بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پیش لفظ
ایک مرتبہ میں بعدِ نمازِ عصر مصلے پر بیٹھا حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی ؒ کی
شہرہ آفاق کتاب ’’حجتہ اﷲ البالغہ ‘‘کا مطالعہ کر رہا تھا کہ یک دم میرے
ذہن میں ایک خیال آیا…… میں جھَٹ سے اپنی کاپی لایا اور اس پر کچھ لکھ
ڈالا……
جس کسی نے بھی ’’حجتہ اﷲ البالغہ‘‘ کا مطالعہ کیا ہو گا اور اسے اچھی طرح
سمجھا ہو گا۔اس پر دین اسلام کے ایسے نایاب اورحیرت انگیز راز منکشف ہوئے
ہوں گے جو بندے کی روح و عقل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیں۔ مگر صاف سی بات ہے کہ
یہ کتاب پڑھنے میں کافی مشکل ہے۔اور اسے پڑھنے سے پہلے قاری کا دینی علوم
سے ایک گہری واقفیت کا ہونا ضروری ہے۔ خاص طور پر قرآن پاک کی مختلف تفاسیر
سے بہرہ مند ہونا شرطِ اول ہے۔
مگر سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے اردو بولنے والے مسلمانوں کو قرآن مجید سمجھ
کر پڑھنے سے بڑھ کر قصے کہانیوں میں ذیادہ دلچسپی ہے۔لہذا میں نے سوچا کہ
جو کچھ بھی علم اﷲ تعالی نے مجھے اس کتاب کے ذریعے عطا کیا ہے اسے کسی
کہانی ہی کی صورت میں فروغ دے دیا جائے۔تاکہ کسی نہ کسی طور پر عوام الناس
کو کچھ فائدہ حاصل ہو جائے۔سَو میں نے قلم اٹھالیا…… اوراب یہ ناول آپ کے
ہاتھ میں ہے۔
نیکی اور بدی کا جو معرکہ ازل سے برپا ہے وہ جانے انجانے ہم سب کی زندگی پر
پوری طرح اثر انداز ہے۔ذولفقار کی زندگی بھی اسی معرکے کی زد میں ہے۔ اس
ناول میں آج کے دور کے ایک عام سے لڑکے کی زندگی کے مختلف ادوار کا بیان
ہے۔ جو کہ اٹھارہ انیس سال سے شروع ہوتا ہے ……
اس کائنات میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو نظر تو نہیں آتیں مگر اپنا وجود
اور اثر رکھتی ہیں۔مثلاََ اﷲ کی ذاتِ پاک، نبی، رسول، ارواح، فرشتے، دعا،
دم درود وغیرہ نیک اثر رکھتے ہیں اور انسان کا نفس ، شیاطین جن و انس، نظرِ
بد، بد دعا، جادو وغیرہ کے برے اثرات ہیں۔اس بات سے کوئی ذکی النفس انکار
نہیں کر سکتا کہ آج کے دور میں برائی دنیا پر غالب آچکی ہے اور نیکی منہ
چھپاتی پھرتی ہے۔ہر سُو طاغوت کا راج ہے۔ شیطان اپنے کُل کے کُل ہتکھنڈے
استعمال کر چکاہے اور کر رہا ہے…… سیاسی نظام ہو یا میڈیا، تعلیمی ادارے ہو
یا دین کے نام نہاد ٹھیکیدار…… سب ہی دجالی قوّتوں کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں
بنے نظر آتے ہیں……
مگر انسان کی فلاح صرف اس میں ہے کہ وہ حزب اﷲ سے چپکا رہے اور حزب الشیطان
سے اﷲ کی پناہ مانگے۔اسی میں کامیابی ہے۔
’’جو لوگ اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں آپ انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ
اﷲ اور (اسکے)رسول کے مخالفین سے دوستی گانٹھیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں
میں اﷲ نے ایما ن کھونپ دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح سے( ان کی) مدد کی
ہے۔ اﷲ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گاجن میں نہریں بہہ رہی ہوں گے۔ یہ
ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔ اﷲ ان سے راضی ، وہ اﷲ سے۔ یہ ہے حزب اﷲ (اﷲ کی
جماعت) ، سن لو حزب اﷲ ہی فلاح پائے گی۔‘‘سورۃ المجادلہ آیت ۲۲
۔۔۔۔۔۔۔
ناول
’’مجھے chapter 6 کی exercise سمجھ نہیں آئی۔۔ ۔ا م م م م۔۔۔دراصل میں
absent تھی،آپ کے پاس ٹائم ہے تو مجھے سمجھا دیں!!!‘‘
سبا پیلے جوڑے میں ملبوس اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے بولی۔ ذولفقار نے
حیرانی سے اس کی بات سنی اور حامی بھر لی۔
’’او کے۔ بولیں‘‘ ۔ اس نے بڑے آہستہ سے کہا۔
سبا و ہیں ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی اور کتاب میں سے چیپٹر ۶ڈھونڈنے لگی۔
Examples for get and make sentences:
1. He got me to buy that shirt.
2. He made me buy that shirt.
’’مجھے یہ گیٹ اور میک کا سمجھ نہیں آ رہا۔‘‘ سبا نے کہا۔
’’گیٹ میں ہم کسی۔۔۔‘‘
’’ایسا کرتے ہیں باہر چلتے ہیں۔ یہاں تو ابھی دوسری کلاس شروع ہو جائے
گی۔‘‘ سبانے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’مگر باہر کہاں؟‘‘۔ ذولفقار چونک کر بولا۔
’’فرئر ہال؟‘‘ سبا نے ایسے فٹ سے کہا جیسے پہلے سے سب طے کر کے بیٹھی ہو۔
ذولفقار بغیر کچھ کہے اٹھا اور اس کے ساتھ کلاس سے باہر نکل پڑا۔
یہ دراصل ایک انگلش لینگوئج کلاس تھی اور یہ دونوں اس کورس کے لیول ۵ میں
تھے۔
’’حسن کو تو میں بھول ہی گیا!!‘‘ ذولفقارفوراََپلٹا ۔ حسن بہت ہی مایوس کن
شکل بنائے اسکے ذرا پیچھے کو کھڑا تھا۔
’’سوری حسن۔۔۔‘‘ وہ تھوڑا مسکرایا۔’’وہ۔۔۔ یہ سبا مجھ سے کچھ پوچھنا چاہ
رہی تھی۔‘‘
’’تو کہاں جا رہے ہو تم لوگ؟؟؟‘‘ حسن نے پھٹی پھٹی آنکھوں اور دبی سی آواز
میں پوچھا۔
’’میں ابھی ان کے ساتھ فرئر ہال جا رہا ہوں۔ تم بھی آ جاؤ۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے۔‘‘ حسن بھی تیار ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن نیاز نے کلاس شروع ہونے سے پہلے ہی ذولفقار سے پوچھ گچھ شروع کر
دی۔ ’’کل کیا معاملہ تھا بھئی؟؟؟ کیا کہہ رہی تھی سبا؟؟؟‘‘ نیاز نے چھچھورے
انداز میں پوچھا۔
’’ہی ہی ہی ……‘‘ ذولفقار ہنسا ۔’’بس یار وہ مجھ سے کچھ پوچھ رہی تھی۔۔۔‘‘
اس نے دوبارہ مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’پوچھنا ووچھنا اسے کچھ نہیں ہے۔ اس کی دوست لیول ۶ میں ہے…… اگر اسے کچھ
پوچھنا ہی ہوتا تو اس سے کیوں نہ پوچھتی؟‘‘۔
’’ تم اسے کسی ہوٹل ووٹل لے جاؤ چائے وائے پلاؤ……ہا ہاہا……‘‘ نیاز نے بڑے
تجربہ کارانہ انداز میں اسے مشورہ دیا۔
واقعی یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں……سبا کی دوست تو لیول۶ میں تھی اور وہ
دونوں ۵ میں …… ذولفقار دل ہی دل میں خوش ہوا ۔
’’اس کا مطلب ہے کہ وہ مجھ سے دوستی کرنا چاہتی ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
’’شکریہ‘‘۔
اگلے دن سبا نے مسکراتے ہوے ذولفقارکا شکریہ ادا کیا۔ وہ ہمیشہ کی طرح
خوبصورت لگ رہی تھی۔ اسکی کلاس کی تمام لڑکیوں میں یہی سب سے ماڈرن اور کم
عمر تھی۔ اور اب وہ اس سے دوستی کرنا چاہ رہی تھی……یہ بات ذولفقار کے لئے
کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔
’’کس بات کے لیے!!!‘‘ ذولفقار نے انجان بن کرشکریہ کا سبب پوچھا۔
’’ کل آپ نے مجھےexercise سمجھادی تھی نا……‘‘
’’اچھا!…… اوہ !……نہیں نہیں …… کوئی بات نہیں۔‘‘ اس نے بھی مسکراتے ہوئے
جواب دیا۔
وہ ذولفقار کے سا تھ والی کرسی پر ہی بیٹھ گئی۔ حسن ابھی تک نہیں آیا تھا۔
وہ اسی کا انتظار کر رہا تھا۔
’’گڈ آفٹر نون میڈم‘‘
۔ ’’گڈ آفٹر نون ‘‘۔
’’اسلام و علیکم میڈم‘‘۔ ذولفقار نے بھی میڈم کو ویلکم کیا۔
"How are you class?"
