دنیا جو کہ بے شمار مذاہب و ملت کا ایک مجموعہ ہے اور ہم
بھی انہی میں سے ایک ملت ہیں اور ایسی ملت ہیں کہ جس کا ماضی کا میابی و
کامرانی کا منہ بولتا ثبوت ہے مگر جس کا حال انتہائی بے حال ہے وہ ملت جو
کبھی علم و عرفان کا واحد منبع تھی دنیا کے نقشے پر اگر آپ نظر دوڑایں تو
مراکش کے صحرا سے لیکر جاوا تک اہلِ اسلام کی قطار ہے فارایسٹ سے ویسٹ
انڈیز تک کئی مسلم ریاستیں ہیں۔شرق الہند ہو یا غرب الہند ہر جگہ پر
مسلمانوں کے قدموں کی دھمک ہے ۔
تہذیب مسلم کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ یہ عمارت بہت عظیم تھی مسلمان کم و بیش
ایک ہزار سال تک ایک بڑی طاقت بن کر رہے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے
طبیعات ، ریاضی ،فلکیات اور کیمیا میں نئی راہیں ایجاد کیں۔ جن سے آج پورا
مغرب اور ساری دنیا استفادہ کر رہی ہے مسلمانوں نے سب سے زیادہ تحقیق
طبیعات میں کی 1000 عیسوی میں عرب ڈاکٹروں نے ناک اور کان کی ہڈیاں جوڑیں،
آنکھوں کی جھلی صاف کی اور زخم صاف کئے ان کی مسلسل علمی جدوجہد، کوششوں،
اور تجربات سے انسانی جسم کے مختلف اجزاء کو سمجھا اور ان کا اعلاج دریافت
کیا اسی سنِ عیسوی میں الراضی نے خسرہ کی بیماری کو دریافت کیا اور اس کا
اعلاج بھی دریافت کیا سن1200 عیسوی میں جگر کا سسٹم دریافت کیا آپ کہ سکتے
ہیں کہ آج کی ادویات کا سارا علم مسلمانوں کی کی ہوئی تحقیق و علم پر مبنی
ہے اسلام کا ادویات میں سب سے بڑا فلاسفر ابن سینا تھا، جس نے ادویات کا
علم مختلف زبانوں میں مختلف ممالک سے حاصل کیا اور ان کو ایک کتاب میں جمع
کیا یہ کتاب اس وقت ادویات میں پوری دنیامیں سب سے ذیادہ اہمیت رکھتی تھی
اور پوری دنیا کے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی تھی بلکہ آج بھی
یہ کتاب پاکستان، ایران۔ اور کئی دوسری ممالک میں میڈیسن کے نصاب میں شامل
ہے دوسری طرف علم کے ساتھ ساتھ اس دور کے جدید دواخانے اور ہسپتال چلانے کے
بھی ماہر تھے۔ بغداد میں اس زمانہ میں دنیا کا سب سے بڑا اور سہولیات سے
لیس ہسپتال بھی مسلمانوں کا تھا جہاں دنیا بھر سے حصول علم سے لئے لوگ آتے
تھے یہی نہیں بلکہ ایک وقت تھا کہ ساری دنیا کے طلباء مختلف عصری علوم فنون
کی تحصیل کے لئے بھی اسلامی ملکوں کا ہی سفر کرتے تھے اس لئے کہ مسلمان ہی
ریاضی و فلسفہ اور جغرافیہ وغیرہ اور عصری علوم کے امام تھے ۔ آب پاشی و
کاشت کاری جہاز سازی و قلعہ بندی ، جنگی بیڑے و توپ سازی میں وہی سب سے آگے
تھے چنانچہ ’’ الجبرا‘‘ میں خوارزمی ’’ کیمیا‘‘ میں ابو جعفر کوفی ’’ ہیئت‘‘
میں احمد بن محمد ’’تاریخ‘‘ میں ابن خلدون ’’ جغرافیہ ‘‘ میں ادریسی ’’ طب‘‘
میں بو علی سینا ’’جراحت‘‘ میں ابن ارشد اور الیقاسیس وغیرہ کا ذکر کئے
بغیر ذکر کئے بغیر مذکورہ فنون نا تمام رہ جاتے ہیں اسی طرح مختلف سائنسی
آلات و ایجادات کا صحرا بھی مسلمانوں کے سر جاتا ہے چنانچہ ناسا کے ہیڈ
کوارٹر میں شیرِ میسور ٹیپو سلطان کا مجسمہ اولین راکٹ کے موجد کی حیثیت سے
نصب کیا گیا اسی طرح خورد بین کی ایجاد اصلاً ابوالحسن نے کی گھڑی کی ایجاد
بھی ایک مسلمان نے کی ۔
علم و حکمت تدبیر و سیاست اور دولت و حشمت میں کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں
کر سکتی تھی وہ پوری دنیا پر حکومت کر رہے تھے یہ بادشاہی خدا نے دی تھی
اور خدا نے ہی ان سے چھین لی ہے قوموں کے عروج و زوال کے بارے میں خدا کا
قانون یہ ہے کہ وہ سرفرازی کے لئے تو جسے چاہتا ہے اپنے قانون کے مطابق
