا پینا چھوڑدیتا ہے،حرام کام کیوںنہ چھوڑے ؟ اب فرمائیے ! جو شخص پاک اور حلال کھانا ،پینا تَو چھوڑ دیے لیکنِ حرام اور جہنَّم میں لے جانے والے کام بدستُور جاری رکھے۔ وہ کس قسم کا روزہ دار ہے؟
یادرکھیئے ؛سرورِ ذیشان، صلَّی اللہ تعالیٰ علہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے،''جو بُری بات کہنا اور اُ س پر عَمَل کرنا نہ چھوڑے تَو اُس کے بُھوکا پیاسا رہنے کی اللہ عَزّوَجَل کو کچھ حاجت نہیں۔ ' '
(صحیح بُخار ی ج1ص228حدیث(1903
ایک اور مقام پر فرمایا،''صِرف کھانے اور پینے سے باز رہنے کا نام روزہ نہیں بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ لَغو اور بے ہُودہ باتوں سے بچاجائے ۔'' (مُسْتَدْرَک لِلْحَاکِم ج2ص67حدیث(1611
مطلب یہ کہ روزہ دار کو چاہیے کہ وہ روزے میں جہاں کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے ، وہاں جُھوٹ ،غیبت، چغلی،بد گمانی ، الزام تراشی اور بد زَبانی وغیرہ گُناہ بھی چھوڑ دے ۔ ایک مَقام پر حُضُور سَراپا نُورصلی اللہ تعالیٰ علہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم سے اگر کوئی لڑائی کرے،گالی دے تَو تم اُس سے کہدو کہ میں روزہ سے ہوں۔ (الترغیب والترہیب ج1ص(87
پیارو؛ آجکل تَو مُعامَلہ ہی اُلٹا ہو گیاہے اگر کوئی کسی سے لڑ بھی پڑتا ہے تو گَرَج کر یُوں گویا ہوتا ہے،''چُپ ہوجا! ورنہ یاد رکھنا میںو روزے سے ہوں اورروزہ تجھ ہی سے کھولوں گا۔''یعنی تجھے کھاجاؤں گا۔(مَعاذاللہ ) توبہ ! تَوبہ!اِس قِسم کی بات ہر گز زَبان سے نہ نکلنی چاہیئے بلکہ عاجِزی کا مُظاہَرہ کرنا چاہیئے۔اِن تمام آفَتوں سے ہم صِر ف اُسی صُورت مں! بچ سکتے ہیں کہ اپنے اَعضاء کو روزے کا پابند کرنے کی کوشِش کریں۔
جِسم کے تمام حِصّوں کو گُناہوں سے بچانا''یہ صِرف روزہ ہی کے لیے مخصوص نہیں بلکہ پُوری زندگی اِن اَعضاء کو گُناہوں سے بچانا ضَروری ہے اور یہ جَبھی ممکِن ہے کہ ہمارے دِلوں میں خوفِ خُدا عَزَّوَجَلَّ راسِخ ہوجائے۔آہ! قِیامت کے اُس ہَوشرُبا منظر کو یاد کیجئے جب ہر طرف ''نَفسی نَفسی '' کا عالَم ہوگا۔سُورج آگ برسا رہا ہو گا۔ زَبانَے شِدَّتِ پیاس کے سبب مُنہ سے باہَر نِکل پڑی ہوں گی۔بیوی شَوہر سے ،ماں اپنے لَخْتِ جِگر سے اور باپ اپنے نورِ نظرسے نَظربچا رہا ہوگا۔ مُجرِموں کو پکڑ پکڑ کر لایا جارہا ہوگا۔اُن کے مُنہ پر مُہر ماردی جائے گی اور اُن کے اَعضاء اُن کے گُناہوں کی داستان سُنارہے ہوں گے جِس کا قُرآن پاک کی ''سُورہ یٰسۤ ''میں یوں تَذکِرہے کہ
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤی اَفْوَاہِھِمْ وَ تُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْھِمْ وَ تَشْہَدُ اَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ
ترجَمہ :آج ہم اِن کے مُونہوں پر مُہر کردینگے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کیئے کی گواہی دیں گے۔آہ !اے کمزور ونَاتواںمسلمانوںقِیامت کے اُس کڑے وَقت سے اپنے دِل کو ڈرایئے اور ہر وَقت اپنے تمام اَعضائے بَدَن کو مَعصِیَت کی مُصیبَت سے باز رکھنے کی کوشِش فرمایئے۔ اب اَعضاء کے روزے کی تفصیلات پیش کی جاتی ہیں
روزہ اَعضاء
آنکھ کا روزہ
