’’بہت سے لوگ ہیں جو بستروں پر پڑے کراہ رہے ہیں۔ میں ان
کے پاس جاتا ہوں اور انہیں کھانا کھلانے لگتا ہوں۔ ان میں سے ایک ظعیف شخص
مجھے بہت سی دعائیں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’اﷲ تمہیں تمہاری نیکی کا اجر
ضرور دے گا‘‘ ۔‘‘ حسن نے دوسری صبح اپنی امی کو یہ خواب سنایا۔
’’خواب تو اچھا ہی معلوم ہوتا ہے۔‘‘ حسن اور اسکی امی کچن میں کھڑے تھے۔ اس
کی امی کچن کا کام کرتے کرتے حسن سے باتیں کر رہیں تھیں۔ ’’تم ایسا کرنا
اپنے دادا سے پوچھ لینا ، آج شام تو وہ آ ہی رہیں ہیں‘‘۔ آج رات ان کے دادا
جان اپنے آبائی علاقے منسہرہ سے تشریف لا رہے تھے۔
’’جی…… خواب تو اچھا ہی لگتا ہے…… چلیں ٹھیک ہے میں دادا بابا سے پوچھوں گا
……‘‘ حسن نے اپنی امی کا مشورہ مانتے ہوئے کہا۔
شام کو حسن اپنے دادا کو لینے ایئرپورٹ پہنچا۔ گھر واپس آکر سب دادا بابا
کو دیکھ کر چہکنے لگے…… حسن کے چھوٹے بہن بھائی، امی ابو، سب…… گھر میں چہل
پہل سی ہو گئی۔ دادا تھے ہی ایسی پیاری شخصیت کے مالک…… بہت حلیم طبیعت کے،
نرم مزاج، دور اندیش اور دانا۔ وہ بڑے نیک آدمی تھے ۔ مسجد سے محبت کرنے
والے۔ کتابوں سے محبت کرنے والے۔ وہ سب کو نیکی کی تلقین کرتے رہتے۔ سچ ہے
کہ بزرگ لوگوں کے وجود سے گھر میں برکت آ جاتی ہے۔
’’شاباش بیٹا! پابندی سے نماز پڑھا کرو۔ نماز اﷲ کا حق ہے۔‘‘ دادا نے حسن
کو چھت پر نماز کی تیاری کرتے دیکھا تو فرمایا۔ وہ خود بھی مغرب کی نماز کی
تیاری کرنے لگے۔
نماز سے فارغ ہو کر دونوں وہیں مصلے پر بیٹھ گئے۔ دادا جی کوئی ذکر کرنے
لگے اور حسن خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا۔
’’دادا جی کل رات میں نے ایک خواب دیکھا تھا۔‘‘ جب دادا جی نے دعا ختم کی
توحسن نے بات شروع کی۔
دادا جی اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
’’کیا خواب تھا بیٹا؟‘‘
حسن نے دادا جی کو اپنا خواب سنایا اور کسی انہونی بات سننے کے انتظار میں
انہیں دیکھنے لگا۔ دادا جان کچھ دیر خاموش رہے، پھر بولے۔
’’بیٹا!…… انسان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ بے وجہ نہیں ہوتا۔ بلکہ
حقیقت تو یہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے کسی مقصد سے ہے۔‘‘
’’اﷲ تعالی نے کوئی چیز بے وجہ نہیں بنائی۔ وہ پاک ہے اس سے کہ بل وجہ کوئی
کام کرے۔‘‘
’’ہماری ہر چیز…… کھانا پینا، سوناجاگنا، باتیں کرنا…… ہر چیز کی اہمیت ہے
نا……‘‘
’’بس اسی طرح خواب بھی بے وجہ نہیں ہوتے۔‘‘ ’’ حضرت یوسف ؑکے خوابوں کا تو
آپکو پتہ ہی ہو گا۔‘‘
’’جی‘‘ حسن نے کہا۔
’’انہیں تو اﷲ تعالی نے خوابوں کی تعبیر بتانے میں ملکہ ادا کیا تھا۔‘‘
’’جب انہوں نے قیدخانے میں دو قیدیوں کے خوابوں کی تعبیر بتائی اور وہ
بالکل صحیح ثابت ہوئی۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ برے لوگوں کو بھی سچے خواب آ سکتے ہیں؟؟؟‘‘ ۔ ’’مطلب ان
قیدبوں کو……‘‘ حسن نے وضاحت کی۔
’’جی بیٹا۔‘‘ ’’ اﷲ کو جب کوئی کام کرنا منظور ہوتا ہے تو وہ ایسے ہی کوئی
نہ کوئی تدبیر نکالتا ہے۔‘‘
’’ان قیدیوں کو یہ خواب دکھانے کا اصل سبب تو یوسف (ع) کو رہائی
دلاناتھا۔‘‘
’’ہم م م ……‘‘ حسن نے بات سمجھتے ہوئے کہا۔
’’تو میرے خواب کا کیا مطلب ہے؟‘‘ حسن نے تجسس بھرے انداز میں پوچھا۔
’’اصل مطلب تو اﷲ ہی جانتا ہے…… مگر خواب تو اچھاہے……‘‘
’’تم ایسا کرو امی سے کہو کہ تمہاری طرف سے صدقہ دے دیں‘‘۔’’اﷲ خوش ہو گا……
انشاء اﷲ‘‘۔
حسن نے نیچے آ کر اپنی امی سے کہا کہ دادا جی نے اسے صدقہ کرنے کا مشورہ
دیا ہے۔
کچھ دیر بعد دادا جی نیچے آئے ۔’’حسن بیٹا! ‘‘
’’جی دادا جی!‘‘ حسن کے امی اور ابو بھی آ گئے ۔
’’بیٹا تم کسی ہسپتال وغیرہ میں صدقہ دے دو ……زیادہ بہتر ہے’‘۔ دادا جی نے
زیادہ وضاحت نہیں کی اور سیدھا یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
’’ شاید خواب میں میں نے بستروں پر بہت سے آدمیوں کو کراہتے ہوئے دیکھا
