گزشتہ دنوں عالمی افق پر دو
مشہور شخصیات بدعنوانی کے مقدمات میں گرفتار ہوئیں۔ پہلا واقعہ اٹلی کا ہے
جہاں فاسٹ ویب کے بانی ارب پتی سیلویواسگالیا کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔
ملک واپسی پر انہیں ان کے ذاتی جیٹ طیارے سے سیدھا جیل لیجایا گیا۔ ان پر
غیر قانونی طور پر بھاری رقوم ملک سے باہر لیجانے کا الزام ہے۔ دوسرا واقعہ
تھائی لینڈ کا ہے جہاں سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم تاکسن سینا واٹرا کے
ایک اعشاریہ چار بیلین کے اثاثے منجمد کردیئے ہیں۔ ان پر ایک خاندانی کمپنی
کی ملکیت کو غیر قانونی طور پر چھپانے اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کے
الزامات ہیں۔ ایسی میڈیا رپورٹ بھی سامنے آئی ہیں۔ جن سے اس بات کا اظہار
ہوتا ہے کہ بین الاقوامی برادری میں اعلیٰ سطح پر ہونے والی بد عنوانی کے
واقعات پر تشویش پائی جاتی ہے۔ بی بی سی سے باتیں کرتے ہوئے کرشیاء کے صدر
آئیو جوزفک کا کہنا ہے کہ کروشیا میں کرپشن ایک طرز زندگی بنتا جارہا ہے۔
یہ ہمارے ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہے، نہ صرف یہ کہ ان لوگوں نے ملک کی
کچھ دولت اور جائیداد ہتھیا لی ہے۔ لیکن ایک اور بات بھی ہے کہ یہ لوگ
سیاسی طور پر بااثر ہوگئے ہیں۔ کروشیا میں گزشتہ عرصے میں بہت سے سینیئر
افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ملک کو کرپشن سے پاک کرنے اور اس
کے امیج کو بہتر بنانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ روس کے صدر بھی ان دنوں کرپشن
سے نبرد آزما ہیں۔ تاکہ ملک کی تیز رفتار اقتصادی ترقی میں حائل رکاوٹیں
دور کی جاسکیں۔
۸۰۰۲ میں صرف چھ ماہ کے عرصے میں ساڑھے چار ہزار کرپشن کے مقدمات کا جائزہ
لیا گیا۔ تقریباً ۵۳۲ وفاقی اور مقامی افسران اور سات سو قانون پر عملدرآمد
کرنے والے افسران کو سزائیں دی گئیں۔ ان اعداد شمار سے اندازہ کیا جاسکتا
ہے کہ روس میں کرپشن کس طرح سرائیت کر گئی تھی۔ اس کرپشن کو روکنے کے لئے
ہر سطح پر کوشش کی گئی۔ قوانین بنائے گئے۔ عدالتی نظام میں تبدیلیاں لائی
گئیں۔ چین میں پارٹی کے طاقتور سیکریٹری اور پولٹ بیورو کے رکن چنگ لیان یو
کو ۶۰۰۲ میں کرپشن کے الزامات پر برطرف کردیا گیا، اس سال بھی سولہ اعلیٰ
افسران کو سزائیں دی گئی ہیں۔ اور تطہیر کا یہ عمل جاری ہے۔ بھارت میں بھی
کرپشن کے واقعات پر بہت لے دے ہو رہی ہے۔ اور کرپشن میں ملوث افراد کو کہیں
پناہ نہیں مل رہی ہے۔ کرپشن میں ملوث سیاستدانوں اور بیورو کریٹ کو آج کل
ساری دنیا میں جس نفرت اور حقارت کا سامنا ہے۔
اس کا کچھ عکس ہمارے یہاں بھی ملتا ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں مغرب نے اپنے
پسندیدہ جرنیلوں کے کرتوں سے اغماض برتا ہے۔ جنرل سوہارتو انڈونیشیا اور
پنوشے چلی اس کی واضح مثالیں ہیں۔ لیکن آج ان پر بھی مقدمات چلانے کی بات
ہو رہی ہے۔ جبکہ یہ بیماری اور بڑھاپے کو سہارا بنا کر اس سے بچنے کی کوشش
کر رہے ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد فوجی سامان کی خریداری میں جو کمی آئی
ہے۔ اس نے اسلحے کا کاروبار کرنے والوں کو تیسری دنیا کی جانب راغب کردیا
ہے۔ جو اسلحے کی خریداری میں بھاری کمیشن اور کک بیک دیتے ہیں۔ یوں انہیں
زیادہ قیمت پر ناقص اسلحہ ٹھکانے لگانے کو موقع میسر آتا ہے۔ ایک اندازے کے
مطابق اسلحے کی بین الاقوامی تجارت میں ہر سال دو اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کی
رشوت دی جاتی ہے۔ رشوت اور بد دیانتی کے ان واقعات نے معاشروں کو تباہ
کردیا ہے۔ امیر اور بااثر افراد کی دولت کے ڈھیر روز بروز بڑھ رہے ہیں۔
جبکہ غریب اور پسماندہ طبقے دن بدن کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان بھی ان
بدقسمت ملکوں میں سے ایک ہے جہاں کرپشن نے ڈھیرے ڈال رکھے ہیں۔ ہر سال
سالانہ بجٹ کا بڑا حصہ کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے۔ کرپشن اس ملک میں سائنس اور
کاروبار بن گئی ہے۔ اب ان جرائم کو بے نقاب کرنا اس قدر آسان نہیں رہا۔
لیکن جرم کے سیاہ داغ کہیں نہ کہیں نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ پاکستانی عوام میں
بیداری کی لہر انگڑائی لے رہی ہے۔ اور ان واقعات پر آوازیں اٹھتی ہوئی نظر
آتی ہیں۔ عوامی شعور کا امتحان آنے والے بلدیاتی انتخابات ہیں۔ جن میں عوام
کو کرپشن کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ |