دعوۃ اکیڈمی کی قادیانیت نوازی اور چند ضروری گزارشات

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

دعوۃ اکیڈمی فیصل مسجد اسلام آباد کے ایک کورس کے شرکاء کو چناب نگر کا دورہ کروایا گیا ۔اس دورے کے حوالے سے ان دنوں خوب گرما گرم بحث مباحثہ جاری ہے ۔اس بحث مباحثہ کے حوالے سے چند اصولی باتیں پیش خدمت ہیں ۔

دعوۃ اکیڈمی فیصل مسجد اسلام آباد میں واقع ہے اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا ذیلی ادارہ ہے ۔اس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر یوسف الدریویش ہیں جو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بھی صدر ہیں ۔دعوۃ اکیڈمی بلاشبہ وطن عزیز کا ایک موقر ترین ادارہ ہے جس نے ائمہ وخطباء کی تربیت اور مختلف کورسز کے اہتمام ، لٹریچر کی تیاری ،ورکشاپس اور سیمینارزکے انعقاد سمیت دیگر گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں لیکن کچھ عرصے سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ذیلی اداروں میں پے درپے عجیب وغریب واقعات رونما ہو رہے ہیں ۔فیصل مسجد میں اسرائیلی ثقافت کا پرچار کرنے والے اسٹال کا قصہ ابھی بہت پرانا نہیں ہوا کہ قادیانیت نوازی کا یہ نیا سوانگ رچایاگیا ۔اس کے علاوہ بھی کئی واقعات ہیں جو روشن خیالی کے نام پر اس ادارے میں اوپر تلے وقوع پذیر ہو رہے ہیں ۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ جب سے سعودی عرب سے ڈاکٹر یوسف الدریویش تشریف لائے تو ان کے بارے میں یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ان کی سربراہی میں یونیورسٹی کا ماحول بہتر ہو گا،تعلیمی اور تربیتی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی اور یونیورسٹی کا امیج اچھا ہوگا لیکن بدقسمتی سے ڈاکٹر یوسف کے گرد کچھ ایسے لوگوں نے گھیراڈال لیا جو ان کے کان میں مسلسل عجیب وغریب منترپھونک پھونک کر یونیورسٹی کا حلیہ بگاڑنے میں مصروف ِعمل ہیں۔یہی وہ گمراہ کن لابی ہے جس نے کچھ عرصہ قبل بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدرجناب یوسف الدریویش اور ریکٹر جناب ڈاکٹر معصوم یسین زئی کے درمیان خطرناک قسم کے اختلافات کی خلیج حائل کروائی اور حالات اس قدر خراب ہوئے کہ صدر پاکستان جناب ممنون حسین کو مداخلت کرناپڑی اور ایوان صدر میں ان دونوں شخصیات کے درمیان ظاہری افہام وتفہیم کروائی گئی ۔اس کے علاوہ بھی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے حوالے سے بہت سی کہانیاں گردش کر رہی ہیں جنہیں کسی اگلے موقع پر اٹھا رکھتے ہیں اس تحریرمیں ان سب کہانیوں کی گنجائش نہیں تاہم یہاں یہ بات واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ایک ایساادارہ ہے جسے بلاشبہ پاکستان کے ماتھے کا جھومر اور پاکستان کے لیے ایک اثاثہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔اس کے صدر ذی وقار صاحب ِعلم اور خوش اخلاق انسان ہیں لیکن پردیسی ہونے کے باعث وہ اپنے گرد جمع ہونے والی خوشامد کرنے والی لابی پر انحصار اور اعتماد کرنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جبکہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یسین زئی سے لے کر ڈی جی جناب گلزار خواجہ تک اور قدیم اساتذہ کی بڑی تعداد بلاشبہ بہت ہی مخلص ،درد دل رکھنے والے اہل علم پر مشتمل ہے لیکن کسی خطرناک سازش کے تحت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کو مسلسل ایسی دلدل میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی جس کی وجہ سے یونیورسٹی اور ا س کے متعلقہ اداروں کا امیج بھی خراب ہواور وہ بلاوجہ متنازعہ بن کر اپنا مقام کھوبیٹھیں اس لیے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اور اس کے متعلقہ اداروں کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ بروقت اس صورتحال کا نوٹس لیں اور اس اہم ترین ادارے کو تباہ کرنے کی سازشوں کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں ۔

دعوہ اکیڈمی کے کورس کے شرکاء کے دورہ چناب نگر کے حوالے سے جو دوسری بات عرض کرنی ہے وہ ہمارے دوست اور تحریک ختم نبوت کی فعال شخصیت جناب سہیل باوا صاحب نے بہت ہی خوبصورت انداز میں فرما دی ہے اس لیے انہی کے الفا ظ پیش خدمت ہیں ’’گزشتہ دنوں بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے ذیلی ادارے دعوۃاکیڈمی کی جانب سے طلبہ کے وفد نے چناب نگر میں قادیانیوں کے مرکز کا دورہ کیا،اس دورے نے مختلف مباحثوں کو جنم دیا،ایک طبقے نے طلبہ کے دورے پرزبردست تنقید کی جبکہ بعض حلقوں کی جانب سے کہا گیا کہ سماجی روابط کی بحالی ایک خوش آئند اقدام ہے، اس سے قادیانیوں کی نئی نسل سے مکالمے کا موقع ملے گا۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ دونوں مکتبہ فکر مبالغے اور مغالطے کا شکار ہیں، سماجی رابطوں کی بحالی ہونا چاہیے مگر یہ رابطے نوخیز طلبہ کے ذریعے نہیں بلکہ ان علماء کے تحت ہونے چاہیں ، جوماضی میں احمدیوں کے مکروفریب سے آگاہ رہے ہیں،اگر سماجی رابطے کی یہ روایت فروغ پاگئی اور عوامی سطح پر اس سلسلے کو مقبولیت ملی تو اس بات کا گمان ہے کہ قادیانی پھر سے اپنی سازشیں شروع کردیں گے، وہ سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے اسی موقع کے انتظار میں ہیں کہ سماجی رابطوں کے نام پران کو تبلیغ کی اجازت ملے۔اگر قادیانی مکالمہ چاہتے ہیں تو ہم مکالمے کے لیے تیار ہیں، اگر قادیانی مباحثہ چاہتے ہیں تو ہم اس کے لیے بھی حاضر ہیں مگر ہم اس بات کی قطعا اجازت نہیں دے سکتے کہ مکالمے کے نام پر نوخیز ذہنوں کو ورغلایا جائے، مکالمہ ان سے کیا جاتا ہے جو موضوع پر مکمل دسترس رکھتے ہوں، عوامی سطح پر سماجی رابطے محض گمراہی کو فروغ دیں گے‘‘

اور تیسری بات یہ عرض کرنی ہے کہ رد قادیانیت اور قادیانیت کے تعاقب کا جو عمل اﷲ رب العزت کے فضل وکرم سے بہت کامیابی سے جاری ہے اور یقینا تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں کی اس حوالے سے گرانقدر خدمات ہیں لیکن بہرحال اس ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قادیانیوں کا وہ نوخیز اور تعلیم یافتہ طبقہ جسے ہمیشہ تصویر کا ایک رخ دکھایا گیا ،جس کی آنکھوں پر کھوپچے چڑھا کر انہیں مسلسل ایک خاص فکر دی گئی اور انہیں آزادانہ ماحول میں سوچنے ،سمجھنے ،بات کرنے اور تبادلہ خیال کا موقع ہی مہیانہیں کیا گیا تحفظ ختم نبوت محاذ پر کام کرنے والے علماء کرام اور مبلغین قادیانی مربیوں سے مباحثے اور مناظرے نہیں بلکہ قادیانی نوجوانوں سے مکالمے اور تبادلہ خیال کی روایت از خود شروع فرمادیں اور اس محاذ کو بھی نہ صرف یہ کہ وہ خود اوپن کریں بلکہ اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ تحفظ ختم نبوت محاذ کی کوئی قدآور شخصیت یا نامی گرامی ہستی یہ کام کرے مولانا زاہد الراشدی جیسے خوش مزاج بزرگ جو بچوں کے ساتھ بچے اور جوانوں کے ساتھ جوان ہوتے ہیں ان کی خدمات حاصل کی جائیں یا ایسے نوجوانوں کو مطالعہ اور تیاری کروائی جائے جو بھٹکے ہوئے قادیانی نوجوانوں کے ساتھ انہی کی زبان ،انہی کے محاورے اور بے تکلفی کے ماحول میں مکالمہ کرسکیں ۔مولانا سہیل باوا کے حلقہ احباب میں ایسے بہت سے ہیرے موجود ہیں ،برادرم قاضی احسان احمد نے کراچی میں کئی جوان تیار کررکھے ہیں ،گرامی قدر جناب حاجی عبداللطیف خالد چیمہ کے ارد گرد ایسی ایک کھیپ موجود ہے ،برادر گرامی جناب طاہر عبدالرزاق کے خط وکتابت کورسز کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں سے بہت سا کام لیا جاسکتا ہے ،حضرت مولانا محمد حسن صاحب کی سربراہی میں سرگرم عمل پاسبا ن ختم نبوت لاہور کے نوجوانوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔اگر کسی بھی مستنداور موقر فورم سے اس کارِ خیر کا آغاز ہو جاتا ہے تو انشااﷲ بہت سے قادیانی دھڑادھڑ دائرہ اسلام میں داخل ہوں گے اور آنے والے چند برسوں میں اس کے بہت واضح اثرات اور نتائج محسوس کیے جاسکیں گے ۔انشااﷲ

Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 130079 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.