تھا، اس لئے دادا یہ کہہ گئے ہیں……‘‘ حسن نے سوچا اور دادا جی کی تعبیر سن
کر بہت متاثر ہوا۔
دوسرا دن جمعہ کا دن تھا۔سرکاری چھٹی ہونے کی وجہ سے حسن کے ابو بھی گھر پر
ہی تھے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر حسن کے ابو نے کچھ پیسے لئے اور حسن سے مخاطب
ہو کر بولے۔
’’چلو بیٹا! لیاقت ہسپتال چلتے ہیں…… وہاں تمہاری طرف سے صدقہ دے آئیں
گے……‘‘۔ ’’ چلو کسی بہانے تو اﷲ کی راہ میں کچھ خرچ کرنے کا موقع ملا‘‘۔
’’ہاں بیٹا! اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے سے رزق گھٹتا نہیں بڑھتا ہے…… صدقہ
خیرات دیتے رہا کرو…… مصیبتیں بلائیں ٹلتی ہیں، مشکلیں آسان ہوتی ہیں……‘‘
دادا جی نے انہیں گھر سے نکلتے دیکھا تو کہا۔
راستے میں ایک سگنل پر ایک غریب اماں ان کے پاس کچھ مانگنے آئی اور حسن کے
ابو نے جیب سے دس روپے نکال کر اسے دے دئے۔
’’اﷲ خیر کرے……‘‘ وہ اماں یہ کہتی ہوئی چلی گئیں۔
کچھ دیر میں یہ لوگ لیاقت ہسپتال کہ باہر پہنچے، گاڑی پارک کی اور ہسپتال
میں داخل ہوئے۔
’’ اسلام و علیکم بھائی صاحب……‘‘۔
’’یہ…… ہمیں کچھ صدقہ وغیرہ دینا ہے…… یہاں ہے کوئی ایسی جگہ……‘‘ حسن کے
ابو نے ایک شخص سے پوچھا۔
’’جی…… آپ لوگ سیدھا جا کر الٹے ہاتھ پر ہو جائے…… وہاں آپ کو استقبالیہ سے
پتہ چل جائے گا کہ کہاں ہے۔‘‘ چوکیدار نے بتایا۔
وہ چوکیدار کا شکریہ ادا کرتے ہو ئے آگے بڑھے اور استقبالیہ تک پہنچے۔
’’اسلام و علیکم …… جی ہمیں کچھ صدقہ دینا ہے……‘‘ ۔
حسن اپنے ابو کے پیچھے ہی کھڑا تھا۔ ایک خاتون ڈاکٹر کا کوٹ پہنے انہیں
دیکھ رہیں تھیں۔
’’Excuse me !!! ‘‘
انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
میں ڈاکٹر عظمی…… ‘‘
’’معذرت خواہ ہوں ……آپ لوگوں کو چونکا دیا۔‘‘ وہ معذرت خواہانہ انداز میں
بولیں۔
’’نہیں جی ایسی کوئی بات نہیں……‘‘۔ حسن کے ابو نے مختصرا کہا۔
’’دراصل میری ایک پیشنٹ ہیں…… ضرورت مند ہیں……‘‘۔ ’’ اگر ہو سکے تو آپ لوگ
ان کے لئے کچھ کر دیں……‘‘۔ ڈاکٹر عظمی نے بڑی امید سے کہا اور کچھ دیر
کھڑیں ان کے تاثرات کا جائزہ لینے لگیں۔
’’آئیے میں آپ کو ان کے پاس لے چلتی ہوں……‘‘۔ آپ لوگ خود ہی ان کی کنڈیشن
دیکھ لیں‘‘۔
حسن اور اس کے والد نے لمحہ بھر کو سوچا پھر کہا۔ ’’ چلیں دیکھتے ہیں۔‘‘ ’’
جو ہم سے بن پڑا……‘‘۔ یہ کہ کر وہ سب ہسپتال کے وارڈ کی طرف چلے۔
’’ایک خاتون ہیں…… ان کے شوہر کو کینسر ہے…… علاج فورا ہی شروع ہونا چائیے
، ورنہ پھر حالت خراب ہو جائے گی‘‘۔ ڈاکڑ عظمی نے چلتے چلتے کہا۔
’’کم از کم علاج شروع ہو جائے …… پھر ہم کوشش میں لگے ہیں کہ کوئی مستقل
ذریعہ بن جائے۔‘‘
یہ لوگ وارڈ میں پہنچے اور ڈاکٹر عظمی نے ایک بستر کی طرف اشارہ کیا۔ ایک
چالیس سالہ شخص بستر پر پڑا تھا۔ ہاتھ پہ ڈرپ لگی تھی۔ چہرے کا رنگ پیلا
زرد تھا۔ اسی بستر کے ساتھ ایک تیس پینتیس سالہ خاتون کرسی پر ٹیک لگائے سو
رہی تھیں۔ اس کی گود میں ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا۔
’’سو رہیں تھیں سمینہ!!!‘‘ ڈاکٹر عظمہ نے سمینہ سے کہا جو کہ ہماری موجودگی
کی وجہ سے چونک کر اٹھ گئیں تھی۔
سمینہ نے کچھ کہے بغیر اپنی چادر ٹھیک کی ، سب کو سلام کیا اور کھڑی ہو
گئیں۔
’’گھر کہاں ہے آپ کا سمینہ؟‘‘ ڈاکٹر عظمی غالبا یہ جانتی تھیں مگر انہوں نے
حسن اور اس کے والد کے سامنے پھر پوچھا۔
’’جی اورنگی ٹاؤن میں……‘‘ سمینہ نے اپنی ویسی ہی سہمی سی آواز میں جواب
دیا۔
’’کچھ پیسوں کا انتظام ہوا؟‘‘
’’ام م م ……نہیں جی…… ابھی تو نہیں…… مگر ہو جائے گا، انشاء اﷲ۔‘‘ یہ کہ کر
وہ اپنے بچے کو چپ کرانے لگیں جو اچانک رونے لگاتھا۔
اور اسی پل اﷲ نے حسن کے والد کے دل پر الہام کیا اور ان کے دل میں سمینہ
کے لئے رحم ڈالا۔ ’’اﷲ خیر کرے……‘‘ ان کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’کتنے اخراجات ہو جائیں گے ان پر؟؟؟‘‘ وارڈ سے باہر نکل کر حسن کے والد نے
