ہاتھ میں گلاب آنکھ میں آنسو

"بہادروں کا انتقام بھی مجھے پیارا ہے جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔"یہ قول بلوچ قوم کی ہیرو میر چاکر خان رند بلوچ کا ہے۔میر چاکر رند کو ایک شخصیت یا ایک نام کے طور پر یاد نہیں رکھا جا تا بلکہ چاکر اعظم کی پوری شخصیت بلوچوں کی تہذیب و ثقافت ، تاریخ و تمدن ، معیشت و معاشرت ، اخلاق و عدات ، بہادری و جوانردی ، جوش و غفتار و کردار ، ایثار و قربانی ایفائے عہد اور انتقام کا نام ہے۔میر چاکر کے بعد بلوچ قوم میں یکجہتی کا مظاہرہ کم دیکھنے میں آیا ہے ، میر چاکر خان رند بلوچ کا دور بلوچوں کے عروج اور خوشحالی کا دور تھا اور آج بھی بلوچ قوم کا اجتماعی طور پر ہیرو میر چاکر رند ہی ہے۔ چاکر اعظم کے متعدد قول بڑے مشہور ہیں ، جیسے "سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری ہے۔"ایک قول یہ بھی بہت مشہور ہوا کہ"مرد کا قول اسکے سر کے ساتھ بندھا ہے"۔

ہم کسی بھی قوم کی ثقافت کو اس کے اسلاف کے کارناموں سے بخوبی جان سکتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی تشکیل چند سالوں میں وجود میں نہیں آتی بلکہ اس کے لئے سینکڑوں ،ہزاروں سال کا ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ تاریخ میں بلوچ خود کو حضرت امیر حمزہ کی اولاد سے قرار دیتے ہیں جو عرب میں ایک بہادر اور جری شخص کے طور پر جانے جاتے تھے جبکہ ان کا خاندان بھی کسی تعارف کامحتاج نہیں تھا، شاید یہی ہے کہ عربی النسل ہونے کے ناطے بلوچوں میں بہادری اور شجاعت کا عنصر ہونے ساتھ ساتھ عربوں کے رسم و رواج بھی موجود ہیں۔ بعض محقق بلوچ کو آریائی نسل سے قرار دیتے ہیں جو کوہ البرز کے شمالی علاقوں میں رہتے تھے ، بعض اسکالرز کے مطابق بلوچ کیسپیئن کے ساحلی علاقہ سے ایران منتقل ہوئے ، فردوسی کے شاہنامہ میں بلوچوں کا نمایاں ذکر ملتا ہے ۔بلوچ لفظ کے بارے میں بھی مخلتف آرا ہیں ، ممتاز تاریخ دان ہزر فیلڈ کی رائے ہے کہ یہ لفظ مدین کے علاقہ کا لفظ ہے جو برزاوک سے نکلا ہے جس کے معنی بلند چیخ ہے۔ جبکہ بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ بلوچ لفظ بابل کے مشہور بادشاہ بیلوس سے مناسبت رکھتا ہے جبکہ بعض تاریخ دان لفظ بلوچ کو سنسکرت کے دو الفاظوں سے مل کر بننے کو مانتے ہیں بل یعنی طاقت اور اچ یعنی بلند ۔ اس کے علاوہ بھی مختلف تاریخ دانوں کی آرا ہیں جس کے لئے یہ صفحات کم ہیں۔ تمام آرا میں بلوچوں کی ایک قدیم نظم کے مواد کو معتبر مانا جاتا ہے کہ بلوچ امیر حمزہ رضی اﷲ تعالی عنہ کی اولاد سے ہیں اور حلب سے آئے انھوں نے کربلا میں حضرت امام حسین کا ساتھ دیا تھا اور ان کی شہادت کے بعد وہ بامپور یا بھمپور پہنچے اور وہاں سے سیستان اور مکران آئے۔ وادی حلب سے چلنے والی یہ قوم جب سیستان سے ہوتی ہوئی یہاں وارد ہوئی تو ماحول اور علاقائی صورتحال میں یہ دو شاخوں میں تقسیم ہوگئی جن میں سے ایک سیلمانی اور ایک مکرانی کہلواتے ہیں ۔بلوچستان میں تین بڑی قومیں ، بلوچ ، پشتون اور براہوی آباد ہیں ، بلوچی زبان بولنے والے بڑے قبائل میں رند ، لاشار ، مری ، جموٹ ، احمد زئی ، بگٹی ، ڈومکی ، مگسی ، خوسہ ، پاک پاشانی ، دشتی ، عمرانی ، نوشروانی ، گچکی، بولیدی ، سنجرانی اور خیدائی شامل ہیں جبکہ یہ قبائل مزید چھوٹے قبائل میں بھی تقسیم ہوچکے ہیں۔براہوی زبان بولنے والے بلوچوں میں رایسانی، شاہوانی، سومولائی ، بنگزائی ، محمد شاہی ، لہری ، بزنجو ، محمد حسنی، زارکزئی یا زہری ، مینگل اور لینگو قبائل شامل ہیں۔یہ قبایل براہوی بولتے ہیں مگر ان میں بیشتر بیک وقت بلوچی اور براہوی بھی بولتے ہیں۔ پشتو زبان بولنے والے بلوچوں میں کاکڑ ، گلزائی ، ترین ، مموخیل ، شیرانی ،لیونی اور اچکزائی بڑے قبائل ہیں۔بلوچ قوم بھی پختونوں کی طرح اپنے فیصلوں کے لئے ایک جرگہ کا نظام رکھتی ہے۔بلوچستان میں بھی عمومی فیصلے شریعت کے مطابق طے کئے جاتے رہے ہیں ۔ اس نظام عدل کو 1970میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحیی خان نے منسوخ کردیا لیکن اس کے باوجود بھی قبائل میں نوے فیصد فیصلے جرگے کے مطابق ہوتے رہے۔