"How is everything?"
"You got this news about Musharaf and this emergency? I don't know what
will happen to his country"
میڈم نے کلاس شروع کر دی۔
ذولفقارکو ان سیاسی باتوں سے کچھ خاص دلچسپی نہ تھی۔ مگر کلاس میں کچھ گرما
گرم سی بحث چھڑ چکی گئی۔
’’میں تو فرئر ہال جا رہی ہوں۔ کل وہاں پڑھنے میں بڑا مزہ آیا۔‘‘ سبا نے
کلاس ختم ہوتے ہی اسے سگنل دیا۔
’’چلیں میں بھی چلتا ہوں‘‘۔ذولفقار فوراََتیار ہوگیا۔
حسن آج کلاس میں لیٹ آیا تھا۔اس سے دعا سلام ہوئی۔ ذولفقار کو اچھا نہیں لگ
رہا تھاکہ وہ حسن کو اس طرح چھوڑ کر سبا کے ساتھ فرئر ہال جا رہا ہے۔ حسن
نے یہ بھانپ لیا۔ اس کا چہرہ اتر سا گیا۔ پچھلے دو ڈھائی مہینے سے وہ دونوں
کلاس کے بعد گپ شپ لگانے فرئر ہال جا رہے تھے۔ اور اب وہ حسن کو اپنے ساتھ
نہیں رکھ سکتا تھااور اسے یہ بھی پتا تھا کہ سبا کو بھی حسن کا ساتھ ہونا
ناگوار گزرے گا۔
’’چلو یار میں تو سبا کے ساتھ جا رہا ہوں……‘‘ذولفقارنے حسن کو خدا حافظ
کہا۔
وہ جا تو سبا کے ساتھ رہا تھا مگر سوچ حسن کے بارے میں ہی رہا تھا۔ ’’میں
نے یہ اچھا نہیں کیا ……خیر…… یہی ہوتا ہے…… یہی کرنا پڑتا ہے……‘‘ وہ یہی
کچھ سوچ رہا تھا۔
سبا بھی اسے کسی سوچ میں غرق دیکھ کر زیادہ بات چیت نہیں کر رہی تھی۔
’’ہم کل سات بہنیں ہیں۔ میرے ابو دبئی میں رہتے ہیں۔‘‘ سبا نے بتایا۔ وہ
دونوں پارک میں لوگوں کی نظروں سے دور ایک گھنے سے درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔
’’اور بھائی……‘‘
’’نہیں …… کوئی بھائی نہیں ہے۔ میں تیسرے نمبر پر ہوں۔ باقی بہنیں پڑھ رہی
ہیں اور بڑی ایک بہن کی شادی ہو چکی ہے۔‘‘
’’اچھا!!! تم لوگوں کو تو بڑی مشکل ہوتی ہو گی؟‘‘ اس نے ذرا پریشان کن لہجے
میں پوچھا۔
’’بس ہم تو شروع سے ہی ایسے ہی رہتے ہیں۔ امی اور ہم لوگ ہی سب کام کرتے
ہیں۔ باہر کا بھی اور گھر کے بھی انتظامات……‘‘ صائمہ نے وضاحت کی۔
’’چائے دوں سر؟‘‘ فرئیر ہال کے باغ میں کام کرنے والے چاچا جی نے
پوچھا۔چاچا جی کو دیکھ کر ذولفقار تھوڑا شرمندہ سا ہو گیا۔روز وہ اسے، حسن
اورفہد کو چائے پلایا کرتے تھے اور آج وہ ایک لڑکی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ چائے
والے چاچا بھی کن انکھیوں سے سباکو بار بار دیکھ رہے تھے۔
’’جی چاچا دو کپ نکال دیں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ چاچاجی چائے نکالنے میں مگن ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’کیسے گھٹیا لوگ ہیں ہمارے رشتہ دار!!!۔‘‘
’’امی ! امی! یہ دیکھیں ۔۔۔ یہ دیکھیں کیا ملا ہے مجھے۔‘‘ ذولفقار چنگھاڑا۔
’’کیا ہے بیٹا؟‘‘ اسکی امی تیزی سے باہر گیلری میں آئیں۔
’’یہ دیکھیں یہ گملوں کی مٹی میں دفنایا تھا کسی نے۔‘‘ اس نے امی کو تعویز
دکھاتے ہوئے کہا۔
امی نے تعویز ہاتھ میں لیا اور ڈر ڈر کر اسے پڑھنے لگیں۔
’’میں ویسے ہی بیٹھا گملوں میں ہاتھ مار رہا تھا……کہ مل گیا مجھے……۔‘‘
’’ہائے اﷲ! منحوسوں نے کیا کیا کیا ہوا ہے۔۔۔‘‘ امی زور زور سے کہنے
لگیں۔’’استغفراﷲ‘‘
’’اے اﷲ ہمیں اپنی حفاظت میں رکھنا۔‘‘ امی نے ہاتھ اٹھا لئے۔ ’’پتہ نہیں
کیا کیا جادو ٹونے کر کے میری بچی کو پھنسایا ہوا ہے ان لوگوں نے۔۔۔‘‘ امی
بہت کچھ کہے جا رہی تھیں۔
’’اب کیا کریں اس کا؟؟؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’مجھے دے…… میں مولوی صاحب کو دکھاؤ گی۔‘‘
’’چھوڑیں اپنے مولوی صاحب کو۔۔۔’’
’’تو کیا کریں پھر؟‘‘ امی نے فورا کہا۔
’’کیا ہوا ؟ کیا ہوا؟ ‘‘ عائشہ اندر سے گیلری میں آئی۔’’ یہ دیکھ کیا ملا
ہے گھر سے۔۔۔‘‘ امی نے عائشہ کو تعویز دکھایا۔
’’یا اﷲ! کس نے کیا ہے یہ؟؟؟ توبہ استغفار…… ‘‘ ’’ہائے اﷲ ! امی! مجھے تو
ڈر لگ رہا ہے‘‘ ۔ ’’کیسے منحوس منحوس الفاظ لکھے ہیں اس پر……فوعون، ہامان،
قارون، نمرود سدرہ اور زبیر……‘‘
’’اﷲ لا الہ الا ھو ……‘‘ عائشہ نے آیت الکرسی کا ورد شروع کر دیا پھر
ذولفقار اور امی بھی شروع ہو گئے۔
’’اسے جلا دیں امی۔‘‘ ’’ اوپر چھت سے جلا دیں اور خاک نیچے پھینک دیں۔۔۔
ساتھ ساتھ آیت الکرسی وغیرہ پڑھتے رہیں۔‘‘ ذولفقار نے مشورہ دیا اور تعویز
لے کر سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔ امی اور عائشہ بھی پیچھے پیچھے آئے۔ تعویز کو
ہاتھ میں پکڑے کبھی کبھی کپکپی سی طاری ہونے لگتی۔ ’’رُکو! پہلے اچھی طرح
آیات وغیرہ پڑھ لو‘‘
’’عائشہ تم ماچس لے آؤ۔‘‘