ڈاکٹر عظمی سے پوچھا۔
’’ویسے تو مہنگا علاج ہو گا……مکمل ہوتے ہو تے سال بھر لگ جائے گا……‘‘۔
’’اور اس بیچ تقریبا پانچ چھے لاکھ روپے خرچ ہوجائے گے۔‘‘۔ ’’مگر ہم صرف
شروعات کرنا چاہ رہے ہیں……پھر ساتھ ساتھ انتظام ہو جاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر عظمی
کچھ ٹھہر کر پھر بولیں۔ ’’ ابھی کم از کم اسی ہزار روپے درکار ہوں گے۔‘‘
حسن کے ابو سوچنے لگے۔’’چلیں ٹھیک ہے……‘‘ حسن کے ابو نے فیصلہ کن انداز میں
کہا۔
’’ابھی میں آپ کو تیس ہزار تک دے دیتا ہوں…… پھر ایک دو دن میں باقی پیسے
بھی جمع کروا دوں گا۔‘‘
’’اﷲ آپ کو اجر دے……‘‘۔ ’’آمین‘‘
یہ سب تو ہونا ہی تھا تقدیر میں جو لکھا تھا۔ حاملین لوح محفوظ نے تقدیر کی
ایک عبارت پڑھی اور کہا ، ’’آمین‘‘۔
تقریبا پندرہ دن بعد حسن کے ہاں ڈاک آئی۔
محترم جناب حسن عاصم
اسلام و علیکم
حسن عاصم ولد عاصم صدیق ، درخواست فارم نمبر ۴۱۲۳ کو یہ مطلع کیا جاتا ہے
کہ کچھ منتخب امیدواروں کی جانب سے داخلہ کنفرمیشن نہ ملنے کی بنا پر،
انہیں NED university میں BE batch 2004-5 میں داخلے کی پیش کش کی جاتی ہے۔
برائے کرم اگلے ۱۵ دن کے اندر اندر اپنی رائے سے یونیورسٹی حکام کو آگاہ
کریں۔
( Waiting list اور Student admission form اس لفافے میں موجود ہیں)
آپکا خیرخواہ
نعیم جمیل
شعبہء داخلہ جات
کچھ دیر تو حسن خاموشی سے کھڑا مسکراتا رہا۔ پھر اپنی بے وقوفی پر ہنسنے
لگا کہ اس نے ویٹنگ لسٹ تو چیک ہی نہیں کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
روز کی طرح آج بھی ذولفقار نے پورا دن کمپیوٹر پر گیمز کھیلنے، فلمیں
دیکھنے اورآوارہ گردی کرتے گزارا تھا۔ اس کی چھٹیاں جو چل رہی تھیں۔ اس کے
والدین سخت طبیعت کے تھے مگر آہستہ آہستہ اس کے گھر کے تمام افراد ہی ان
خرافات کا شکار ہو ر ہے تھے۔ جن میں اس کا چھوٹا بھائی وحید بھی شامل تھا
اور باقی دو بہنیں بھی۔
آج صبح تک تو ذولفقار بڑے اچھے موڈ میں تھا۔ سباسے شام کو ملاقات جو طے تھی
، مگر پھر اچانک سبا نے معذرت کر لی اور وہ اپنے روز انہ کے مشغلوں سے اپنا
دل بہلاتا رہا۔ رات کو دس بجے کے قریب وہ اپنے محلے کے لڑکوں کے ساتھ
گھومتا پھرتا واپس لوٹا۔
’’بیٹا کھانا کھا لیا؟؟؟‘‘ ذولفقار کو رات گئے گھر واپس آتے دیکھ کر اسکی
امی نے سوال کیا۔
’’ابو کہاں ہیں؟؟؟‘‘ ذولفقار نے جواب دینے کے بجائے آہستہ سے پوچھا۔
’’وہ اوپر کمرے میں ہیں…… سونے ہی والے ہیں……‘‘ وہ بولیں۔
’’پوچھ رہے تھے میرا……؟‘‘۔ اس نے پھر پوچھا۔
’’ہاں! پوچھ رہے تھے……‘‘ ۔
ذولفقار سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور سونے کی تیاری کرنے لگا۔ ا س کی روح
نکل گئی اور وہ سو گیا۔
روح بستر سے اٹھی اور کمرے میں چکر کاٹنے لگی۔ پھر وہ کمرے سے باہر آئی اور
ذولفقار کی امی کو کچن میں برتن سمیٹتے دیکھنے لگی۔
’’عائشہ ! ابھی تک کیوں پھر رہی ہو …… صبح کالج جانا ہے’’ ۔ اس کی امی اس
کی بہن سے کہ رہی تھیں۔
عائشہ چپ چاپ کمرے میں چلی گئی۔
دولفقار کی چھوٹی بہن سدرہ کی ر وح بھی چھت سے لگی یہ مشاہدہ کر رہی تھی۔
سدرہ بھی سو چکی تھی۔
ذولفقار کی روح ہوا میں تیرتی اوپر چھت پر چلی ۔ اگست کے آخری ایام تھے ۔
خوب مست ہوائیں چل رہی تھیں۔ آسمان کالے سیاہ بادلوں میں ڈھکا تھا۔ ہر روز
زبردست بارش ہوتی۔ رات کے با رہ بجنے کو تھے۔ وہ چھت سے نیچے ویران گلی میں
آئی اور آہستہ آہستہ وہاں تیرتی ہوئی آگے بڑھنے لگی۔ رات کے سناٹے میں
تھوڑی تھوڑی دیر بعد علاقے کے چوکیدار کی سیٹی کی آوازکچھ اس طرح گونجتی
جیسے کسی کے درد میں چیخنے کی آواز ہو۔
تیرتے تیرتے وہ علاقے کے باغ میں پہنچی ۔ وہاں رات کے اس وقت بھی کچھ آوارہ
لڑکے مجمع لگائے بیٹھے تھے۔ وہ تاش کھیل رہے تھے اور جوئے کی بازیاں لگا
رہے تھے۔وہ ایک قریبی قبرستان پہنچی۔ کچھ لوگ آگے پیچھے وہاں سے وا پس آ