محترم! آنکھ کا روزہ اِس طرح رکھنا چاہئیے کہ آنکھ جب بھی اُٹھے تَو صِرف اورصِرف جائِز اُمُور ہی کی طرف اُٹھے۔آنکھ سے مسجِد دیکھئے، قُرآنِ مجِید دیکھئے، مزاراتِ اَولیاء رَحِمَہُمُ اللہُ تعالٰی کی زیارت کیجئے ،عُلَمائے کرام،مشائخِ عِظام اور اللہ تبارَکَ وَ تَعالٰی کے نیک بندوں کا دیدار کیجئے ،اللہ پاک َدِکھائے تَو کعبہ مُعَظَّمہ کے اَنوار دیکھئے ، مکّہ مُکرّمہ زادَھَااللہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً کی گلیوں اور وہاں کے وادی و کُہسار دیکھائے،مدینہ منوَّرہ زادَھَااللہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْما کے دَرودیوار دیکھئے، سَبز سَبز گُنْبدومِینار دیکھئے مدینے کے صَحرا و گلزار دیکھئے ، سُنہَری جالیوں کے اَنوار دیکھئے ، جنَّت کی کِیاری کی بہار دیکھئے۔۔اللہ عَزّوَجَلّ َکی عطا کردہ آنکھوں سے ہرگز ہرگز فِلم نہ دیکھئے ،ڈِرامے نہ دیکھئے ،نامَحرم عورتوں کو نہ دیکھئے، شَہوَت کے ساتھ اَمردوں کو نہ دیکھئے ،کِسی کا کُھلا ہوا سِتْر نہ دیکھئے ، بلکہ بِلا ضَرورت اپنا کُھلا ہوا سِتربھی نہ دیکھئے ،اللہ عَزّوَجَلَّ کی یاد سے غافِل کرنے والے کھیل تماشے مَثَلاً ریچھ اور بند ر کا ناچ وغیرہ نہ دیکھئے ( ان کو نچانا اور ناچ دیکھنا دونوں ناجائز ہیں)
کان کا روزہ
کانوں کا روزہ یہ ہے کہ صِرف اور صِرف جائِز باتیںت سنیں۔ مَثَلاً کانوں سے تِلاوت ونَعْت اچّھی بات ،اَذان واِقامت ،سُن کر جواب دیجئے،ہرگز ہرگزڈَھول،باجے اور مُوسیقی ، گانے اور نغمے اورفُضُول یافُحش لطیفے، ،کسی کی غِیبت ،کسی کی چُغلی،کسی کے عَیب ہر گز ہرگز نہ سُنیئے اور جب دو آدمی چُھپ کر بات کریں تو کان لگا کر نہ سُنیئے۔فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علہَ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو شخص کسی قوم کی باتیں کان لگا کر سنے اور وہ اِس بات کو ناپسند کرتے ہوں تو قِیامت کے روز اس کے کانوں میںِ پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ ( المعجم الکبیر ج 11ص(189
زبان کا روزہ
زَبان کا روزہ یہ ہے کہ زَبان صِرف اور صِرف نیک وجائِز باتوں کے لیے ہی حَرَکت میں آئے ۔مَثَلاً زَبان سے تِلاوتِ قُرآن ،ذِکْر و دُرُود کا وِرد ۔ نَعت شریف اچھّی اچھّی دینداری والی باتیں کیجئے ۔فُضُولگفتگو سے بچتے رہیے۔ خَبردار! گالی گلوچ، جُھوٹ، غِیبت ، چُغلی وغیرہ سے زَبان ناپاک نہ ہونے پائے کہ ''چَمچہ اگر نَجاست میں ڈال دیا جائے تو دو ایک گلاس پانی سے پاک ہوجائے گا مگر زَبان بے حَیائی کی باتوں سے ناپاک ہوگئی تواِسے سات سَمُندر بھی نہیں دھوسکیںگے۔''
زبان کی بے احتیاطی کی تباہ کاریاں
شَہَنْشاہِ کون صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صَحابہ کرام علیھم الرضوان کوایک دِن روزہ رکھنے کا حُکم دیا اور ارشاد فرمایا:''جب تک میں تمہیں اِجازت نہ دوں ،تم میںٖ سے کوئی بھی اِفطار نہ کرے۔ '' لوگوں نے روزہ رکھا۔ جب شام ہوئی تو تمام صَحابہ کِرام علیھم الرضوان ایک ایک کرکے حاضِرِ خدمتِ بابَرَکت ہوکر عَرض کرتے رہے ، ''یَارَسولَ اللہَّ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میں روزے سے رہا ، اب مجھے اِجازت دیجئے تاکہ میںَ روزہ کھول دُوں۔'' آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلَّم اُسے اِجازت مَرحمت فرمادیتے ۔ایک صَحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حاضِر ہوکر عَرض کی ، آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !میر ے گھر والوں میںسے دونوجوان لڑکیاں بھی ہیںجِنہوں نے روزہ رکھا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمتِ بابَرَکت مں آنے سے شرماتی ہیںِ ۔ اُنہیںاجازت دیجئے تاکہ وہ بھی روزہ کھول لیں'' اللہ کے مَحبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُن سے رُخِ انور پھیرلیا،اُنہوں نے دوبارہ عَرض کی۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر چِہرہ انور پَھیرلیا۔ جب تیسری بار اُنہوں نے بات دُہرا ئی تَو غیب دان رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہَ واٰلہٖ وسلَّم نے (غَیب کی خبر دیتے ہوئے) ارشاد فرمایا: ''اُن لڑکیوں نے روزہ نہیں رکھا وہ تَو سارا دن لوگوں کا گوشت کھاتی ہیں !جاؤ ،ان دونوں کو حُکْم دو کہ وہ اگر روزہ دار ہیں تَو قَے کردیں۔ '' وہ صَحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن کے پاس تشریف لائے اور انہیںیہ فرمانِ شاہی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سُنایا۔اِن دونوں نے قَے کی ، تَو قَے سے خُون اور چِھیچھڑے نِکلے ۔ اُن صَحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علہو واٰلہٖ وسلَّم کی خِدمتِ بابَرَکت میں واپَس حاضِر ہو کر صُورتِحال عَرض کی ۔ مَدَنی آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہَ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' اُس ذات کی قَسم ! جس کے قَبضہ قُدرت میں مرمیری جان ہے،اگر یہ اُن کے پیٹوں میںّ باقی رہتا ، تَو اُن دونوں کوآگ کھاتی (الترغیب والترہیب ج3ص328حدیث(15
بَہَرحال روزہ ہویا نہ ہو، زَبان قابُو ہی میں رکھنی چاہئے ورنہ یہ ایسے گُل کِھلاتی ہے کہ تَوبہ ! اگر ان تین اُصُولُوں کو پشُِ نظر رکھ لیا جائے تواِن شاء َ اللہ َ بڑا نَفع ہوگا: (١) بُری بات کہنا ہر حال میں بُرا ہے (٢)فُضُول بات سے خاموشی اَفْضل ہے(٣)اچھّی بات کرنا خاموشی سے بِہتر ہے۔
ہاتھوں کا روزہ
ہاتھوں کا روزہ یہ ہے کہ جب بھی ہاتھ اُٹھیں، صِرف نیک کاموں کے لئے اُٹھیں۔مَثَلاً باطہارت قراٰنِ مجِید کو ہاتھ لگائےں،نیک لوگوں سے مُصافحہ کریں۔فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علہہ واٰلہٖ وسلَّم : اللہ پاکَ کی خاطر آپس میں مَحَبَّت رکھنے والے جب باہم ملیں) اور مُصافحہ کریں اور نبی( صلَّی اللہ تعالیٰ علہ واٰلہٖ وسلَّم ) پر دُرُود پاک بھیجیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے دونوں کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں (مسند ابی یعلی ج3ص95حدیث 2951)ہوسکے تَو کسی کے سر پر شَفقَت سے ہاتھ پھر دیں کہ ہاتھ کے نِیچے جِتنے بال آئیںگے ہر بال کے عِوَض ایک ایک نیکی مِلے گی۔
پاؤں کا روزہ
پاؤں کا روزہ یہ ہے کہ پاؤں اُٹھیں تَو صِرف نیک کاموں کے لیے اُٹھیں۔ مَثَلاً پاؤں چلیںتومساجد کی طرف عُلَماء و صُلحا کی زیارت کے لئے نیک صُحبتوں کی طرف ۔ہر گز ہرگز سینماِ گھر کی طرف نہ چلیں،ڈِرامہ گاہ ،بُرے دوستوں کی مجلِسوں ،شَطْرَنج ،لُڈّو ، تاش ، وِڈیوگیمزی ،وغیرہ کھیلنے یا دیکھنے کی طرف نہ چلیں ، کاش!پاؤں کبھی تَو ایسے بھی چلیں کہ بس مدینہ ہی مدینہ لَب پر ہواور سَفَر بھی مدینے کا ہو۔ ؎
قارئین؛ واقِعی حَقِیقی مَعنوں میں روزے کی بَرَکتیں تَو اُسی وَقت نصیب ہوں گی،جب ہم تمام اَعضاء کا بھی روزہ رکھیں گے۔ورنہ بھوک اور پا س کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو گا جیساکہ حضرت سیّدُِنا ابوہُریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَروی ہے کہ سرکارِ عالی وَقار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے ، ''بَہُت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ اُن کو ان کے روزے سے بُھوک اورپیاس کے سِوا کچھ حاصل نا ہو گا یعنی بَعض لوگ روزہ تَو رکھتے ہیںُ مگر اپنے اَعضاء کو چُونکہ بُرایؤ ں سے نہیں بچاتے اِس لئے اُن کو روزہ کی نُورانیت اوراُس کی اَصل رُوح سے مَحرُومی ہی رہتی ہے۔نِیز جو لوگ خواہ مخواہ رات جاگ کر گَپْ شَپ لگاتے ہیں۔انہیں وقت، صحّت اور آخِرت کے نقصان کے سوا کچھ ہا تھ نہیں آتا۔
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 350426 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.