منتخب کر لیتا ہے تو اس کی یہ حالت اسی وقت تبدیل کرتا ہے جب علم و اخلاق
کے لحاظ سے پوری طرح پستی میں گرا دیتی ہے ۔ پس خدا کے قانون کے مطابق ایسا
ہی ہوا ہم لوگ جو کہ کبھی علوم کے امام گردانے جاتے تھے علم سے غافل ہوگئے
اور آج ہم ذلت و پستی میں جا چکے ہیں آج دنیا کا کا ہر پانچواں شخص مسلمان
ہے پھر بھی ہم دنیا میں بے حال ہیں جبکہ ماضی میں ہم کم تعداد تھے مگر
زمانے کے امام تھے اسی شاندار ماضی اور حال کا نقشہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
نے اپنے ’’بانگ درا ‘‘ میں جن الفاظ میں کھینچا ہے ۔ ان میں سے چند اشعار
درج ہیں آپ مسلمان نوجوانوں سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں۔
’’ کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا ۔ توجس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج و سردارا
اگر چاہوں تو نقشہ کھنچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تو ہے وہ نظارہ
تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار، وہ کردار،توثابت، وہ سیارہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا ء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
آخر ہم سے کیا غلطیاں ہوئیں کہ ہم آسمان سے فرش پر آگرے ہیں مسلمانوں کی آج
کی اس پستی کی جو جوہات پیش آئیں وہ تین ہیں
٭خدا تعالیٰ ہم سب کو ہداہت کی کتاب ’’قرآن‘‘ دی تھی یہ صرف ثواب کی کتاب
نہ تھی بلکہ یہ تو میزان تھی یعنی جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا تو اس کا فیصلہ
ہم اس کتاب سے لیتے۔ ہمارے تمام اختلاف اس کے سامنے پیش ہوتے اور حق و باطل
کا فیصلہ اسی پر کیا جاتا علم و عرفان کا مرکز یہی کتاب ہوتی ہر تحقیق اسی
کے تابع ہوتی مگر ہم اس کتاب کے مقام کو بھول گئے اور اپنے علم و عمل میں
اس کتاب کے مقام کو برقرار نہ رکھ سکے
٭ دنیا جو کہ عالم اسباب ہے اور یہ اسباب بھی زیادہ تر سائنسی علوم کی
مہارت سے حاصل ہو سکتے تھے خدا نے جو خزانے زمین و آسمان میں مدفون رکھے
ہوئے ہیں وہ اسی مہارت سے ہی نکالے جا سکتے تھے انسانی تاریخ گواہ ہے کہ
قوموں کا عروج زوال تو ایک طرف رہا ان کے مرنے اور جینے کا پیش تر انحصار
بھی انہیں ہے آگ کی دریافت ہو یا پہیے کی ایجاد سے لیکر دور جدید کی حیرت
انگیز انکشافات تک یہ حقیقت تاریخ کے ہر صفحے پر ثبت ہے ۔ ہم نے ان علوم کی
طرف توجہ نہ کی۔
٭ مسلمانوں نے اپنی اخلاقی تربیت سے خوب غفلت برتی جس کے نتیجہ میں جھوٹ ،
بد دیانتی، غبن، خیانت ،چوری ، غصب ، ملاوٹ ، سودخوری، ناپ تول میں کمی،
بہتان طرازی، وعدہ خلافی ایک دوسری کی تکفیر وغیرہ بہت عام ہو گئے اور اسی
حالت کے بارے میں درو دیوار پکاررہے ہیں کہ
وضع میں تم ہو نصارٰی تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اور یہی وہ وجوہات تھیں جو کہ مسلمانوں کی پستی کی وجہ بنیں ہیں اور کوئی
جنگ و قتال اور احتجاجی تحریک مسلمانوں کو ان اندھیروں سے نکال نہیں سکتی
ہے ہمارے سیاست دان مذہبی راہنما جو کہ اس ناکامی کی وجہ دسروں کو قرار
دیتے ہیں وہ غلط ہے کیوں کہ کسی کو برا بھلا کہنے سے کوئی قوم کامیاب نہیں
ہوتی ہے اگر ہم ان اندھیروں سے نکلتا چاہتے ہیں تو انہیں راستوں کی طرف
ہمیں واپس لوٹنا ہوگا اور انہی پستی کی وجوہات کو دور کرنا ہوگا اگر ہم ان
وجوہات کو دور کرنے میں کامیاب ہوگئے تو دربارہ عروج پر پہنچ سکتے ہیں ورنہ
دوبارا عروج ہمارا خواب ہی بن کر رہے گا ۔خدا ہم کو ان وجوہات کو دور کرنے
کی جلد از جلد طاقت عطاء فرمائے۔( آمین)
|