عید میلاد سے متعلق چند سوالات کے جوابات-حصہ دوم

اعتراض: یہ تو عیسائیوں کی نقل ہے، جیسے وہ کرسمس مناتے ہیں ویسے ہی آپ لوگ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتے ہیں، اور حدیث پاک میں ہے:"مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ"، جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہیں میں سے ہے۔(سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب في لبس الشهرة)

جواب: پہلی بات یہ کہ عید میلاد کو کرسمس ڈے سے مشابہت دینا ہی درست نہیں کیونکہ مشابہت تو اس وقت ہوتی جبکہ ہم بھی کرسمس ڈے مناتے، دوم یہ کہ ہر مشابہت ناجائز بھی نہیں ہوا کرتی، آئیے یہاں میں آپ کو ایسی مثال پیش کرتا ہوں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو ایک فعل کرتے دیکھا اور فرمایا کہ ہمیں زیادہ حق حاصل ہے کہ ہم یہ کام کریں تو ناصرف خود وہ کام کیا بلکہ اسے کرنے کا بھی حکم دیا:

حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو یہودیوں کو عاشورا کا روزہ رکھتے پایا، تو فرمایا:"یہ روزہ کیسا؟" عرض کی:یہ بڑا عظیم دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دی، تو موسیٰ علیہ السلام نے بطور شکرانہ روزہ رکھا (تو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں)، ارشاد فرمایا: "موسیٰ علیہ السلام کی موافقت کرنے میں بہ نسبت تمہارے ہم زیادہ حق دار ہیں"، تو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور اس روزے کا حکم بھی دیا۔ (صحيح بخاري، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء)

اب کیا کہیں گے؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی مشابہت اختیار کی (معاذ اللہ)۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسا کام کرنے میں کوئی حرج نہیں جس سے قرآن وحدیث میں منع نہ کیا گیا ہو، اب قرآن و حدیث میں کہیں آپ عید میلاد کی ممانعت دیکھا دیں تو ہم اسے فوراً ترک کر دیں گے۔

اعتراض:عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کی دلیل کیا ہے جبکہ مروَّجہ طریقہ کار کے مطابق یہ کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اور نہ ہی صحابہ کرام علیہم الرضوان سے یہ ثابت ہے؟

جواب: عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا یقیناً ثواب ہے اور اس کے جواز کے لیےاتنا کافی ہے کہ قرآن و حدیث میں کہیں اس کام سے منع نہیں کیا گیا، اور احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ جو چیز منع نہ کی گئی اور وہ قرآن وحدیث کے مخالف بھی نہ ہو تو وہ جائز ہوا کرتی ہے، اور مسلّمہ قاعدہ ہے کہ "اَلأصلُ فِي الأشْيَاءِ إبَاحَة"،یعنی چیزوں میں اصل اباحت ہے، جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے، چنانچہ:

بزار نے حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:''اللہ تعالیٰ نے جسے اپنی کتاب میں حلال فرمایا وہ حلال ہے اور جسے حرام فرمایا وہ حرام ہے اور جس کے بارے میں سکوت فرمایا تو وہ معاف ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کی عافیت کو قبول کرو، بے شک اللہ عزوجل کی یہ شان نہیں کہ وہ کوئی چیز بھولے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:"وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا، یعنی تمہارا رب بھولنے والا نہیں"۔ [مریم:64] (بزار نے کہا: اس کی اسناد صالح ہیں اور حاکم نے اس کی تصحیح فرمائی) (مسند البزار، مسند أبي الدرداء رضي الله تعالیٰ عنه)

دار قطنی نے حضرت سیدنا ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض کو لازم کیا، تم لوگ ان کو ضائع نہ کرو اور کچھ حدود مقرر فرمائیں تو ان حدوں سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزیں حرام فرمائیں تو ان سے باز رہو اور کچھ چیزوں کے بارے میں سکوت (یعنی خاموشی) فرمایا، تم پر رحمت کرتے ہوئے بغیر نسیان (یعنی بھولنے) کے، تو ان کے بارے میں بحث نہ کرو۔ (سنن الدرقطني، کتاب الرضاع)

جاری ہے۔۔۔۔
Hasnain Shoukat
About the Author: Hasnain Shoukat Read More Articles by Hasnain Shoukat: 12 Articles with 26422 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.