’’میں نے ایک بار ٹی وی پر دیکھا تھا۔۔۔ کچھ لوگ جادو وغیرہ زائل کرنے کی
کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو ان پر غشی سی طاری ہو جاتی ہے۔‘‘ اس نے جلدی جلدی
یہ سب کہنا شروع کر دیا۔ ’’ نیشنل جیوگریفک پر ایک ڈاکومینٹری میں دیکھا
تھا میں نے……‘‘
’’اس لئے اچھی طرح اآیات پڑھو۔‘‘
امی تو ویسے ہی تلاوت میں لگی ہوئی تھیں، ذولفقار نے بھی دل لگا کر آیت
الکرسی، سورت الناس و الفلق پڑھنی شروع کر دیں۔
اتنے میں عائشہ ماچس لے آئی ۔ ذولفقار نے ماچس جلائی۔
’’یا اﷲ! رحم کرنا۔‘‘ عائشہ نے بہت ہی پریشان کن انداز میں اپنے سینے پر
ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
وہ سب تلاوت میں مگن تھے اور ماچس کی آگ نے تعویز کو چھوا۔ تعویز جلا…… اور
خاک ہو گیا۔
اس نے بڑے احتیاط سے خاک کو گھر سے باہر پھینک دیا۔
’’الحمدﷲ‘‘
’’شکر ہے اﷲ کا۔‘‘
’’اے اﷲ! رحم کرنا‘‘
’’استغفراﷲ‘‘۔ وہ تینوں کچھ اسی قسم کے جملے کہتے ایک دوسرے کی طرف دیکھے
جاتے تھے۔
چھت سے نیچے آ کر یہ سب تھوڑی دیر تو ایک دوسرے سے بحث کرتے رہے اور رشتہ
داروں کو لعن طعن کرتے رہے ، پھر ایک ایک کر کر اپنے کمروں میں سونے چلے
گئے۔
رات کے بارہ بج چکے تھے ،ذولفقار بھی اپنے بیڈ پر آپڑا ۔
اور ایزائیل دائیں اور سومائیل بستر کے بائیں جانب بیٹھ گئے۔ ’’لکھ لیا سب
کچھ ……؟‘‘،ایزائیل نے سومائیل سے پوچھا ، اسے بڑا افسوس ہو رہا تھا ساتھ
ساتھ تھوڑا اطمینان بھی ۔
’’ہاں لکھ لیا‘‘ ،سومائیل نے جواب دیا ۔
’’میں نے دیکھا تھا اسے جب وہ آیا تھا اور تعویذ گملوں میں گاڑھ گیا تھا
‘‘۔
’’اﷲ کی لعنت ہو ان لوگوں پر……جو شخص بھی ان چیزوں کا خریدار بنا اس کا
آخرت میں کچھ حصہ نہیں ‘‘،ایزائیل نے کہا ۔
’’یہ لوگ سمجھتے ہی نہیں ……انھیں یقین ہی نہیں……‘‘ سومائیل نے افسردہ انداز
میں کہا۔
ذولفقار بستر سے اٹھا اور کمرے سے باہر نکلا ، ’’چلو‘‘ سومائیل نے ایزائیل
سے کہا ، اوریہ دونوں اس کے ساتھ کمرے سے باہر آگئے۔واش روم سے فارغ ہو
کرذولفقار پھر اپنے بیڈ پر آگیا اور یہ دونوں بستر کی دونوں جانب بیٹھ گئے
۔ ذولفقار کی روح اس کے جسم سے نکل گئی۔ ذولفقار سو گیا۔
’’شاید یہ کل فجر کے لئے اٹھ جائے…… ‘‘
’’آخری بار فجر کی نماز اس نے رمضانوں میں پڑھی تھی ‘‘ ایزائیل نے سومائیل
کی بات کا جواب دیا ۔
سبحان اﷲ والحمدﷲ ولاالہ الااﷲ……وہ دونوں اپنی تسبیح میں مشغول ہو گئے۔
’’اﷲ اکبر اﷲ اکبر ، اشہد اﷲ الہ الااﷲ،۔۔۔‘‘
فجر کی نماز کے ساتھ ہی فدائل اور شمائل پر پھڑ پھڑاتے ہوے کمرے میں داخل
ہوئے۔
’’اسلام و علیکم و رحمت اﷲ‘‘
’’و علیکم اسلام و رحمت اﷲ و برکتہ‘‘
فدائل بولا ’’ جاؤ……تم دونوں نے احسن طریقے سے اپنا فرض ادا کیا۔پروردگار
عالم اپنے دربار میں تمہارا منتظر ہے۔ بے شک وہ سب کچھ جانتا ہے۔وہ بڑا
باریک بین ہے۔‘‘
’’جو کچھ بھی تم نے لکھ لیا ……وہ مٹنے والا نہیں…… الا کہ اﷲ چاہے۔ اور وہ
اپنے بندوں کے اعمال کی خبر رکھنے کو کافی ہے۔‘‘
یہ چار فرشتے ذولفقار کے ساتھ مقرر ہیں۔ کوئی با ت منہ سے نکالنے نہیں پاتا
کہ ایک کاتب ہر دم اسے لکھنے کو تیار رہتاہے۔ فدائل ان کی رہنمائی کرتا ہے
اور فدائل ہی ذولفقار کی ملاء اعلی میں نمائندگی کرتا ہے۔
عصر سے فجر تک ایزائل اور سومائل اورفجر سے عصرتک فدائل اور شمائل اس کام
پر مقرر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
حسن ایک اچھی کھاتی پیتی فیملی سے تھا۔ اس کے والد ایک بینک میں نوکری کرتے
تھے۔ آج کل اس پر نمازیں پڑھنے کا بھوت سوار تھا۔اس نے بھی کالج کے
امتحانات دے کر چھٹیوں میں انگلش لینگوئج کورس میں داخلہ لے لیا تھا۔
اس کی طبیعت کچھ ایسی ہی تھی۔ کبھی تو بہت دین داری اور کبھی فقط دنیاداری۔
وہ ذرا مختلف سی سوچ کا مالک تھا۔ ہر الٹی سیدھی اور عجیب چیز اسے دلچسپ
لگتی تھی۔ بہرحال نمازیں پڑھنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ صبح سویرے فجر
کو مسجد کو چل دیتا تھا۔ بلکہ اس وقت تو وہ گہری نیند میں ہوتا تھا۔ رات کو
کوئی نہ کوئی فلم جو دیکھی ہوتی تھی۔ مگر ہاں اس کے علاوہ باقی چاروں
نمازیں گھر میں اطمینان سے پڑھتا تھااور ظہر کے بعد تو مصلے سے اٹھتا ہی نہ
تھا۔ ایک آدھ کوئی چھوٹی موٹی وظیفوں کی کتاب لئے وظیفے پڑھتا رہتا تھا۔
’’ارے ماشاء اﷲ۔ یہ ذکر ایک بار پڑھنے سے فرشتے چالیس روز تک نیکیاں لکھتے
رہتے ہیں۔۔۔زبردست!!!‘‘ حسن نے ایک جملہ وظیفوں کی کتاب میں سے بڑبڑاتے
ہوئے کہا، تسبیح اٹھائی اور پوری تسبیح اس ذکر سے پڑھنی شروع کر دی۔
’’بیٹا آج کورس کے لئے نہیں جانا کیا؟‘‘ حسن کی امی نے اسے بتانا چاہا کہ
دیر ہو رہی ہے۔
آج پھر کلاس شروع ہو چکی تھی۔ حسن نے آتے ہی نوٹس کیا کہ ذولفقار اور سبا
ساتھ ساتھ بیٹھے ہیں۔
"This is a very interesting chapter."
میڈم نے کہا۔
DREAMS
The word "Dream" can be used in a veriety of ways. It can be used to
express some aims or objectives of an individual or it can be actually a
vision a person has while he is sleeping.
We are going to talk about the actual dreams.
A person can have sweet dreams, nightmares or even dreams that serve as
a signal to a person about his present or future condition. Dreams are
talked about in almost every culture as it is not attached to some
perticular religion, society or traditions.
A few famous dreams are that of Joseph's and Pharaoh's . These dreams
are believed as true dreams by millions of Jews, Christians and Muslims
around the world.
EXERCISE:
Narrate any interesting dream to your class and ask for its
interpretation from various students.
’’تو پھر کون آ رہا ہے اپنا خواب سنانے؟‘‘ میڈم نے کلاس سے پوچھا۔
سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر سوچنے لگ کے کہ کسی کو کوئی خواب یاد
آچائے۔
’’میں اکثر خواب میں ڈراؤنی چیزیں دیکھتا ہوں۔ مثلا لمبے لمبے قد کے آدمی
بالکل کالے سیاہ۔۔۔ ہمارے گھر میں گھوم رہے ہیں۔‘‘ذولفقار نے بولنا شروع
کیا۔
’’ ایک بار میں نے دیکھا کہ گھر کی گیلری کے ساتھ ایک عورت بیٹھی ہے اور
جیسے ہی میں وہاں سے گزرتا ہوں وہ میری ٹانگ پکڑ لیتی ہے۔‘‘
’’اسی طرح ایک بار میں نے ایک آدمی کو دیکھا۔ جو بڑا بدصورت سا تھا۔ پتلا،
سوکھا۔ گنجا اور اس کے جسم پر بس ایک دھوتی سی تھی۔ وہ ایک اندھیری سی جگہ
گیا اور وہاں پڑی کچھ اینٹوں پر کسی خاص طرح سے چھوٹی چھوٹی لکڑیوں کے ٹکڑے
رکھنے لگا۔‘‘ یہ کہہ کر ذولفقار مسکرایا مگر کلاس کے لوگ بالکل خاموش تھے۔
’’یہ تو بڑے برے برے خواب ہیں بھئی‘‘ ۔نیاز نے سب سے پہلا کمینٹ دیا۔
’’واقعی، یہ تو عجیب خواب ہیں‘‘ سبانے بھی کہا۔
’’تو اس کی تعبیر کیا ہے؟’’ میڈم نے پوچھا۔
’’میں نے ایک بار اخبار جہاں میں پڑھا تھا کہ اگر خواب میں ایسے لمبے لمبے
آدمی دکھائی دیں تو وہ جن ہوتے ہیں۔‘‘ حسن نے کہا۔
’’مے بی!!!‘‘ میڈم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"I think you should recite Quranic verses before going to sleep... It
protects..."
نیاز نے کہنا شروع کیا، ’’ مجھے ایک خواب یاد آ رہا ہے مگر وہ میں نے نہیں
بلکہ ایک صحابی ؓ نے دیکھا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضور ﷺ اپنے اصحاب
ؓکے ساتھ مدینہ ہجرت کر چکے تھے۔ مسلمان آزادی کے ساتھ اسلامی احکا مات پر
عمل کر رہے تھے۔ مدینہ میں دنیا کی سب سے پہلی اسلامی ریاست وجود میں آ چکی
تھی۔ ایک رات حضرت عبد اﷲ بن زیدؓنے اپنے خواب میں دیکھا کہ فرشتہ انہیں
آذان کے الفاظ سکھا رہا ہے ۔ دوسرے دن انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے اس خواب کا
ذکر کیا۔ آپ ﷺ بہت خوش ہوئے اور تب سے آذان کا وہی طریقہ عالم اسلام میں
رائج ہے جو حضرت عبد اﷲؓ نے خواب میں دیکھا تھا۔‘‘
’’ویری گڈ‘‘ میڈم نے تعریف میں کہنا شروع کیا۔ ’’ یعنی حضور ﷺ کے ہوتے ہوئے
اﷲ تعالی نے حضر ت عبد اﷲ بن زید ؓ کو آذان کا طریقہ سکھایا۔‘‘
’’میں نے ایک حدیث بھی پڑھی ہے کہ نبوت کا 46واں حصہ خواب ہیں۔‘‘ حسن نے
کہا۔
’’یعنی اگر اﷲ چاہے تو ہمارے بھی خواب کے زریعے رہنمائی کر سکتا ہے؟‘‘ ایک
لڑکے نے پوچھا۔
’’ہاں۔ اس کا یہی مطلب ہے۔‘‘ حسن نے جواب دیا۔
’’سباآپ کوئی خواب سنائیے۔‘‘ میڈم نے کہا۔
’’ایک بار میری امی نے خواب میں دیکھا کہ چاند ہے…… اور پھر وہ دو ٹکڑے ہو
جاتا ہے۔‘‘
’’امی کے چاند تو ان کے بیٹے ہی ہوتے ہیں۔‘‘ نیاز نے فورا کہہ دیا۔ مگر بعد
میں اسے خیال آیا کہ اس نے جلد بازی کی۔ کیونکہ سباکے خواب میں چاند دو
ٹکڑے ہو گیا تھا۔
’’۔۔۔تو سبا آپ کے کوئی بھائی ہیں؟‘‘
’’"no madam
’’ہی ہی ہی۔۔۔ تو پھر تو یہ تعبیر صحیح نہیںٖٖ‘‘
کلاس کے اختتام پر سبا ا ور ذولفقار فرئر ہال کی طرف نکل پڑے اور راستے میں