رہے تھے ۔ شاید کسی کا جنازہ ہوا تھا۔
’’بڑے نیک انسان تھے۔’‘
’’اﷲ مغفرت کرے۔ ‘‘ ’’آمین‘‘۔ لوگ ایک دوسرے سے باتیں کرتے کرتے چل رہے
تھے۔
’’ایک بار رمضانوں میں افطار کے وقت میں کچھ سامان لے کر گھر آ رہا تھا کہ
میں سائیکل سے گر گیا۔‘‘جانزے کے ساتھ آیا ایک لڑکا کہنے لگا۔
’’وہ اوپر چھت سے مجھے دیکھ رہے تھے اور اسی وقت دوڑتے ہوئے نیچے آئے اور
مجھے ہسپتال لے گئے۔‘‘
’’میرا سر پھٹ گیا تھا۔‘‘ ۔ ’’ کلینک وغیرہ تو سب بند تھے……‘‘
’’روضہ بھی نہیں کھولا تھا انہوں نے……‘‘۔ ’’ جب ہسپتال پہنچ گئے تب جا کر
کھولا……ایک دو گھنٹے بعد……‘‘۔
’’آج تک یاد ہے مجھے وہ دن……‘‘
’’ماشاء اﷲ‘‘ ایک دوسرے شخص نے کہا۔
’’بہت اچھے انسان تھے۔‘‘
’’مشکل وقت بھی بہت گزارا ہے……‘‘۔ کوئی اور بولا۔
’’بیٹوں نے اچھا نہیں کیا……‘‘
’’خیر …… اﷲ انہیں ان کے صبر کا اجر دے‘‘۔ ’’سب جانتے ہیں ان کے بچوں کو……
‘‘
’’وہ خود کتنے پاکباز…… عزت دار آدمی تھے۔‘‘ ایک عزیز کی آنکھوں میں آنسو آ
گئے ۔ وہ رونے لگے۔
’’تمہارا رب کون ہے؟‘‘ نورانی چہروں والی دو ہستیاں حساب کتاب لینے کو
موجود تھیں۔
’’اﷲ‘‘۔ مردہ قبر میں اٹھ بیٹھا۔
’’تمہارا دین کیا ہے؟‘‘
’’اسلام‘‘
’’تمہاری طرف جو بھیجا گیا وہ کون ہے؟‘‘ ان کے چہروں پر مسکراہٹ آ گئی۔
’’وہ اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘
’’تم نے کیا اعمال کئے؟‘‘
’’قرآن پڑھا اور اس پر ایمان لایا۔‘‘
’’میرے بندے نے سچ بولا…… اس کے لئے جنت کا بستر لگاؤ …… بہشتی لباس پہناؤ
۔ اس کے لئے جنت کی کھڑکی کھول دو‘‘۔
آسمانوں میں فیصلہ ہو گیا۔
قبرستان میں سناٹا پھیل گیا۔ لوگ مردہ دفنا کر اپنے اپنے گھروں کو جا چکے
تھے۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو نے لگی۔ تھوڑی تھوڑی دیرمیں بادلوں کے
گڑگڑانے کی آواز آتی اور آسمان بجلی سے چمک اٹھتا۔
رات کا یہ پہر، سنسان قبرستان ، بارش، بادلوں کی گرج، چمک اور ایک بھٹکتی
روح……دل ہلا دینے والا منظر تھا۔
بارش تیز ہو چکی تھی، فرئیر ہال اندھیرے میں ڈوبا تھا۔ ساتھ ساتھ تیز
ہوائیں بھی چلنے لگیں، جو درختوں کی شاخوں سے ٹکرا کر عجیب عجیب
پراسرارآوازیں پیدا کر رہیں تھیں۔ فرئیر ہال کے عین اوپر چاروں سمتیں
دکھانے والا صلیب نما نشان اس موسم میں اس جگہ کو کسی سحر انگیز جہاں کا
ایک کونا بتا رہا تھا۔ وہ روح اسی انگریزی دور کی پرانی عمارت میں گھومنے
لگی۔ ایک بالکونی سے دوسری، دوسری راہداری سے تیسری۔ پھر وہ عین اسی جگہ آ
ٹھہری جہاں ذولفقار اور سبا بیٹھا کرتے تھے۔ اسی درخت کے نیچے جو شاید سو
سال پرانا ہو گا۔
اب وہ سمندر کے ساحلوں پر گھومنے لگی۔ کبھی دور گہرے سمندر کی لہروں میں
نہاتی ، کبھی ساحل کی ریت پر تیرتی۔ پھر وہ ایک پرانے سے کچے ہٹ پر جا رکی،
جہاں اس نے ایک مرد و زن کو نازیبا حالت میں دیکھا۔
صبح ہو گئی۔ ہر سونے والے کی روح اس کے جسم میں دوبارہ داخل کر دی گئی اور
وہ جاگ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’بیٹا میں خالہ کے گھر جا رہی ہوں، گھر کا خیال رکھنا……کل دوپہر تک آجاؤں
گی‘‘ سبا کی امی نے رخصت ہوتے ہوئے پکارا۔
’’کیوں امی! اس وقت کیوں جا رہی ہیں……!!! کل چلی جائیے گا۔‘‘ سبا کی بڑی
بہن نے مشورہ دیا۔
’’وہ بیٹا…… کئی دنوں سے ٹال رہی ہوں۔‘‘ ’’ اصغر کی طبیعت بہت خراب ہے، اسے
دیکھ آؤں۔‘‘
’’وہ لوگ بھی خیال رکھتے ہیں۔‘‘ سباکی امی نے وضاحت کی۔
’’امی مجھے تو آج ندا کی مہندی پر جانا ہے۔‘‘ سبا فورا نمودار ہوئی اور
بولی۔
’’بیٹا آج جھوڑ دو……‘‘ اس کی امی نے جیسے درخواست کی۔
’’نہیں بھئی !!! آپ خود تو جا رہی ہیں گھومنے پھرنے …… اور مجھے کہ رہیں
ہیں نہ جاؤ……‘‘ ۔ سبا نے بدتمیزی شروع کر دی۔
’’بیٹا گھومنے پھرنے نہیں جا رہی …… اس کی طبیعت بہت خراب ہے‘‘۔ وہ صفائی
بیان کرنے لگیں۔
’’میں تو جاؤ گی …… کبھی کبھی تو موقع ملتا ہے‘‘ سبا نے امی کی بات کاٹ کر
دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا۔
