قانون کی حکمرانی

قانون کی حکمرانی ختم ہوجائے تو معاشرے میں انارکی جنم لیتی ہے۔ جس میں کوئی قاعدہ اور قانون نہیں رہتا۔ بڑے بڑے گروہ اپنے مطالبات کے حق میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیئے کہ یہ گروہ اپنے طور پر یہ فیصلہ بھی کرچکے ہوتے ہیں کہ وہی حق بجانب ہیں۔ ملک بھر میں اب ایسے گروہ منظم ہیں جو غلط مطالبات پر احتجاج اور شور کرتے ہیں۔ یہ گروہ نہ صرف مجرموں کی حمایت کرتے ہیں بلکہ ان کے مطالبات کو بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کوئٹہ میں پولیس اہلکاروں نے اپنے مطالبات کے حق میں جلوس نکالا اور قانون کے رکھوالوں نے قانون کے منافی اقدامات کئے۔ ایسا ہی جرائم پیشہ افراد کا اجتماع اس وقت دیکھنے میں آیا جب ہاکس بے پر منشیات اور شراب نذر آتش کرنے کے موقع پر لوٹ مار کا واقعہ پیش آیا۔ جس میں قانون کے رکھوالوں کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ لوٹ مار کرنے والے گروہ کے لوگ لاٹھیاں، مال غنیمت جمع کرنے کے لئے تھیلے اور دیگر سامان ساتھ لے کر آئے تھے۔ یوم عاشور کے موقع پر کراچی میں بولٹن مارکیٹ اور اس کے نواح میں جلاﺅ گھیراﺅ، لوٹ مار کے جو واقعات پیش آئے وہ بھی منظم کاروائی تھی۔لیاری آپریشن میں جو لوگ پکڑے گئے، ان کے خلاف بھی کوئی کاروائی کرنے کے بجائے انھیں احتجاج کے نتیجے میں رہا کردیا گیا۔ یوم عاشور کے موقع پر جو گرفتاریاں ہوئیں ان میں سے بھی بہت سے افراد کو ایسے ہی احتجاج پر رہا کردیا گیا ہے۔ پاکستان میں لاقانوینت اور کرپشن کا ناسور پھیلتا جارہا ہے۔ بدعنوانی کی شکایات پر وزیراعظم نے کچھ عرصہ پہلے ایک کمیٹی بنائی تھی۔ جس کی سربراہی وزیر خزانہ شوکت ترین کررہے تھے۔ اس کمیٹی کو نہ صرف ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی اس رپوٹ کا جائزہ لینا تھا جو بدعنوانی سے متعلق تھی بلکہ اس کا اصل کام بدعنوانی کے اسباب کا تعین اور تدارک کے طریقے طے کرنا بھی تھا۔ لیکن اب تک اس سلسلے میں پیش رفت نہ ہوسکی۔ اس وقت ملک میں بدعنوانی کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔ خاص طور پر سرکاری محکموں میں۔ کسی بھی ادارے کو دیکھ لیجیے بدعنوانی کے دفتر کے دفتر نکل آئیں گے۔ اخبارات میں آئے دن انکشافات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ایسی خبر کم ہی آتی ہے کہ بدعنوانوں کو سخت سزا دی گئی ہو۔ پاکستان اسٹیل اور پنجاب بنک اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ بدعنوانی کے خلاف کاروائی کرنے والوں کے اپنے ہاتھ صاف نہیں ہوتے۔ رشوت لینے میں کوئی پکڑا بھی جاتا ہے تو رشوت دے کر چھوٹ جاتا ہے۔ چینی، بجلی، پیٹرول، اور اب نیا اسکینڈل رینٹل پاور کا سامنے آیا ہے۔ جس میں بجلی کا مسئلہ تو بدستور قائم ہے۔ کوئی کام نہ ہونے، اور بجلی فراہم نہ ہونے کے باوجود سوا پانچ ارب روپے کرائے کے بجلی گھروں کو دئے گئے ہیں۔ یہ فیصلہ کس کا تھا اور اس کا فائدہ کس کو پہنچا ہے اس پر کوئی تحقیق ہونی چاہئے۔

پیڑول کی قیمتوں میں جو لوٹ مار ہے۔ اور عوام کو جس طرح لوٹا جارہا ہے۔ وہ بد دیانتی کی انتہاء ہے۔ اب یہ خبر آئی ہے کہ ٹی وی کی لائسنس فیس جو بجلی کے بلوں کے ساتھ لی جا رہی تھی۔ اس میں خاموشی سے دس روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں نہ صارفین کو بتایا گیا۔ نہ کوئی اعلان ہوا۔ بس خاموشی سے کٹوتی کرلی گئی۔ وہ بھی مالی سال کے درمیان۔ چینی کے بحران کی بنیاد بدعنوانی ہے جس میں شوگر مل مالکان‘ ذخیرہ اندوز اور انتظامیہ ملوث ہیں۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ چینی کے کارخانوں کے بیشتر مالکان سیاستدان اور بااثرافراد ہیں۔ جب دوسرے یہ دیکھتے ہیں کہ بدعنوانی کرنے والے عیش کر رہے ہیں‘ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور ان کا کچھ نہیں بگڑا تو ان کو بھی حوصلہ ہوتا ہے کہ وہ بھی یہ سب کچھ کریں اور آئندہ پھر کسی این آر او جیسے قانون سے فائدہ اٹھالیں۔ بات یہ ہے کہ جب قانون شکن اور بدعنوان افراد ہی کی حکومت ہو تو ملک میں ہر طرف بدعنوانی اور انارکی پھیلے گی۔ ماضی میں ہماری عدالتوں کا جو کردار رہا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ لیکن اب عدالتیں قانون کی حکمرانی کے لئے کام کر رہی ہیں۔ اگر حکومت ہر شعبہ میں صرف اہلیت کو مدنظر رکھے اور قانون کا احترام کرے تو بدعنوانی اور لاقانونیت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مگر ستم یہ ہے کہ یہی کام نہیں ہورہا اور حکمران اپنا اقتدار بچانے کے لیے اہلیت یا میرٹ کو قربان کرنے پر مجبور ہیں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 389974 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More