بلوچستان میں حکومت کی جانب سے علیحدگی پسندوں کو عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے پہاڑوں سے واپس آکر معاشرے کا با مقصد فرد بننے کی پیش کش کی گئی۔بلوچستان کی اپیکس کمیٹی نے کہا کہ جو نوجوان ریاست کے خلاف مسلح کاروائی ترک کرنے کا یقین دلائیں ان کو عام معافی دی جائے گی۔بلوچ قوم کی اپنی ایک تاریخ و ثقافت ہے اور آج کل بلوچستان جن مسائل سے گزر رہا ہے اس سے ملک دشمن قوتیں بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں جہاں فرقہ وارانہ خانہ جنگی کی سازش کی کوشش کی جاتی رہی ہے تو دوسری جانب ایسے اقدامات بھی ہوتے رہے ہیں کہ عوام میں سیکورٹی اداروں کا اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ لاپتہ افراد کے مقدمات سمیت پاکستان سے باہر بیٹھے بلوچ رہنماؤں پر سنگین الزامات اور بھارت کی دخل اندازی نے بلوچستان کے مسئلے کو گھمبیر بنا دیا ہے۔اپیکس کمیٹی کی جانب سے بلوچستان میں امن کے لئے ایک فارمولہ ترتیب تو دیا گیا ہے کہ مدراس کی رجسٹریشن ،محکمہ تعلیم کے توسط سے مکمل کیا جائے گا جبکہ اہم مسئلہ افغان مہاجرین کا ہے جن کی تیسری نسل بلوچستان میں پروان چڑھ رہی ہے۔بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کا اثر رسوخ اور پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات بھی اہم سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔

اپیکس کمیٹی کی جانب سے مدارس کی رجسٹریشن کیلئے محکمہ تعلیم کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز دی گئی ہے لیکن اس حقیقت کو کوئی فراموش نہیں کرسکتا کہ بلوچستان میں کام کرنے والے اساتذہ ، طلبہ کو مختلف حملوں میں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ہومین رائیٹس واچ اپنی ایک رپورٹ میں کہہ چکی ہے کہ بلوچستان میں انارکی کا شکار علاقوں کی ابتر صورتحال کے سبب اساتذہ اور پروفیسرز یا تو صوبے کے نسبتاََ محفوظ مقامات پر اپنا تبادلہ کرواچکے ہیں یا پھر انھوں نے صوبہ ہی چھوڑ دیا ہے۔دیکھا جائے تو 1947ء سے آج تک بلوچستان میں آپریشن کیا جارہا ہے ، ریاست قلات کی شمولیت کے بعد سے کئے جانے والوں معائدوں پر عمل درآمد نہ کئے جانے کے سبب حالات مسلسل ابتری کی جانب رواں ہیں۔15جولائی1960ء میں سردار نوروز خان ، ان کے بیٹوں بھتجوں اور ساتھیوں کو پھانسی دی گئی ۔ ایف سی پاک فوج کامعتبر ادارہ ہے اور پاک فوج کے ساتھ سیکورٹی ایشوز پر مسلسل رابطے میں ہے لیکن ماضی میں سیاسی بنیادوں پر بلوچستان کی مسئلے کو حل کرنے کی ہر کوشش کسی نہ کسی وجہ سے ناکام ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ آج ڈی جی ایف سی ، وزیر اعلی سے زیادہ طاقتور مانے جاتے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو برملا کہتے ہیں کہ بلوچستان میں آج کے جمہوری دور میں بھی احکامات صرف فوج کے مانے جاتے ہیں۔میر حاصل بزنجو کے مطابقـ" اسٹبلشمنٹ نے اپنا ذہن بنا لیا ہے کہ اگر صوبوں کو آئینی حقوق اور خود مختاری دی گئی تو پاکستانی وفاق باقی نہیں رہے گا۔"

پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں بشمول مسلم لیگ ن بلوچستان کے وسائل اور دولت کے بارے میں کماحقہ آگاہ ہیں لیکن بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ کوششوں کی انتہائی ضرورت ہے۔ خاص طور پر جب بھارت پاکستان میں کھلے عام دخل اندازی کرکے شر پسندوں کے ہاتھوں پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کی جانب سے کشمیر ی تنظیموں کو بھارت کی جانب راغب کرنے کیلئے فنڈز دینے کا اعتراف سامنے آچکا ہے۔ پاکستان کے بے امن علاقوں میں را کی شر انگیز مسلح مداخلت اب کوئی راز نہیں۔ سندھ سے لیکر بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے افغانستان تک بھارت کی شر انگیز سازشیں پردہ راز نہیں رہی۔ ان تمام صورتحال میں بلوچوں کی ثقافت وروایات اور خاص طور جرگوں کے فیصلوں کی اہمیت کے پیش نظر بلوچستان کے بعض سورش زدہ علاقوں میں امن کے قیام کیلئے سنجیدہ کوششیں ہی پاک ، چاینا اقتصادی راہدری منصوبے کو کامیاب بنا سکتا ہے۔

بلوچ قوم اور پشتون قوم بلوچستان میں مستقل قیام کیلئے اپنی ثقافت اور روایات کے پیش نظر اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مسخ شدہ لاشیں ، اغوا برائے تاوان، پنجابیوں اور دیگر قومیتوں و مسالک کے افراد کے خلاف نفرتیں، بلوچستان کے وسائل پر ان کے باشندوں کا حق ، فوری اور سستا انصاف مہیا کرنے سمیت تمام مسائل کے حل کیلئے ہمیں ہزاروں سال پر محیط ان قوموں کی راویات و ثقافت کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ عسکری قیادت بخوبی جانتی ہے کہ ہر جنگ کے بعد مسئلے کا حل مذاکرات سے ہی نکلتا ہے لہذا وہ نوجوان جو ریاست کے خلاف مسلح کاروائی ترک کرنا چاہتے ہیں انھیں عام معافی کے اعلان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انھیں قومی دھارے میں شامل ہوکر اپنی قوم کی خدمت کیلئے ازسر نو نئے بلوچستان کی بنیاد پاکستان کی اندر رہتے ہوئے ہی رکھنی ہوگی۔پاکستان کے حصار میں ہی بلوچستان کی بقا اور ان کی عوام کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 662001 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.