’’کیسے جاؤ گی؟‘‘ انہوں نے جانے کا زریعہ پوچھا۔
’’سلمی آ جائے گی …… اس کے ساتھ چلی جاؤ گی۔‘‘
’’تو پھر اس سے کہنا کہ واپسی پر بھی چھوڑ دے۔‘‘ ’’اور جلدی ہی آ جانا……‘‘
امی نے جیسے منت کی اور سلام کر کے رخصت ہوئیں۔
سبانے اپنی امی کے جاتے ہی فون ملایا۔ دوسری طرف سے ایک مردانہ آواز آئی۔
’’ہیلو!‘‘
’’ہاں! فرخ! میں سبا……‘‘
’’ابھی آ سکتے ہو؟؟؟‘‘ صائمہ نے چھوٹے چھوٹے جملوں میں بات کی۔
’’ابھی……‘‘۔ ’’ چلو ٹھیک ہے۔‘‘
’’آدھے گھنٹے بعد وہیں کھڑا ہوں گا‘‘۔ فرخ نے کچھ مزید پرچھنے کی زحمت نہ
کی کہ اس وقت رات کو وہ کیسے گھر سے نکل رہی ہے۔ اسے تو بس سباسے ملاقاتوں
میں دلچسپی تھی۔
’’او ۔ کے‘‘۔ سبانے یہ کہہ کر فون رکھ دیا۔
’’اچھا میں چلی……‘‘ سبا اپنی بڑی بہن کو کہہ کر باہر بھاگی۔ وہ سبا کے
پیچھے پیچھے گئی مگر اسے باہر سلمی نظر نہ آئی۔ وہ سمجھ گئی کہ وہ کس لئے
گھر سے نکلی ہے مگربے بسی سے اسے گھر سے جاتے د یکھتی رہ گئی۔
’’واہ بھئی واہ! ایک تو رات کو اس وقت گھر سے نکل آئی ہو اور وہ بھی ایسے
تیار ہو کر؟؟؟‘‘
’’کیا ڈرامہ کیا ہے؟‘‘ فرخ نے سباکے گاڑی میں بیٹھتے ہی اسے چھیڑا۔
’’وہ …… ندا کی مہندی تھی آج…… ویسے تو امی کو بھی جانا تھاساتھ، مگر وہ
خالہ کے چلی گئیں۔‘‘
’’باقی سب کو بھی امی گھر ہی بٹھا گئیں……‘‘
’’میں نے سوچا اچھا موقع ہے …… تمہیں بلا لیتی ہوں‘‘ سبا نے ہنستے ہوئے فرخ
کو سارا چکر سمجھایا۔
’’بڑی تیز ہو بھئی……‘‘
’’وہ تو میں ہوں……‘‘ گاڑی روڈ پر رواں تھی، سبا ادائیں دکھاتی، ہنستی رہی۔
’’کون سا پرفیوم لگایا ہے ؟ …… اچھا ہے‘‘ ۔ سبا فرخ کے قریب ہوئی اور اسکا
پرفیوم سونگنے کی کوشش کرنے لگی۔
’’ارمانی کا ہے۔‘‘
’’تم میرے لئے گجرے نہیں لائے؟؟؟‘‘ سبامنہ بنا کر ایسے فورا ناراض ہو گئی
جیسے بہانہ ڈھونڈ رہی تھی ناراض ہونے کا۔
’’تو ابھی لے لیتے ہیں میری جان…… ناراض کیوں ہوتی ہو!‘‘
’’نہیں تمہیں یاد ہونا چائیے تھا……‘‘۔ ’’آئندہ بھولے تو خیر نہیں
تمہاری……‘‘ ۔ سبا اٹکیلیاں لیتی، اتراتی، خوب باتیں بنا بنا کر فرخ کو رجھا
رہی تھی۔
’’چلنا کہاں ہے؟‘‘ فرخ نے پوچھا۔
’’کسی ریسٹورنٹ……ام م م …… سی سائیڈ‘‘۔
’’پھر وہیں سمندر پر گھومیں گے۔‘‘
’’مجھے اتنا شوق ہے کہ میں کبھی سمندر پر پوری رات گزاروں……‘‘
’’آئی لو سمندر……‘‘ ۔ وہ الفاظ کھینچ کھینچ کر باتیں کر رہی تھی۔
کچھ ہی دیر میں وہ کلفٹن کے قریب ایک ریسٹورینٹ میں گھس گئے۔
’’اور سناؤ جان ……کیا ہو رہا ہے آج کل؟؟؟‘‘ فرخ نے ریسٹورنٹ میں پیزا کا
آرڈر دیا اور پوچھا۔
’’ہی ہی ہی …… بس ایسے ہی……‘‘ سبا شرمانے لگی۔
’’اچھا! خوبصورت لگ رہی ہو بہت……‘‘
’’ تھینک یو……‘‘۔ وہ اور شرمائی۔
آدھے گھنٹے یہ دونوں یونہی باتیں بناتے ، ایک دوسرے کل دل لبھاتے رہے۔
’’چلو اب جلدی سے سی سائیڈ چلتے ہیں …… تاکہ دیر بھی نہ ہو اور مزہ بھی ہو
جائے۔‘‘ سبا کھلکھلا کر بولی۔
’’چلو‘‘۔ وہ پیزا کھا چکے تھے۔ انہوں نے ویٹر کو بل ادا کیا اور وہاں سے
نکلے۔
سمندر پر بوندا باندی ہو رہی تھی۔ لہریں شور مچا رہی تھیں۔ ہوائیں بھی بہت
دلفریب تھیں۔ سبا اور فرخ ساحل پر ایک کنارے چہل قدمی کرنے لگے۔ رات کے اس
پل ان کے علاوہ اس جگہ کوئی نہ تھا۔
’’ارے تم پوری گیلی ہو جاؤ گی……‘‘
’’کوئی بات نہیں……‘‘ اس نے بے نیازی سے اپنا دوپٹہ لہرایا اور ایک گانا
گنگنانے لگی۔
بھاگے رے من! کہیں آگے
رے من! چلا جانے کدھر
جانوں نہ ……………………
’’وہ دیکھو! کتنی پیاری ہٹ ہے……‘‘ سبا فرخ کا ہاتھ پکڑ کر بھاگی۔
ایک پرانی، کچی سی ہٹ اندھیرے سے پر تھی۔ وہ دونوں وہیں سمندر کی جانب رخ
کر کے بیٹھ گئے۔ تنہائی میں، اس رومانوی سفر میں وہ اپنی جواں عمر کا مزہ
لینے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔
ذولفقار کے امی ، ابو اور عائشہ تینوں ٹی وی پر نظریں گاڑھے بیٹھے تھے۔
’’یہ دیکھو بیٹا! یہ پتا چلا……‘‘ ذولفقار کہیں باہر سے گھوم پھر کر آ رہا