ہی سبانے بتایا کہ جب اس کی امی نے یہ خواب دیکھا تھا تو وہ امید سے تھیں
اور ان کا حمل ضائع ہو گیا تھا۔
ذولفقار یہ سن کر حیران رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
اگست کے شروعاتی دن تھے۔ موسم بڑا سہانہ ہو رہا تھا۔ ذولفقار بڑے اہتمام سے
تیار ہو کر سباسے ملنے فرئر ہال اآیا تھا۔ فرئر ہال کی پرانے انگریز دور کے
طرز پر بنی عمارت بہت دلربا لگ رہی تھی۔ انکا کورس ختم ہو چکا تھا مگر ملنا
جلنا اب تک چل رہا تھا۔ آخر ذولفقار ایک نوجوان لڑکا تھا ، اس عمر میں اسے
ایک خوبصورت لڑکی مل گئی تھی۔ اس کے علاوہ نہ کوئی فکر نہ فاقہ، کالج کے
بعد کی لمبی چھٹیاں……اسے اور کیا چائیے تھا۔ سونے پہ سہاگا، آج تو اس کے
پاس ایک خوشخبری بھی تھی۔
’’ ہو گیا میرا admission‘‘
اس نے سباکو دور سے دیکھتے ہی کہا۔
’’اچھا! چلو شکر ہے۔۔۔ چلو اب تم انجینیر بن جاؤ گے‘‘ سبا بھی چہک کر بولی۔
’ہاہاہاہا۔۔۔‘وہ تھوڑا ہنسا ۔
ذولفقار نے وہیں ایک کونے میں ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگائی اور سبابھی ا
سکے ساتھ کچھ اس طرح بیٹھ گئی کہ اس کا کاندھا ذولفقار کے کا ندھوں پر تھا۔
اسکے اندر ایک بجلی سی دوڑنے لگی۔ وہ آپس میں کوئی بات نہیں کر رہے تھے مگر
اپنے خیالوں میں بہت کچھ کر رہے تھے۔ وہ لگاتار سباکی گوری گردن کو دیکھ
رہا تھا۔ اس نے سباکے ہاتھوں کو کانپتا ہوا محسوس کیا۔
مغرب کی اذان ہو نے لگی مگروہ دونوں ہرچیز سے بے پرواہ ایک دوسرے کے نشے
میں چور تھے۔ اچانک سامنے سے انہیں ایک آدمی آتا دکھائی دیا،وہ ایک جھٹکے
سے ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔اس آدمی نے مشکوک نظروں سے انہیں دیکھا اور مڑ
مڑ کر دیکھتے ہوئے آگے چلا گیا۔
’’چلو کافی دیر ہو گئی ہے ……‘‘سبانے جھجکتے ہوئے آہستگی سے کہا۔
ذولفقار کچھ کہے بغیر اٹھا اور وہ دونوں ایک دوسرے سے نظریں ملائے بغیر بس
سٹاپ کی طرف چل پڑے۔نظر ملاتے بھی کیسے ……وہ جانتے تھے کہ وہ کس ڈگر جا رہے
تھے۔ جاتے جاتے سبانے بتایاکہ چار دن بعد اسکی سالگرہ ہے۔
’’کیا تحفہ دوں سبا کو؟؟؟‘ ‘ذولفقار واپسی پر بس میں بیٹھا سوچنے لگا۔
’’میرے پاس تو کچھ پیسے ہی نہیں ہیں‘‘۔لگے بندھے ہزار روپے ہر ماہ اسے ملا
کرتے تھے۔،اور مہینہ ختم ہونے کے ساتھ ہی یہ پیسے بھی پورے ختم ہوجاتے تھے۔
’’ایسا کروں گاکہ اسے ایک کارڈ دے دوں گا‘‘۔ پھر اس نے خود ہی سوچا کہ آج
کل کی لڑکیاں ایک کارڈ پر اکتفا کرنے والی نہیں۔
سبا کو کوئی اچھا تحفہ دیناتو اسکی استطاعت سے باہر تھا۔
"Happy birthday to you... Happy birthday to you..."
چار دن بعد وہ پھر ملے اور ملتے ہی ذولفقار نے سباکو سالگرہ کی مبارکباد
دی۔
’’یہ سونے کی ہے؟؟؟‘‘ سبا نے انگوٹھی اپنی انگلی میں پہن لی۔
’’ہاں!‘‘ اس نے مختصر ا کہا۔ مگر یہ وہ ہی جانتا تھا کہ یہ انگوٹھی اس نے
کیسے حاصل کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’ہیلو۔۔۔‘‘ حسن کی آواز آئی۔
’’ہیلو حسن ! کیسے ہو؟ میں ذولفقار بات کر رہا ہوں۔‘‘ حسن کی بھی چھٹیاں چل
رہی تھی لہذا ان دونوں کی صبح کچھ بارہ بجے ہوئی۔
’’کہاں غائب ہو بھئی؟؟؟ آپ تو باکل بھول ہی گئے ہمیں!!!‘‘ ذولفقار سمجھ گیا
کہ حسن کا اشارہ کس جانب ہے۔
’’بس یار! کچھ خاص نہیں۔۔۔ کیا کر رہے ہو آج تم؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’بس ادھر بھی کچھ خاص نہیں۔۔۔ ہی ہی ہی۔‘‘ حسن نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’چلو پھر آج ملتے ہیں۔۔۔‘‘
’’لنچ کے لئے تم میرے ہاں ہی آ جاؤ، ساتھ بیٹھ کر Mission Impossible 2
دیکھتے ہیں!‘‘ ذولفقار کو فلم میں تو کو ئی دلچسپی نا تھی مگر پھر بھی اس
نے حامی بھر لی۔
’’میں دو بجے تک تمھاری طرف پہنچتا ہوں۔‘‘
گھر سے نکلتے وقت ذولفقار کی امی نے اسے بجلی اور گیس کے بل پکڑا دئیے کہ
راستے میں یہ بھی بھرتا ہواچلاجائے۔
’’یار تمھارے گھر کی بریانی مجھے بہت پسند ہے۔ ۔۔‘‘
حسن نے کھانے میں بریانی بنوائی تھی، ساتھ میں رائتہ، سلاد، کولڈ ڈرنک
وغیرہ بھی تھی۔ اس نے کمپیوٹر پر فلم لگائی اور وہ فلم دیکھنے لگے۔ ذولفقار
کسی اور ہی مقصد سے حسن کے ہاں آیا تھا۔ آنکھیں کمپیوٹر پر گاڑھے اس کے
دماغ میں کچھ اور ہی چل رہا تھا۔
’’حسن! تھوڑے سے پیسے چائے تھے یار۔۔۔‘‘ذولفقار نے تھوڑی مسکین سی شکل بنا
کر صاف صاف حسن سے کہا۔
’’اچھا!‘‘
’’کیوں؟؟؟‘‘
’’کیا ہو گیا؟؟؟ خیر ہے؟؟؟‘‘ حسن نے یہ تین چار سوال پوچھنے ہی تھے، کیونکہ
