حضرت علی علیہ السلام کی ولادت
شہر مکہ کے اس تاریخ ساز عہد میں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک
حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت باسعادت تھی، مؤرخین نے لکھا ہے کہ
حضرت علی علیہ السلام کی پیدائش واقعہ عام الفیل کے 30 سال بعد ہوئی، خانہ
کعبہ میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی پیدائش و تولد آپ کے عظیم و
ممتاز فضائل میں سے ایک ہے۔ اس فضیلت کا نہ صرف شیعہ دانشوروں نے ذکر کیا
ہے بلکہ اہلسنّت کے محدثین و مؤرخین بھی اس کے معترف ہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دامن میں تربیت
حضرت علی علیہ السلام نے بچپن اور شیرخوارگی کا زمانہ اپنے مہربان اور
پاکدامن والدین حضرت ابوطالب اور حضرت فاطمہ بنت اسد کی آغوش اور اس گھر
میں بسر کیا جہاں نورِ رسالت اور آفتابِ نبوت تاباں تھا۔ حضرت ابو طالب کے
اس نونہال پر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شروع سے ہی خاص توجہ و
عنایت تھی، اسی لیے آپ نے حضرت علی علیہ اسلام کے ساتھ محبت و مہربانی کے
سلوک اور تربیت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔
رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسی پر ہی اکتفا نہ کی بلکہ جب حضرت
علی علیہ السلام نے اپنی عمر کی6 بہاریں دیکھ لیں، تو آپ انہیں اپنے گھر لے
آئے اور بذاتِ خود ان کی تربیت فرمانے لگے۔
حضرت علی علیہ السلام سے بے پناہ شغف کی وجہ سے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
انہیں اپنے سے ہرگز جدا نہیں کرتے تھے چنانچہ جب کبھی آپ عبادت کے لیے مکہ
سے باہر غارِ حراء میں تشریف لے جاتے تو حضرت علی علیہ السلام آپ کے ساتھ
ہوتے تھے۔
رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زیر سایہ حضرت علی علیہ السلام کی جو
تربیت ہوئی اس کی اہمیت و قدر و قیمت کے بارے میں خود حضرت علی علیہ السلام
فرماتے ہیں:
ولقد علمتم موضعی من رسول اللہ ابالقرابتہ القریبة والمنزلة الخصیصہ وضعنی
فی حجرہ وانا ولد یضمنی الی صدرہ و یکنفنی فی راشہ ویمسنی جسدہ و یشمنی
عرفہ وکان یمضغ النبی ثم یلقینی… ولقد کنت اتبعہ اتباع الفصیل اثر اہ برفع
کانی کل یوم اخلاقہ علما و یامرنی بالاقتداءبہ ۔
”یہ تو تم سب ہی جانتے ہو کہ رسول خدا کو مجھ سے کیسی قربت تھی اور آپ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نظروں میں میری کیا قدر و منزلت تھی، اس وقت جب میں
بچہ تھا آپ مجھے اپنی گود میں جگہ دیتے اور سینے سے لگاتے، مجھے اپنے بستر
پر اپنی جگہ لٹاتے، میں آپ سے بغل گیر ہوتا اور آپ کے جسم مبارک کی عطر
آگیں میرے مشام کو معطر کر دیتی۔ آپ نوالے چبا کر میرے منہ میں رکھتے، میں
پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر اس طرح چلتا جیسے شیرخوار
بچہ اپنی ماں کی پیروی کرتا ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہر روز اخلاق کا
پرچم میرے سامنے لہراتے اور حکم فرماتے کہ میں بھی آپ کی پیروی کروں۔“
معبود حقیقی سے انس و محبت
امین قریش نے اپنی زندگی کے تقریباً 40 سال، ان سختیوں اور محرومیوں کے
باوجود جو ہمیشہ دامنگیر رہیں، نہایت صداقت، شرافت، نجابت، کردار کی درستی
اور پاکدامنی کے ساتھ گزارے۔ آپ نے اس عرصے میں خدائے واحد کے علاوہ کسی کی
پرستش نہیں کی، عبادت اور معرفت خداوندی کو ہر چیز پر ترجیح دی۔ چنانچہ یہی
وجہ تھی کہ آپ ہر سال کچھ عرصہ جبل نور اور ”غارِ حراء“ میں تنہا رہ کر
عبادت خداوند میں گزارتے تھے۔
جناب امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
ولقد کان مجاور فی کل سنة بحراءفاراہ ولایراہ غیر
”رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہر سال کچھ عرصے کے لیے غار حراء میں قیام
فرماتے، اس وقت میں ہی انہیں دیکھتا میرے علاوہ انہیں کوئی نہیں دیکھتا
تھا۔“
پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اجداد سب ہی موحد تھے اور سب
ان آلودگیوں سے محفوظ تھے جن میں پوری قوم ڈوبی ہوئی تھی۔
اس بارے میں علامہ مجلسی فرماتے ہیں:
شیعہ امامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے
والدین، آباؤ اجداد مسلمان ہی نہیں بلکہ سب ہی صدیقین تھے۔ وہ یا تو نبی
مرسل تھے یا معصوم اوصیاء۔ ان میں سے بعض تقیہ کی وجہ سے یا مذہبی مصلحتوں
کی بناء پر اپنے دین اسلام کا اظہار نہیں کرتے تھے۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
لم ازل انقل من اصلاب الطاھرین الی ارحام التطھیرات
”میں مسلسل پاک مردوں کے صلب سے پاک عورتوں کے رحم میں منتقل ہوتا رہا۔“
۔۔۔۔جاری۔۔۔۔
آپ کی قیمتی آراء راقم کے لئے باعث عزت افزائی و رہنمائی ہو گی
|