تھا۔ اس کے ابو نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
’’ہاہ! کیا ہوا……‘‘ ذولفقار کا حیرت سے منہ کھلا تھا کہ کیا ہو گیا۔ وہ ٹی
وی پر نشر ہونے والی خبر کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔
’’ یہ…… امریکہ میں دو جہاز ٹکرا دئیے ہیں……‘‘ اس کے ابو نے کہنا شروع
کیا۔’’یہ دیکھو……‘‘۔ وہ پھر چپ ہو گئے اور سب ٹی وی کو گھورنے لگے جس پر
ہوائی جہازوں کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرانے کا سین چل رہا تھا۔ ذولفقار
ٹکٹکی باندھے ہوائی جہازوں کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارتوں سے ٹکراتا دیکھنے
لگا۔ وہ یوں ہی چپ چاپ قریب رکھے صوفے کے کنارے پر بیٹھ گیا۔سب خاموشی سے
ٹی وی پر خبر دیکھ ہے تھے۔
’’ القائدہ نے کیا یہ!!!‘‘ ذولفقار ٹی وی پر چلتی ایک عبارت پڑھ کر کہنے
لگا۔ کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔
''AMERICA AT WAR''
امریکہ میں اس واقعے سے ہل چل مچ گئی تھی۔بش انتظامیہ نے اسے امریکہ کے
خلاف جنگ قرار دیا اوراسامہ بن لادن کی تلاش میں افغانستان کو الٹیمیٹم دے
دیاکہ اسے امریکہ کے حوالے کیا جائے۔ اسامہ بن لادن نامی شخص جو امریکہ کا
پرانہ دشمن تھاان دنوں افغانستان میں پناہ گزیر تھا۔افغانستان میں طالبان
کی حکومت تھی جن کا دعوی تھا کہ وہ ایک اسلامی حکومت ہے اور وہاں انہوں نے
چند اسلامی احکامات نافذ بھی کئے تھے۔ البتہ یہ ایک کچا سا اسلامی حکومتی
ڈھانچہ تھا جسے ابھی بہت سی اصلاحات اور پختگی کی ضرورت تھی۔
’’اب کیا ہو گا؟؟؟‘‘ عائشہ بولی۔ کسی نے اس کی بات کا جواب نہ دیا۔
بار بار جہازوں کے ولڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت سے ٹکرانے کے منظر نشر ہو رہے
تھے۔
ذولفقار کے ابو ٹی وی پہ نظریں جمائے اٹھ کر کہیں جانے لگے۔ذولفقار کی امی
نے انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’……میں ذرا اقبال صاحب کو فون کروں……‘‘ انہوں نے ٹو وی لاؤننچ سے نکلتے
ہوئے کہا۔ اقبال صاحب امریکہ میں مقیم ان کے ایک پرانے دوست تھے۔
۔۔۔۔۔۔
آج ذولفقار بڑا تھکا تھکا سا محسوس کر رہا تھا۔ جبکہ اچھی خاصی دس بارہ
گھنٹے کی نیند لے لی تھی اس نے۔ دوپہر کے بارہ بج رہے تھے۔ کچن میں برتنوں
کے کھڑکنے کی آوازوں سے اسکی آ نکھ کھول گئی۔ اٹھتے ساتھ ہی اس نے ٹی وی
چلایا اور ریموٹ ہاتھ میں لئے چینل ادھر سے ادھر گھمانے لگا۔
ٹی وی پرگرم خبر وہی تھی۔ افغانستان پر حملے کی تیاریاں بالکل مکمل ہو چکی
تھیں اور مشرف نے امریکہ کی اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر
لیا تھا۔ افغانستان پر امریکہ کا پہلا بم بس گرنے ہی والا تھا۔
’’ذولفقار بیٹا! منہ ہاتھ دھو لو …… ناشتہ کر لو‘‘۔
’’کل سے ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔‘‘ امی نے
اسے دیکھتے ہی اتنا کچھ کہ دیا۔
’’خود ہی چلے جائے گے نا……یا آپ ساتھ چلی جائیں۔‘‘
’’کل سے یونیورسٹی بھی شروع ہو رہی ہے …… ٹھیک طرح انجوائے بھی نہیں کیا
میں نے۔‘‘ ذولفقار نے چڑ کر کہا کہ کیا صبح صبح کام لے کر آ گئیں……
’’پورے چھ مہینے سے تو بیٹھے ہوئے ہو…… اور کیا انجوائے کرنا ہے‘‘۔اس کی
امی کا لہجہ سخت ہو گیا۔
منہ بنا بنا کرآخر کو اس نے حسن کو فون کر کے اس کی گاڑی منگوا لی۔ دوپہر
کو ابو کو ڈاکٹر کو دکھایا اور شام کو حسن کے ساتھ کچھ نئے کپڑے اور
موبائیل خریدنے چلا گیا۔ دوسرے دن یونیورسٹی کا پہلا دن جو تھا۔
دوسرے دن وہ صبح سویرے جلدی اٹھ گیا۔ یونیورسٹی کا پہلا دن تھا۔ بڑی خوشی
ہو رہی تھی اسے۔ وہ بڑے اہتمام سے تیار ہوا تا کہ لوگوں پر پہلا امپریشن
اچھا پڑے۔ نئے جوتے ، کپڑے اور موبائیل تو اس نے کل حسن کے ساتھ خرید ہی
لئے تھے۔ اس نے اپنے ابو کا ایک مہنگا سا پرفیوم لگایا اور یونیورسٹی کے
لئے نکلا۔
’’پانچ منٹ کے اندر اندر ایک مرغی پکڑ کر لے آؤ ورنہ کلاس نہیں لینے دیں