آج تک ایسا نہیں ہوا تھا کہ ذلفقار نے حسن سے کبھی پیسے مانگے ہوں۔۔۔ وہ
اپنی لگی بندھی جیب خرچ میں ہی کسی نہ کسی طرح کام چلا لیتا تھا۔
’’ہاں یار۔۔۔ بس وہ تھوڑی ضرورت پڑ گئی تھی۔۔۔‘‘ ۔ ’’دو ہزار تک ہوں گے
تمھارے پاس؟‘‘ اس نے دو ہزار مانگ لئے کہ شاید ایک ہزار تک مل جائیں اور اس
کا کام بن جائے۔
’’نہیں یار! اتنے پیسے تو میرے پاس نہیں ہوتے۔‘‘ حسن نے فورا ہی منع کر
دیا، جیسے اتنے پیسے اس نے آج تک کبھی دیکھے ہی نہیں۔
’’میرے پاس تو بس دو تین سو تک ہی ہوں گے تمہیں دینے کے لئے……‘‘ حسن نے صاف
صاف کہہ دیا۔
ذولفقار خاموش رہا۔ تھوڑی دیر میں حسن اٹھا اور دو سو پچاس روپے کہیں سے لا
کر اس ہاتھ پر رکھ دئیے۔ اس نے غنیمت جان کر وہ پیسے لئے اور اپنی جیب میں
ڈال لئے۔
’’چلو تھینک یو۔ دیکھو باقی پیسے بھی ہو جائے گے۔‘‘ مگر دل میں اسے بڑی نا
امیدی ہوئی۔
گھر واپس پہنچتے ہی ذولفقار چلایا۔ ’’امی!!! امی!!! مجھ سے بل کے پیسے گم
ہو گئے ……‘‘
’’گم ہو گئے……‘‘ امی نے نہایت حیرت سے اسے گھورتے ہوئے زور سے پوچھا۔
’’پتہ نہیں کہاں چلے گئے……‘‘ ۔ ’’لگتا ہے کسی جیب کترے نے نکال لئے ہیں……‘‘
اس نے افسو سناک شکل بنا کر کہا۔
’’کہاں کھڑے تھے تم؟؟؟ اچھی طرح اپنی جیبوں میں دیکھا؟؟؟‘‘ امی اسکی جیبوں
میں ہاتھ مارنے لگیں۔
’’بس اسٹاپ پر کھڑا تھا اور وہاں سے حسن کے گھر چلا گیا……‘‘۔’’وہاں سے
واپسی پر بینک کے پاس پہنچ کر پتا چلا کہ پیسے اور بل دونوں غائب ہیں۔‘‘ اس
نے امی کو قصہ سنایا۔
’’او ہو……‘‘۔ ’’کہاں سے لاؤ ں اب میں اور پیسے……‘‘۔ ’’آئے ہائے…… بیٹھے
بٹھائے گھر کا نقصان ہو گیا‘‘۔ امی بہت افسوس کرنے لگیں۔
’’مجھے لگتا ہے کسی جیب کترے نے نکال لئے ہیں……‘‘ ذولفقار نے پھر بری سی
شکل بنا کر کہا۔
یکے بعد دیگرے وہ گھر کے باقی لوگوں کو یہ قصہ سنانے لگا۔
’’کتنے حالات خراب ہو گئے ہیں……‘‘ ۔’’ ابو کو کہیں ذولفقار کو ایک بائک ہی
دلا دیں……‘‘ عائشہ کو یقین ہو چکا تھا کہ اسکے بھائی کے ساتھ کوئی واردات
ہی ہوئی ہے۔
شام تک معاملہ ٹھنڈا ہو گیا۔ذولفقار گھر سے نکل کر قریبی شاپنگ مال چلا
گیا۔وہ شاپنگ مال کے باتھ روم گیا اور بڑے احتیاط سے اپنے انڈر وئیر میں
ہاتھ ڈال کر دو ہزار روپے نکالے اور جیب میں رکھ لئے۔ ذولفقار نے اسی شاپنگ
مال سے سباکے لئے ایک اچھی سی انگوٹھی خریدی اور رات تک ایک بار پھر حسن کے
گھر پہنچ گیا۔
’’خیریت ہے بھائی…… ہوا کیا ہے؟‘‘ حسن نے اسے دیکھتے ہی سیدھا سیدھا یہ
سوال کیا۔
’’یار…… بس ایک کام ہے……‘‘ ذولفقار نے بڑی پراسرار سی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے
کہا۔
’’یہ ذرا اپنے پاس رکھ لو…… میں دو دن بعد تم سے لے لوں گا۔‘‘اس نے حسن کو
چھوٹی سی ڈبیہ پکڑا دی۔
’’ کس کے لئے…… ہی ہی ہی‘‘۔ ’’ سبا کے لئے؟‘ حسن نے شوخی سے اسے چھیڑتے
ہوئے پوچھا۔ وہ بھی مسکرایا۔
’’اچھی انگوٹھی ہے‘‘۔ حسن نے پھر ایک شرارت بھری مسکراہٹ بکھیری۔
۔۔۔۔۔۔۔
ظہر کا وقت تھا۔ ذولفقار اپنے روم میں کسی سے انٹرنیٹ پر چیٹنگ کر رہا تھا۔
مگر وہ اکیلا نہیں تھا …… دو محافظ اس کے ساتھ تھے۔
’’ان انسانوں میں سے چند ہی ہیں جو سبق سیکھتے ہیں۔‘‘ شومائل نے فدائل سے
کہا۔
’’ جو بزرگ کتاب انہیں دی گئی ہے، وہ تو اس گھر میں مٹی میں اٹی ہے……‘‘
فدائل نے سچ کہا۔
’’اگر پاک فرشتوں اور نیک لوگوں کی دعائیں لوگوں کے شامل حال نہ ہوتی ……
اور رب العالمین لوگوں کو ان کے اعمال کی پاداش میں پکڑا کرتا…… تو دھرتی
پر کوئی جاندار زندہ نہ بچتا۔‘‘
اسی لمحے ذولفقار نے کمرے کا دروازہ لاک کیا اور انٹرنیٹ پر ایک فحش ویب
سائٹ کھول کر اس سے لطف اندوز ہونے لگا۔ فدائل اور شمائل اپنا فرض ادا کرنے
لگے۔ جو کچھ بھی ذولفقار کر رہا تھا وہ لکھتے جاتے تھے۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک……‘‘۔
’’ بیٹا کیا ر رہے ہو؟‘‘۔ ’’آؤ آ کر کھانا کھا لو۔‘‘ باہر سے امی کی آواز
آئی اور اس نے گھبرا کر کمپیوٹر بند کیا۔ ’’خالہ بھی آئی ہوئی ہیں۔‘‘
’’ایک منٹ امی…… کپڑے بدل رہا ہوں۔‘‘ ذولفقار نے فوراجھوٹ گھڑا۔
باہر خالہ ، امی،ابو اور سدرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ عائشہ کچن میں کام کر رہی
تھی۔
’’اسلام و علیکم سمینہ خالہ‘‘۔ اس نے انہیں دیکھتے ہی کہا۔
’’وعلیکم اسلام بیٹا! کیسے ہو؟‘‘ خالہ نے جھجھکتے ہوئے جواب دیا۔
