عید میلاد سے متعلق چند سوالات کے جوابات-حصہ اوّل

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين
أما بعد فأعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمان الرحيم

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں چند اعتراضات کے جوابات

اعتراض: عیدیں تو اسلام میں صرف دو ہی ہیں ایک عید الفطر اور دوسری عید الاضحیٰ، یہ تیسری عید یعنی عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہاں سے آگئی؟

جواب: لغت میں عید ایسی چیز کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے، اور کیونکہ یہ دونوں مذہبی تہوار ہر سال آتے ہیں اس لیے ان کو عید کہتے ہیں، پھر مجازاً اسے خوشی کے موقع کے لیے بھی استعمال کرنے لگے۔

آئیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ کیا خوشی کے ان دو اَیام کے علاوہ کسی دوسرے دن کو عید کہنا جائز ہے یا نہیں؟
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو ضرور عید مناتے، فرمایا کون سی آیت؟ اس نے آیت ''اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ'' [المائدۃ:03] پڑھی آپ نے فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے مقامِ نُزول کو بھی پہچانتا ہوں وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا۔(صحيح بخاري، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه)

آپ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لئے وہ دن عید ہے ۔

ترمذی شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے آپ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں جمعہ و عرفہ ۔(سنن الترمذي، کتاب تفسيرآن، باب ومن سورة المائدة)

یوں عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ سال میں 53 عیدیں ہوئیں، 52 جمعہ اور 1یوم عرفہ، تو ان 53 عیدوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

جس دن نعمت حاصل ہو اس دن عید منانا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے، قرآن حکیم میں ہے: حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا، اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے (کھانوں کا) ایک دستر خوان نازل کر جو ہمارے پہلے اور پچھلے (سب کیلئے) عید بن جائے"۔ [سورۃ البقرۃ:91]

معلوم ہوا کہ نزول نعمت کے دن عید اور جشن منانے کی اصل قرآن مجید میں موجود ہے، اسی قرآنی اُصول کے تحت اللہ کریم کی سب سے بڑی نعمت اور رحمت حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کے دن عید منانا شرعاً جائز و مستحسن ہے۔

اعتراض: اس دن عید الفطر والاضحی کی طرح نماز کیوں نہیں پڑھتے؟

جواب: ہم اسے شرعی عید نہیں سمجھتے بلکہ عرفی عید کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ خوشی کے موقع کو عرفِ عام میں عید سے تعبیر کرتے ہیں جیسے آپ نے ابھی سنا کہ دین کی تکمیل کے دن کو حضرت سیدنا عمر اور حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عید کہا، یونہی حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام نے نزول نعمت کے دن کو عید فرمایا۔ مزید یہ کہ جب اللہ کا فضل ورحمت حاصل ہو اس دن خوشی منانے کا حکم خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن عظیم میں دیا:"قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُون، تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پہ چاہیے کہ خوشی کریں کہ وہ ان کے سب دَھن دولت سے بہتر ہے"۔ [سورۃ یونس:58]

اللہ اکبر! رحمت خداوندی پر خوشی منانے کا حکم خود قرآن حکیم دے رہا ہے اور کیا کوئی ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بڑھ کر بھی کوئی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے؟ دیکھئے قرآن مقدس صاف صاف لفظوں میں اعلان کر رہا ہے:"وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ، یعنی ہم نے آپ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا"۔ [سورۃ الانبیاء:107]

ان سب کے باوجود کیا پھر بھی ہم سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن عید نہ منائیں؟ آخر کیوں؟

جاری ہے-----
Hasnain Shoukat
About the Author: Hasnain Shoukat Read More Articles by Hasnain Shoukat: 12 Articles with 26421 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.