گے……‘‘۔ انکی ریگنگ کرنے کے لئے سینیئر لڑکے تیار کھڑے تھے۔وہ انہیں خوب
تنگ کر رہے تھے۔ کبھی انہیں ڈانس کرنے کو کہتے، کبھی ان کے کپڑے کھییھچتے،
کبھی کوئی ان کا بیگ لے کر بھاگ جاتا……
’’یار! کلاس کا ٹائم ہو رہا ہے۔‘‘
’’کوئی کلاس ولاس نہیں …… چلو شاباش مرغیاں پکڑو……‘‘
’’یہ کام بھی آنا چائیے بچے……‘‘
یونیورسٹی کے اندر مرغیاں دیکھ کر ذولفقار حیران رہ گیا۔ شاید انہوں نے اسی
دن کے لئے لا ڈالی ہوں گی۔ وہ پریشان سا ہو گیا کہ وہ یہ کیسے کرے گا۔
بہر حال اسکے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ بہت سے اور لڑکوں کی طرح وہ بھی نئے
نکورے کپڑے پہنے مرغیاں پکڑتے نظر آ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹی شروع ہوئے چھ ماہ گزر چکے تھے۔ پہلا سیمسٹر کیسے گزر گیا …… پتا
ہی نہیں چلا۔ مگرذولفقار کے والد کی صحت ان چھ ماہ میں کافی خراب ہو گئی
تھی۔ وہ آئے دن بیمار رہنے لگے تھے۔ شوگر تو انہیں پہلے سے تھی ہی اب کوئی
نہ کوئی اور بیماری اور درد بھی انہیں اٹھتا رہتا تھا۔سب گھر والوں کو ان
کی بیماری کی عادت سی پڑ چکی تھی۔سبا کے ساتھ ذولفقار کا ملنا جلنا ویسے ہی
چل رہا تھا۔
ذلفقار نے موبائیل پر سباکا نمبر ملایا۔
’’ہائی ذلفی!!!‘‘ ۔ اس نے شوخی سے کہا۔
’’ہیلو! آج شام کو آ رہی ہو نا……‘‘
’’میں تو بور ہو گئی ہوں……‘‘ ۔ سبانے بور سی آواز بنا کر کہا۔
’’کسی نئی جگہ چلو……‘‘ اس نے اینٹھتے ہوئے کہا۔
’’کہا جانا ہے میڈم؟؟؟‘‘۔ ذولفقار نے بھی تھوڑے نخرے اٹھائے۔
’’ام م م …… چلو سی ویو چلتے ہیں …… مجھے ہمیشہ وہاں مزہ آتاہی ہے……‘‘
’’او۔ کے‘‘۔ پروگرام پکا ہوا۔
اس نے شام کو سبا کو پک کیا اور وہ سی ویو چلے گئے۔ وہاں پہنچے کہ مغرب کا
وقت ہو گیا۔ وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے لوگوں سے دور کو سرکتے جا رہے تھے۔
’’ارے یہ دیکھو! کتنی اچھی ہٹ ہے……‘‘۔ ذولفقار نے کہا۔
سبا کا دل اچھل گیا۔
’’ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم پہلے بھی یہاں آ چکے ہیں……‘‘۔ اس نے پھر کہا۔
سبا کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ کیونکہ یہی وہ ہٹ تھی جہاں وہ فرخ کے ساتھ
رات گزار چکی تھی۔
’’یہاں تو سبا کسی اور کے ساتھ تھی……‘‘ ذولفقار کے ذہن میں خیال آیا۔
’’میں نے یہاں سبا کو کسی اور کے ساتھ غیر اخلاقی حالت میں دیکھا ہے……‘‘
اچانک اسکے ذہن میں ایسے خیالات آنے لگے۔ جیسے کوئی فلم سی چل رہی ہو۔
سبا اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں چوری اور ڈر کی ملی جلی
کیفیت تھی۔
وہ چپ چاپ تھوڑی دیر وہاں کھڑا اس کچی سی پرانی ہٹ کو دیکھتا رہا۔
پھر اچانک اسے اس سے نفرت سی ہونے لگی۔ اس نے منہ پھیر لیا اور سبا کو لے
کر آگے بڑھ گیا۔
’’چلو گھر چلتے ہیں کافی دیر ہو گئی ہے‘‘ ذولفقارنے بیزاری سے کہا۔
’’ہاں چلتے ہیں ……‘‘ سبا بھی فورا راضی ہو گئی۔ جیسے اسی انتظار میں تھی کہ
کب جان چھوٹے گی۔
اس دن کے بعد سے ذولفقار آہستہ آہستہ سبا سے دور ہوتا گیا ۔ مگر کبھی کبھار
یہ ضرور سوچتا کہ سبانے بھی پھر اس سے روابط قائم رکھنے کی کوشش نہ کی۔
۔۔۔۔۔۔۔
حسن کے گھر آج سب اداس تھے، دادا جی واپس جو جا رہے تھے ۔
’’داداجان! کیوں جارہے ہیں ؟‘‘ حسن کی چھوٹی بہن یہ کہتے ہوئے دادا سے چمٹ
گئی۔
’’پھر آؤں گا بیٹا ، ابھی گھر جاؤں نا،ادھر بھی تو لوگ ہیں‘‘۔ داد اجی نے
یہ کہتے ہوئے جیب سے تھوڑی سی ٹافیاں نکالیں اور بچی کو دے دیں۔
حسن اور اس کے امی ابو دادا جی کا سامان پیک کر رہے تھے۔
’’انشاء اﷲ، کل اسی وقت پہنچ جائیں گے……‘‘۔ ’’اس وقت گھر پر ہوں گے آپ……‘‘۔
حسن کے والد کہنے لگے۔
’’بس دعا کرو بچوں! خیر خیریت سے پہنچا دے اﷲ‘‘۔
’’انشاء اﷲ ۔ آمین‘‘۔
’’یہ لیں یہ کھانا بھی رکھ لیں……‘‘۔ ’’چاول ہیں …… خراب نہیں ہوں گے۔‘‘ حسن
کی امی نے دادا جان کو کھانے کا ڈبہ پکڑاتے ہوئے کہا۔
’’چلو! وہ ذولفقار کے ابو سے بھی ملنا ہے……‘‘ ۔’’…… نکلتے ہیں۔‘‘ دادا جی
نے کہا اور سامان سمیٹا۔
’’بڑے دن سے بار بار خیال آ رہا ہے۔‘‘
’’بے چارے سال بھر سے بیمار ہیں…… ایسے ہی چلے جانا اچھا نہیں لگتا……‘‘
’’اچھا بچہ ہے …… آتا جاتا رہتا ہے۔‘‘ دادا جی نے ذولفقار اور اسکے بیمار
والد کے بارے میں کہا اور اٹھے۔
حسن، اسکے ابو اور دادا جان گاڑی میں بیٹھے ذولفقار کے گھر کی طرف جا رہے
تھے۔ دادا جان ااپنی تسبیح پڑھنے میں مشغول تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں ذولفقار
کا گھر آ گیا۔
ذولفقار کے گھر میں داخل ہوتے ہی دادا جی کا چہرہ اتر گیا۔
’’او ہو…… یہ شیطان بھی پالا ہوا ہے انہوں نے……‘‘۔ دادا جی نے کتے کو
دیکھتے ہی منہ بنایا۔ دروازہ کھلتے ہی ایک کتا بھونکتا ہوا نمودار ہوا۔
’’نہیں دادا جی! میں نے بھی آج ہی دیکھا ہے اسے ، لگتا ہے اس کا چھوٹا
بھائی لایا ہے۔‘‘ حسن نے وضاحت کی کہ پہلے کبھی اس نے ذولفقار کے گھر اس
کتے کو نہیں دیکھا اور ذولفقار کو جانوروں میں دلچسپی بھی نہیں۔
’’کچھ دن پہلے تک تو نہیں تھا……‘‘۔ وہ کتا لگاتار بھونک رہا تھا۔
’’یہ منحوس تو ساری رحمت روک لیتا ہو گا اس گھر کی۔‘‘
’’جس گھر میں کتا ہوتا ہے…… وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔‘‘ دادا جان نے
تنبیہہ کے انداز میں فرمایا۔
’’اسلام و علیکم‘‘۔ ذولفقار گھر کے اندرونی دروازے سے نکلا اور سب سے
مصافحہ کیا۔
’’آئیں…… اندر چلیں‘‘۔ ’’آئیں‘‘۔ ذولفقار بڑے احترام سے سب کو اندر بیٹھک
میں لے گیا۔
’’بیٹا ! ہم تو بس اب نکلنے ہی والے ہیں …… تم ابو کو بلا لو ان کی طبیعت
پوچھ لیں۔‘‘ داداجان نے کہا کہ ذولفقار کے والد بھی بیٹھک میں آ جائیں۔
’’ پھر میں جا رہاہوں…… پتہ نہیں پھر زندگی رہے نہ رہے……کب ملاقات ہو!!!‘‘۔
داداجی جس کام سے آئے تھے سیدھی اسی کی بات کی۔
’’ابو کی طبیعت تو آج کل بہت خراب ہو گئی ہے۔‘‘
’’ایسا کریں آپ لوگ اندر ہی آ جائیں۔‘‘
سب ذولفقار کے ابو کے کمرے میں داخل ہوئے۔
’’انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔‘‘ دادا جان کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ سب چونک
کر حیرت سے دادا جی کو دیکھنے لگے کہ یہ کیا کہہ بیٹھے ہیں۔
’’نہیں نہیں بیٹا…… میں تو ویسے ہی ذکر کرتا رہتا ہوں‘‘۔ دادا جان نے تمام
افراد کے تشویشناک چہروں کو پڑھ لیا۔
’’معاف کرنا۔‘‘ داداجی نے فوراََ وضاحت کی۔
سب قریب رکھے صوفے پر بیٹھ گئے۔ ’’ یہ تو بس ایک قرآنی آیت ہے…… ہم تو اﷲ
ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ دادا جی نے ترجمہ بیان
کیا۔
سب لوگ ذولفقار کے والد کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ جو کبھی آنکھیں کھولتے کبھی
بند کرتے۔ وہ کچھ نہیں بول پا رہے تھے۔ وہ واقعی ادھ موئے ہوئے ہوئے تھے۔
کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک سال کے اندر اندر ان کی حالت اتنی ابتر ہو
جائے گی۔
’’حقیقت بھی یہی ہے بیٹا! ہم سب اﷲ ہی کے تو ہیں۔ ہمیں جس حال میں چاہے
رکھے۔ ہمارے ساتھ جو چاہے سو کرے۔ ہم اسی کے پاس واپس جانے والے ہیں۔ ‘‘
’’ وہ ہمیں ہمارے صبر کا پھل دے گا۔‘‘
ہر ایک ذولفقار کے ابو سے حال چال پوچھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر بے سود……
آخر کار سب لوگ ذولفقار سے اجازت لے کر رخصت ہوئے۔ حسن اپنے دادا کو لے کر
ریلوے اسٹیشن کی طرف تیز تیز گاڑی دوڑانے لگا۔
’’بابا! تھوڑی ز یادتی ہو گئی آج……‘‘ ۔ حسن کے ابو نے دادا جی سے مسکراتے
ہوئے پوچھا۔ وہ ان کے اِنا ﷲ پڑھنے کے بارے میں کہہ رہے تھے۔
مگر دادا جان کا چہرہ نہایت سنجیدہ تھا۔ وہ گہرائی سے اپنے ذکر میں ڈوبے
ہوئے تھے۔ انہوں نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں اوربھاری سی آواز میں کہا۔
’’میں نے ذولفقار کے والد کی موت کو ، اس کے گھر میں آتے ہوئے دیکھا
ہے……واﷲ العلم‘‘۔
سب کے دل تیز تیز دھڑکنے لگے۔ |