یہ لوگ اپنے خاندان والوں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ انہیں کم ہی منہ لگاتے
تھے۔اس لئے انکے ہاں خالہ کا بھی کم ہی آنا ہوتا تھا۔ خالہ جب بھی کبھی
خیرخیریت پوچھنے انکے گھر آتیں ، چپ چاپ سی بیٹھ جاتی تھیں۔ وہ شاید
ذولفقار کے گھروالوں کے رہن سہن سے بے حد متاثر تھیں۔ اسی لئے چپ چاپ، سہمی
سہمی سی بیٹھ جاتی تھیں۔ ذیادہ تر رشتہ دار اسی طرح انکے ساتھ پیش آتے تھے۔
اور کیوں نہ آتے وہ ایک کھاتے پیتے، ترقی پسند، ماڈرن لوگ تھے۔ سب کے سب
اعلی تعلیم حاصل کر رہے تھے او ر انکے ابو بھی کے ای ایس سی میں اچھے عہدے
پر فائز تھے۔
’’اور سنائیں خالہ…… خالو کیسے ہیں۔‘‘ ذلفقار نے پوچھا۔
’’بس بیٹا ابھی آپ کی امی کو یہی بتا رہی تھی……‘‘
’’طبیعت خراب ہے بیٹا خالو کی کافی دنوں سے……‘‘ خالہ نے تھوڑا رک کر بتایا۔
’’اچھا!…… کیوں ؟ ؟؟ کیا ہوا۔‘‘
’’بیٹا! کہہ رہیں ہیں کینسر ہے‘‘۔ اس نے خالہ کی آنکھوں میں نمی محسوس کی۔
’’اچھا!!!…… او ہو!!! ……یہ کب ہوا؟؟؟‘‘۔ اس نے افسردہ سے لہجے میں حیرانی
سے پوچھا۔
’’پہلے تو پچھلے تین مہینے سے تھوڑا بہت بیمار رہتے تھے…… پھر بیچ میں ٹھیک
بھی ہو جاتے تھے۔‘‘ ’’ مگر ابھی پندرہ دن پہلے لیاقت ہسپتال والوں نے بتایا
ہے کہ کینسر ہے۔‘‘ خالہ کی آواز بالکل مدھم پڑ گئی تھی۔
’’مگر اب تو اس کا علاج ممکن ہے نا……‘‘
’’ہاں بیٹا ! کہ رہے تھے کہ فوراََ علاج شروع کروا دیں…… ورنہ مشکل ہو جائے
گی‘‘۔ خالہ نظریں اٹھائے بغیر یہ سب کہتی جا رہی تھیں۔وہ ویسے ہی اپنے
دھیمے دھیمے اور سہمے ہوئے انداز میں گفتگو کر رہی تھیں۔
’’چلیں کھانا کھائے‘‘۔ ابو نے کہا اور سب کھانا کھانے شروع ہو گئے۔ کھانے
سے فراغت کے بعد ذولفقار بھی عائشہ اور امی کے ساتھ دسترخوان سمیٹنے لگا۔
’’کہیں پیسے نا مانگ لے یہ……‘‘ امی نے کچن میں پہنچتے ہی عائشہ سے سرگوشی
کی۔
اُس نے بھی منہ بنا لیا ، ’’پتہ نہیں……‘‘
’’اﷲ جانے کیا بیماری ہے!!!‘‘ امی نے پھر کہا۔ وہ واپس آ کر ابو اور خالہ
کے ساتھ بیٹھ گئے۔
خالہ خاموشی سے بیٹھی ہوئیں تھیں اور کچھ نہیں کہ رہی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی
دیر میں ان میں سے کوئی ان سے کچھ چھوٹی موٹی بات کر لیتا اور وہ بھی ایک
مختصر سا جواب دے دیتیں۔
’’بھائی جان تھوڑی مجبوری ہو گئی ہے……‘‘ خالہ کا چہرے پر گھبراہٹ سی چھا
گئی۔ ’’ میری کچھ مدد کر دیں!‘‘۔ ابو، امی اور ذولفقار نے فورا اپنی تمام
تر توجہ خالہ پر مبذول کر لی۔
خالہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ ’’مجھے کچھ اور ذریعہ نظر نہیں آ رہا……‘‘۔ ’’مجھے
پیسوں کی ضرورت ہے۔‘‘ اچانک خالہ نے سسکیاں لینی شروع کر دیں، جیسے کہ
انہوں نے کوئی پختہ عہد توڑا ہوکہ کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں گی۔
مگر وہ اپنی مجبوری کے ہاتھوں رسوا ہو رہی تھیں……
’’میرے پاس کوئی اور چارہ نہیں……‘‘ ۔ ’’ اﷲ کا نام لے کر کہتی ہوں…… میں کل
رات سے بھوکی ہوں……‘‘۔ خالہ نے اپنی نظریں زمیں بوس کر دیں اور اپنے ہاتھ
پھیلا دئیے۔ وہ روئے جاتی تھیں۔ ان کا چہرہ شرمندگی سے لال سرخ ہو گیا تھا۔
تھوڑی دیر خاموشی رہی۔
’’کچھ کرتے ہیں……‘‘۔ ’’فکر نہ کرو……‘‘۔
’’حوصلہ رکھو۔‘‘ذولفقار کے والد نے یہ چند الفاظ کہے۔
’’بیٹا! خالہ کو پانی لا دو۔’’ انہوں نے ذولفقار سے کہا اور وہ پانی لینے
اُٹھ گیا۔ اس کے ابو بھی اٹھ کر اندر کمرے میں گئے اور امی بھی ان کے پیچھے
پیچھے چلی گئیں۔
’’کیا دیں گے پیسے؟‘‘ ذولفقار کی امی نے تشویشناک انداز میں پوچھا۔
’’ہونہہ…… بس یہی مسئلہ ہے ان رشتہ داروں کا…… دیکھتے ہی بندہ ڈر جائے کے
کہیں پیسے نہ مانگ لیں……‘‘ ذولفقار کے والد نے منہ بنا رکھا تھا۔
’’تو نہ دیں نا…… بچوں کی فیس وغیرہ کا بہانہ بنا دیں گے……‘‘ اس کی امی نے
مشورہ دیا۔
’’ہونہہ…… اپنے ہی پیسے نہ دینے پر بہانے بنانے پڑ رہے ہیں……‘‘
’’ بھئی ہمارے بچے بھی توہیں …… ہم ان پر خرچ نہ کریں …… ان لوگوں کو پیسے
دیتے رہیں‘‘۔ ذولفقار کے والد کو بہت غصہ آ رہا تھا۔
’’رونا شروع کر دیتے ہیں…… بندے کو شرمندہ کر دیتے ہیں……‘‘ انہوں نے پھر
اپنی بھڑاس نکالی۔
تھوڑی دیر میں وہ پھر اٹھ کر خالہ کے پاس آئے اور خاموشی سے ان کی پاس بیٹھ
گئے۔خالہ کی نظروں میں امید کی ایک کرن تھی۔
’’ایسا کریں آپ ایدھی والوں سے رجوع کریں …… ‘‘۔ ’’ وہ ضرور آپ کی کوئی نہ
کوئی مدد کریں گے……‘‘۔
ذولفقار کے ابو کے منہ سے یہ الفاظ سن کر سمینہ خالہ کا جیسے دل بند ہو
گیا۔ ان کی ساری امیدیں ایک جھٹکے سے ٹوٹ گئی۔ ان کا دل غم سے بھر گیا۔ وہ
گہری گہری سی سانسیں لینے لگیں۔ مگر انہوں نے ان لوگوں پر یہ ظاہر نہ ہونے
دیا۔ بلکہ ایسا ظاہر کرنے لگی جیسے یہ مشورے دے وہ ان پر بہت احسان کر رہے
ہوں۔ پر ان کے چہرے کے بدلتے رنگ کسی سے کیسے چھپ سکتے تھے؟؟؟
رات کے ساڑھے نو بجے وہ تن تنہاں وہاں سے نکلی اور تیز تیز قدم لیتے
ذولفقار کے گھر سے دور ہوئی۔ پھر اچانک وہ آہستہ آہستہ چلنے لگیں۔ ان کا
سینہ گھٹنے لگا۔ اپنی سیاہ پرانی سی چادر میں منہ چھپائے وہ سسک سسک کر
رونے لگیں۔ ہر ایک سے درپردہ وہ اندر ہی اندر گھٹ رہیں تھیں۔ ان کا چہرہ ان
کے آنسوؤ ں سے بھیگ رہا تھا۔
’’یا الہی!……‘‘ بس انہوں نے یہ ایک لفظ کہا اور اپنی بے بس آنکھوں سے آسمان
کی طرف دیکھا۔
یہ منظر دیکھ کر توفرشتے بھی رونے لگے۔
’’خدائے تعالی کی لعنت ہو اس گھر پہ…… اور اس کے رہنے والوں پہ……‘‘ ایزائل
اور سومائل روتے جاتے اور ان کے حق میں دھائی دیتے جاتے۔
’’جس شخص نے کسی مسلمان کا دل توڑا…… تو اس نے جیسے بیت اﷲ ڈھا دیا!!‘‘
’’ہائے افسوس ہو ایسے مسلمانوں پر ، جن کے دل کسی غم خوار کے غم سے بھر
نہیں آتے!!!‘‘۔
’’پروردگار عالم!!! تو کتنا صبر والا ہے جو بندوں کے ایسے مظالم دیکھتا ہے،
پھر بھی انہیں مہلت دئیے جاتا ہے۔‘‘
’’کون ہے کہ جب کوئی شخص بے قرار ہو کر اس سے فریاد کرے……وہ اس کی فریاد کو
پہنچے…… اور اس کی مصیبت کو ٹال دے۔‘‘
’’اﷲ ہی ہے‘‘ ایزائل نے جیسے ایک نعرہ بلند کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’حسن عاصم‘‘۔ ’’حسن عاصم’‘۔
حسن انجینیرنگ کالج کی admission لسٹ میں اپنا نام تلاش کر رہا تھا۔ وہ بار
بار فہرست کو اوپر سے نیچے تک پڑھتا جاتا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
’’یار یہی لسٹ ہے نا……جن کا داخلہ ہوا ہے؟‘‘۔ حسن نے جھنجھلا کر ساتھ والے
لڑکے سے پوچھا۔ اس کے چہرے کا رنگ اڑ رہا تھا۔
’’ہاں یہی ہے……نہیں ہے تمہارا نام؟؟‘‘
حسن چپ چاپ دوبارہ لسٹ کو غور غور سے ، ایک ایک نام پر انگلی رکھ رکھ کر
دیکھنے لگا۔
’’سلطان رحمان ، حاصل کردہ نمبر ۱۶۳ ‘‘ اس نے آخری نام پڑھا۔
وہ بہت اداس ہو گیا اور وہیں باہر یونیورسٹی کے پارک میں ایک بینچ پر جا
بیٹھا۔ وہ گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔
’’ارے یار……‘‘۔ ’’شٹ‘‘۔ وہ ایسے الفاظ کہتے ہوئے اپنی گردن دائیں سے بائیں
جانب ہلانے لگا، جیسے کوئی کسی بات کی نفی کرتے ہوئے ہلاتا ہے۔
’’او ہو……چچ……‘‘ افسوس کے مارے اس کے منہ سے نکلا۔
وہ بہت دیر وہیں بیٹھا افسوس کرتا رہا پھر بھاری سا دل لے کر گھر پہنچا۔
’’نہیں ہوا امی……‘‘ ۔ حسن کی شکل بالکل اتری ہوئی تھی۔
’’آئے ہائے…… کیا کہ رہے ہو……‘‘۔ ’’نہیں ہوا admission ؟؟؟‘‘ امی فوراََ
افسوس کرنے لگیں۔
’’صحیح تیاری نہیں کی ہو گی نا……‘‘ حسن کی امی غصے میں چڑ کر کہنے لگیں۔
وہ کچھ جواب دئیے بغیر وہیں صوفے پر بیٹھ گیا۔
NED University ہی اس کے لئے سب سے بہترین تھی۔ اسے بڑی امید تھی کہ یہاں
اس کا داخلہ ہو جائے گا۔
’’کیا ٹیسٹ اچھا نہیں دے کر آئے تھے کیا؟؟؟‘‘، حسن کی امی بار بار ایسے ہی
جملے کس رہیں تھیں۔
’’اب دعا کرو دوسری یونیورسٹی میں ہو جائے کم از کم…… ‘‘ حسن کی امی لعن
طعن کرتی رہیں۔
حسن بڑا پریشان ہو گیا تھا۔ ذولفقار نے تو self finance کی اسکیم کے تحت
ایک پرائیوٹ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ مگر حسن کے گھر والے چاہتے کہ
وہ میرٹ پر آگے بڑھے ۔ لہذا اس نے ایک دوسری یونیورسٹی کے admission test
کی تیاری شروع کر دی اور اس کا پروسپیکٹس منگوا لیا۔
عصر کی نماز پڑھ کر حسن وہیں اپنے گھر کی چھت پر مصلے پر بیٹھا تھا۔ وہ ایک
وظیفوں کی کتاب ہاتھ میں لئے تسبیح گما رہا تھا۔ آج کل وہ عصر کی نماز پڑھ
کر مغرب تک اسی مشغلے میں مصروف رہتا تھا۔ پھر مغرب کی نماز کے بعد دوسرے
کام کاج میں لگ جاتا تھا۔
’’اے اﷲ ! مجھے یونیورسٹی میں داخلہ دلا دے۔ اے اﷲ! میرا انٹرویو اچھا کرا
دینا ۔ آمین۔ ‘‘
’’اے اﷲ! مجھے اچھا انسان بنا، نیکی کے کام کرا۔ آمین‘‘
آج کل حسن ہر وظیفے اور نماز کے بعد ایسی ہی دعائیں کر رہا تھا۔ چار دن بعد
اس کا ایک انٹرویو جو تھا۔ اسے ڈر لگ رہا تھا۔ کیونکہ یہ مشہور تھا کہ اس
یونیورسٹی کے پروفیسر انٹرویو بڑا مشکل لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ |