صبح آنکھ کھلتے ہی حسن نے اپنے موبائل پر
میسج چیک کیا۔
’’سورت الفاتحہ تلاوت کیجئے ۔ کل رات قریب بارہ بجے میرے والد صاحب اس جہان
فانی سے رخصت ہو گئے۔ ذولفقار۔‘‘
حسن اچھل کر بستر سے اٹھا اور اپنے دادا جان کی کہی ہوئی بات کو یاد کرنے
لگا۔ دادا جان کو گئے ہوئے دو دن ہی ہوئیتھے۔ انہوں نے جو دیکھا تھا وہی رو
نما ہو گیا۔وہ واقعی بہت پہنچی ہوئی ہستی تھے اوراﷲ نے انہیں دور تک دیکھنے
کی صلاحیت بخشی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
ذولفقار کے والد کو فوت ہوئے چھ ماہ گزر گئے۔ سب جلد ہی اپنے اپنے مشاغل
میں مصروف ہو گئے۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا۔ذولفقار کے گھر کے حالات دن بدن
ابتر ہوتے جا رہے تھے ۔ ذولفقار کے والد کی وفات کے بعد کوئی بھی گھر کی
ذمہ داری لینے کو تیار نہ تھا۔ اس کی والدہ اپنی سی کوشش کرتیں ، مگر کوئی
ان کی سنتا ہی نہیں…… یہ سارا گھر اپنے والد کا جمع کیا ہوا پیسہ بے دریغ
اڑاتا گیا۔ بینک سے ملتا سود بھی ان کا پیسہ ختم ہونے سے نہ بچا سکا۔
’’کون سی فلم ہے؟؟؟‘‘ سب نے بیتابی سے باری باری ذولفقار سے پوچھا جو ایک
فلم لے آیا تھا۔
’’جسم‘‘۔
’’اچھا ! لے آئے ……‘‘ عائشہ اور سدرہ دونوں خوش ہو گئیں۔ ابھی حال ہی میں
یہ فلم ریلیز ہوئی تھی۔ نام سے ہی صاف پتا چل رہا تھا کہ فلم کی کیا کہانی
ہو گی !!! وار کیسے کیسے مناظر فلم میں عکس بند ہوں گے۔ مگر بے غیرتی کی
انتہا……سارا گھر یہ بیہودہ فلم لگا کر بیٹھ گیا ۔ کوئی پوچھنے والا بڑا تو
اب گھر میں رہا نہیں تھا کہ جس کا خوف ہوتا…… رات گئے تک سب فلم دیکھتے
دیکھتے سو گئے۔
صبح ہوتے ہی ذولفقار نے معمول کے مطابق سب سے پہلے ٹی وی چلایا۔
’’اب کیا نئی مصیبت آ گئی ہے……‘ ’ جیو نیوز پر کوئی گرما گرم سی خبر چل رہی
تھی۔
’’امی! دیکھیں یہ کیا ہو رہاہے……‘‘ ذولفقار نے امی کو زور سے آواز دی۔
’’ان مولویوں نے تو ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے……‘‘۔ ٹی وی پر دکھایا جا رہا
تھا کہ اسلام آباد کی لال مسجد پر کچھ مولویوں نے قبضہ کر لیا ہے۔
’’آئے ہائے …… مسجد پر قبضہ کر لیا……‘‘ ۔ ادھر حسن بھی اپنے گھر بیٹھا یہی
خبر دیکھ رہا تھا۔
’’ بے چارے کب سے حکومت سے کہہ رہے تھے کہ چیزیں صحیح کر دیں……‘‘
’’مجھے تو اتنی نفرت ہو گئی ہے ان ملاؤں سے…… ‘‘۔ ذولفقاراپنے گھر میں بولا۔
’’جا کر پاگلوں کی طرح مسجد پر قبضہ کر کے بیٹھ گئے ہیں……‘‘۔ ذولفقار اپنی
والدہ سے اس خبر پر تبصرہ کرنے لگا۔
’’جاہل……‘‘۔ ااس نے پھر انہیں گالیاں نکالیں۔
’’چلو…… کہہ رہے ہیں کہ کچھ بات چیت چل رہی ہے حکومت سے……‘‘ ۔ حسن نے اپنے
گھر والوں سے کہا۔
’’اﷲ کرے ذیادہ بات نہ بڑھے……‘‘
’’ملک میں لاقانونیت ہو گی تو ایسی حرکتیں تو ہوں گی پھر……‘‘۔ حسن کے والد
بولے۔
’’ابھی وہ ……بارہ مئی کو یہاں جو ہوا…… استغفر اﷲ‘‘۔ حسن کے والدکراچی میں
بارہ مئی کو ہونے والے قتلِ عام کا حوالے دینے لگے۔ جب با بانگِ دہل روڈوں
، پلوں اور شاہراہوں پر دہشتگردوں نے بے دریغ فائرنگ کی اور بے شمار بے
گناہ افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
’’آئے ہائے …… ابھی تک ختم نہیں ہوا یہ قصہ ……‘‘۔ ذولفقار کی والدہ چڑکر ٹی
وی چلا کر بولیں۔ ایک ہفتہ گزر چکا تھا اس واقعے کو شروع ہوئے۔
’’مارا نہیں ان لوگوں کو اب تک……‘‘ ۔ ذولفقار نے بے دردی اور نفرت بھرے
لہجے میں کہا۔
’’نہیں نہیں…… شروع ہو گیا ہے آپریشن……‘‘۔ اس کی امی نے کچھ خبر سنی اور
چونک کر بولیں۔
’’یا اﷲ…… مجھے تو ڈر لگ رہا ہے……‘‘۔ ’’اس طرح گولیا ں برسا رہے ہیں مسجد
پر……‘‘ ۔ حسن نے جھرجھری لے۔
’’چچ چچ چچ …… کتنے برے ہیں ہم سب لوگ……‘‘۔ ’’ملک سے برائیاں ختم نہ کر سکے
اور ان بیچاروں کو مار رہے ہیں……‘‘
’’اﷲ رحم کرے‘‘۔ حسن کی حالت رونے جیسی ہو رہی تھی۔
معاملہ صاف تھا۔ کچھ مولویوں نے فحاشی کے اڈوں کے بندکرنے کا مطالبہ کیا
تھا۔ مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کان پر جوں تک نہ رینگی…… اُن
لوگوں سے صبر نہ ہوا اور مسجد پر قبضہ کرنے کا بیوقوفانہ اقدام کر بیٹھے۔
۔۔۔۔۔۔۔
رمضانوں کے دن تھے۔ ذولفقار کی امی اور عائشہ کے سوا اور کسی نے روزہ نہ
رکھا تھا۔
’’امی ان سے کہا کریں کم از کم رمضانوں میں تو سدھر جایا کریں۔‘‘
’’عجیب منحوس گھر ہے ہمارا……‘‘۔ عائشہ اپنی امی سے سحری بناتے ہوئے بولی۔
’’میں کیا بولوں بھئی…… تمہیں پتا ہی ہے میری کون سنتا ہے……‘‘۔ ذولفقار کی
امی نے صاف صاف کہہ دیا۔
تھوڑی دیر میں فجر کی آذانوں کی آواز آنے لگی ۔ انہوں نے سحری بند کی۔
’’ابو ہوتے تھے تو کم از کم ایسا تو نہیں تھا……‘‘۔ ’’ رمضانوں میں تو سدھر
جاتے تھے سب……‘‘۔ عائشہ مایوس لہجے میں بولی اور وضو کرنے چلی گئی۔ وہ
پرانا وقت کرنے لگی۔
ذولفقار ، وحید اور سدرہ تینوں اپنے اپنے وقت پر اٹھے، ناشتہ کیا اور اپنے
اپنے کالج یونیورسٹی روانہ ہو گئے۔ یہی ان کا روز کا معمول تھا۔ کبھی کبھار
بیچ میں کوئی روزہ رکھ لیتا تھا، کبھی کبھار یہ جمعہ کو نماز کو چلے جاتے
تھے۔ گھر واپس آ کر کوئی نہ کوئی فلم، گانا لگا لینا اور وقت گزاری کرنا……
اب تو ذولفقار نے پڑھنے پربھی توجہ دینا چھوڑ دی تھی اور اس کا بھائی وحید
تو پہلے سے ہی نالائق تھا۔
ایک دن افطاری کا وقت قریب آیا توروز ے دار کھوجے دار سب بڑھ بڑھ کر افطار
بنانے میں حصہ لینے لگے۔ اچانک گھر کی گھنٹی بجی۔
’’اس ٹائم کون آ گیا ہے ……‘‘ ذولفقار کی امی بولیں اور عائشہ کو دروازہ
کھولنے کا اشارہ کیا۔
’’چاچی آپ آئیں ہیں……‘‘۔ عائشہ نے دروازہ کھولتے ہی کہا۔
’’امی! چاچی آئی ہیں۔‘‘ چاچی کے ساتھ ان کی بیٹی زیبا بھی تھی۔
چاچی اور زیبا مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔
’’السلام و علیکم!!! افطار کی تیاریاں ہو رہی ہیں……‘‘۔ چاچی نے امی کو کچن
میں کام کرتے دیکھا تو کہا۔
’’ہاں افطار کا ٹائم ہے نا……‘‘۔ امی نے تیکھے لہجے میں جواب دیا جیسے ان کا
گھر آنا انہیں پسند نہ آیا ہو۔
’’لاؤ میں بھی کچھ مدد کرا دوں……‘‘۔ ’’جاؤ بیٹا چچی جان سے فروٹ لے لو……‘‘۔
چاچی نے زیبا کو اشارہ کیا۔
زیبا چپ چاپ اپنی چچی سے فروٹ اور چھری لے آئی اور کاٹنے لگی۔ مگر اس کی
نظریں تو کسی اور کو ہی تلاش کر رہیں تھیں۔
جب تک ذولفقار کے والد حیات تھے ، وہ ذولفقار کی شادی زیبا سے کرنے کے
خواہشمند تھے۔ ذولفقار کے چچا بھی یہی چاہتے تھے۔ مگر ذولفقار کی والدہ کو
اس رشتے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ لہذا اپنی شوہر کی وفات کے بعد
انہیں نے چچا کے گھر آنا جانا بالکل ترک کر دیا تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ
ذولفقار کی شادی کہیں اور ہو جائے۔
’’باقی بچے نظر نہیں آ رہے؟؟‘‘ چاچی نے کچھ بات چیت کرنا چاہی۔
’’اندر کمرے میں ہیں……‘‘۔ ’’ اس وقت تو گھر پر ہی ہوتے ہیں…… افطار کے ٹائم
کسی کے آتے جاتے نہیں……‘‘۔ امی نے طنز کیا۔ ان کا یہ جواب سن کر چاچی کچھ
خاموش سی ہو گئیں۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ بات ا نہیں سنائی گئی ہے کہ افطار کے
ٹاہم کس لئے آ گئے!!!
تھوڑی دیر میں ذولفقار کی امی اس کی چاچی کے پاس آ بیٹھیں۔
’’دیکھو بھئی ان کے ابو تو اب رہے نہیں…… تم پرانی باتیں بھول جاؤ۔‘‘ زیبا
کا دل دھڑکنے لگا۔
’’تم اس طرح اپنی بچی کو لے لے کر چکر لگاتی ہو…… خاندان بھر میں باتیں
بنتی ہیں۔‘‘
’’دیکھو میں روزے سے ہوں…… گھما پھرا کر بات نہیں کروں گی۔‘‘
’’نہیں آپ بولیں……‘‘ چاچی کے پاس جیسے الفاظ ہی نہ تھے۔
’’دیکھو کچھ برابری بھی تو ہونی چائیے نا…… میرا مطلب ہے…… ‘‘ ذولفقار کی
امی کچھ ٹھہریں۔ ’’ اب ذولفقار انجینیئر بن رہا ہے…… ظاہر ہے آج کل بچوں پر
زبردستی تو نہیں کی جا سکتی نا۔‘‘
’’جی‘‘ ۔ چاچی نے بس اتنا کہا۔
’’وہ مجھے تو ان کے چاچا ہی بھیجتے ہیں‘‘۔
’’اچھا تو آپ خود نہیں آنا چاہتیں؟؟؟‘‘ عائشہ نے بھی بڑوں کی باتوں میں
ٹانگ اڑائی۔
’’ہیں!!! تم نہیں آتیں کیا ہمارے ہاں ……‘‘ ۔ ذولفقار کی امی کا لہجہ سخت ہو
گیا۔ جیسے ایک جملہ کہہ کر انہوں نے کوئی گناہ کر دیا ہو۔ زیبا وہاں سے
اٹھی اور فروٹ لے کر کچن میں چلی گئی۔
’’نہیں ایسی بات نہیں ہے۔‘‘ چاچی کی آواز دب گئی۔
’’اب تو تمہیں میری بات سمجھ آ گئی نا؟؟؟‘‘ ۔ ذولفقار کی امی نے صاف صاف
وارن کیا اور ناراضگی سے اٹھ کر کچن میں چلی گئیں جہاں زیبا سہمی کھڑی تھی۔
’’ تم باہر ہی بیٹھ جاؤ‘‘۔ انہوں نے بے رخی سے زیبا سے کہا۔ وہ گھبرا کر
باہر نکلی اور اپنی امی کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔ ان کے چہرے پر ہوائیاں
اڑ رہیں تھیں۔ انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی زندگی میں ان کی ایسی بے
عزتی بھی ہو سکتی ہے……
چاچی نے اپنے چہرے کا پسینہ صاف کیا۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح
یہاں سے باہر نکلیں۔ ان کے پیر جیسے کسی نے جکڑ لئے تھے اور نظریں جھکی
ہوئیں تھی۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ زمین کھل جائے اور وہ اس میں دفن
ہو جائیں۔
ہمت کر کے وہ کھڑی ہوئیں اور آہستہ سے دبی ہوئی آواز میں بولیں، ’’ اچھا
ہمیں کچھ عید کی خریداری کرنی ہے……‘‘ ۔ وہ کسی جواب کا انتظارکئے بغیرجانے
لگیں۔
’’السلام علیکم!‘‘ ان کے منہ سے سلام بھی صحیح طرح نہ نکلا۔
’’افطار تو کر لیں۔‘‘ عائشہ پیچھے سے بولی جو کچن میں کھڑی اپنی امی کے
ساتھ مسکرا رہی تھی۔
’’کچھ تھیلی میں ڈال دیں……‘‘۔ اس نے پھر آواز لگائی اور جاتے جاتے بھی
انہیں ذلیل کر دیا۔
وہ دونوں چپ چاپ کانپتے ہاتھوں ، روزے میں بھوکی پیاسی وہاں سے رخصت ہوئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
مشرق کے سارے ستارے ڈوب گئے اور مغرب کے بھی…… وہ جو آسمانِ دنیا پر نمودار
ہوا تو سارا کا سارا فلک پر چھا گیا گویا کہ آسمان و زمین کے درمیان معلق،
کرسی لگا کر بیٹھا ہو ۔ ایک بزرگ فرشتہ، جس کے چھ سو بازو تھے۔ زبردست قدرت
والا ……جو مالک عرش کے ہاں بڑا درجہ رکھتا ہے، وہاں اس کا حکم مانا جاتا
ہے، اور وہ وہاں معتبر ہے۔
ملائکہ کے لشکر لئے روح القدس جبرائیل امین اپنے رب کا ہر حکم لے کرسرزمین
پر نازل ہو ئے۔ ہر برس یہ اہتمام ہوتا تھااور اس برس بھی دنیا بھر میں
موجود کارکنان قضاوقدر اپنا اپنا نوشتہ لینے کو تیار تھے…… جسے انہیں اُن
مخلوقات پر نافذ کرنا تھا جن پر وہ تعینات تھے۔ فدائیل اور شومائیل بھی
معتبرجبرائیل کے آگے حاضر ہوئے ، اﷲ کا فیصلے لیا اور اپنے ساتھیوں کی طرف
واپس پلٹے۔
یہ ایک خاص رات تھی۔شب قدر کی رات……بہت سے نیک لوگ عبادت میں مصروف تھے۔مگر
ذولفقار اور اس کے گھر والے گہری نیند سو رہے تھے ۔ بہت سے لوگوں کوتو خبر
تک نہ تھی کہ اس رات سے ان کی تقدیریں ایک نیا رُخ لیں گی ۔ اور اگلے سال
پھر ان کے بارے میں نئے احکامات جاری ہوں گے۔
فدائیل اور شومائیل پر پھڑپھڑاتے ذولفقار کے کمرے میں نازل ہوئے۔ اپنے
ساتھیوں سے علیک سلیک کی اور فرمان پڑھا۔
’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اگر یہ لوگ اس کتاب کو قائم کرتے جو ان کے رب کی طرف سے بھیجی گئی تھی، تو
ان پر آسمان سے رزق برستا اور پیروں تلے ابلتا ۔
مگر انہوں نے حدود اﷲ کو پامال کیااور نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ گئے۔اﷲ
کی عبادت سے روگردانی کی، والدین سے بدسلوکی کی،
رشتہ داروں سے قطع تعلق کیا، مجبور کو دھکے مارے، سود لیا اور چوری کی،
جھوٹ بولا اور دھوکا دیا، فضول خرچی کی اور شیطان کے نقش قدم پر
چلے، جس نے تکبر کیا اور انہیں بے حیائی کی راہ پر چلایا۔
ان لوگوں پر پروردگار عالم کا فیصلہ صادر آتا ہے۔
اﷲ انہیں مصائب و آلام میں مبتلا کرتا ہے تا کہ یہ لوگ اﷲ کے حضور گڑ
گڑائیں اور وہ ان پر سے اپنے عذاب کو دفع کر دے اور انہیں پھر سے اپنی رحمت
کے سائے اور فضل کی پناہ میں لے لے۔ بے شک وہ بڑا مہربان اور نہایت رحم
کرنے والا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
آج صبح سے ہی ذولفقار کے گھر گہما گہمی تھی۔ عائشہ کو دیکھنے شام کو لڑکے
والے آنے والے تھے۔سب ایک دوسروں سے آنے والے مہمانوں کی بابت پوچھ گچھ
کررہے تھے۔
’’بیٹا ڈرائنگ روم پر ایک نظر اور ڈال لینا ……ماسی بھی ٹھیک طرح صفائی نہیں
کرتی ۔‘‘ شام ہونے لگی تو ذولفقار کی امی سدرہ سے بولیں۔
’’ بھئی جس کا رشتہ آرہا ہے وہی صفائی کرے ، مجھے پریشان نہ کریں ……‘‘ سدرہ
نے فٹ سے جواب دیا ۔
بیٹا !و ہ تھوڑا آرام کر کے فریش ہو جائے……تاکہ مہمانوں کے سامنے……‘‘۔
’’میں بھی تیار ہی تو ہو رہی ہوں ……مجھے اپنی دوست کے ساتھ شاپنگ پر جانا
ہے‘‘ ۔سدرہ نے امی سے اجازت نہ لی بلکہ بتایا۔
’’تم مہمانوں کے ساتھ نہیں بیٹھوگی؟‘‘ امی نے حیرت سے سدرہ کا منہ دیکھا ۔
’’بیٹا ہماری مدد کروادینا ……۔‘‘
’’کیا ہے……ہر وقت تنگ کرتے رہتے ہیں‘‘۔ سدرہ کی تو جیسے کسی نے دُم پر پیر
رکھ دیا ہو۔ اس نے منہ بنا کر کنگھا بستر پر پھنکا۔
’’چھوڑدیں امی……! میں خود ہی کر لوں گی۔‘‘عائشہ اپنے کمرے سے باہر نکل آئی
اور مایوس سی شکل بنا کر بولی۔
’’یہ لیں امی! میں سامان لے آیا ہوں ‘‘ذولفقار نے ٹیبل پر سارا سامان ڈال
دیا ۔ وہ مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بازار سے کھانے پینے کی بہت سی
چیزیں لایا تھا۔
’’کیا ٹائم بتایا ہے انہوں نے ؟‘‘
’’ساڑھے پانچ کا کہہ رہے تھے ۔‘‘ امی نے جواب دیا۔
سارا گھر پانچ سے بھی پہلے پوری طرح تیاران کے آنے کامنتظر تھا۔ساڑھے پانچ
بج چکے تھے مگر کوئی نہ آیا۔ وحید گھر سے باہرہی کہیں گھوم پھر رہا تھا
۔امی اور عائشہ چھت پر چلی گئیں کہ شاید دور سے کوئی گاڑی آتی نظر آجائے۔
ایک گاڑی نے انکے گھر کی طرف موڑ کاٹا …… انہیں کچھ امید ہوئی کہ شاید وہی
لوگ ہیں ،مگر وہ سیدھی آگے نکل گئی۔
’’پتہ نہیں کہاں رہ گئے ہیں ۔‘‘امی نے بے قراری سے کہا۔
’’جو بھی آتا ہے دیر سے ہی آتا ہے……‘‘ذولفقارنے بھی جملہ کسا کہ ہمیشہ رشتے
والے مہمان انتظار کروا کروا کر ہی آتے ہیں۔
عائشہ چپ چاپ چھت پر گھوم رہی تھی ۔ یہ دن لڑکیوں کی زندگی کا انتہائی کھٹن
دن ہوتا ہے۔ جب کوئی انہیں رشتے کے لئے دیکھنے آتا ہے۔یہی سنا تھا کہ لڑکا
ہر لحاظ سے بہت اچھا ہے۔ وہ اپنے مشتقبل کی سوچوں میں گم تھی۔
’’فون کر لیں امی ……‘‘ذولفقار نے امی کو مشورہ دیا۔
’’تھوڑی دیر اور رک جاؤ بیٹا……پھر کرتی ہوں‘‘
سدرہ نیچے اپنے کمرے میں گھسی موبائیل پر میسجنگ کر رہی تھی۔
ساڑھے چھ بج چکے تھے، جب کہ ٹائم پانچ بجے کا دیا گیا تھا۔ ای تو سب کو
اکتاہٹ سے ہونے لگی کہ اچانک عائشہ چہک کر بولی۔
’’امی! آ گئے شاید……‘‘۔ عائشہ نے ایک گاڑی نیچے مین گیٹ کے سامنے رکتی
دیکھی اور چونک کر بولی۔ ذولفقار نیچے دروازہ کھولنے جانے لگا۔
’’رک جاؤ پہلے بیل تو بجانے دوانہیں…… پھر کھولنا!……‘‘۔ عائشہ نے اسے پیچھے
سے ٹوکاکہ کہیں جوش میں وہ پہلے ہی دروازہ کھول کے نہ کھڑا ہو جائے۔
مہمان ڈرائنگ روم میں بیٹھ چکے تھے ۔ ذولفقار اور اسکی امی ان سے ادھر ادھر
کی باتیں کر رہے تھے۔ ان سے ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے تھے۔
’’کہاں سے کیا ہے آپ نے ایم بی اے؟‘‘ ذولفقار نے لڑکے سے پوچھا۔ وہ بڑا
جاذب نظر اور صاف ستھراسا لڑکا تھا۔
’’میں نے آئی۔بی۔اے سے ……‘‘ اس نے سیدھا سیدھا جواب دیا ۔
’’وہاں تو بڑی مشکل سے داخلہ ملتا ہے بھئی……‘‘ ذولفقار نے بات بڑھائی۔
’’ہاں بیٹا! پڑھنے میں بہت اچھا ہے……ماشاء اﷲ‘‘ لڑکے کے والد کہنے لگے۔
شروع ہی سے اچھا ہے ۔‘‘اس کی والدہ بھی بولیں۔
’’ماشاء اﷲ۔‘‘ اس کے والد اور ذولفقارنے کہا۔
’’کون سے بینک میں ہیں آپ؟‘‘
’’نہیں، بینک میں نہیں…… میں پی اینڈ جی میں کام کرتا ہوں۔‘‘
’’اوہ اچھا!‘ ذولفقارنے معذرت خواہانہ انداز میں کہا ۔
’’السلا م و علیکم۔‘‘عائشہ چائے کی ٹرے اٹھائے اندر داخل ہوئی۔اس کا چہرہ
شرم سے لال ہو رہا تھا۔
’’وعلیکم السلام ‘‘سب کی نظریں عائشہ پر گڑ گئیں۔ذولفقار نے لڑکے کی طرف
دیکھا،وہ بھی بار بار نظریں اٹھاتا عائشہ کو دیکھتا پھر نظریں نیچی کر
لیتا۔
’’بیٹا یہاں بیٹھ جاؤ‘‘۔ امی نے عائشہ کو اپنے پاس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
ہم چائے پی رہے تھے کہ سدرہ کمرے میں داخل ہوئی۔
’’السلام و علیکم آنٹی …… السلام و علیکم۔‘‘سدرہ نے چہک کر سب کو سلام کیا۔
ذولفقار کے گھر والے ان سے مل کر بہت خوش ہوئے اور وہ لوگ بھی خوش لگ رہے
تھے۔تقریبا ایک گھنٹے کی نشست کے بعد انہوں نے اجازت چاہی اور خصت ہوئے۔
’’اچھے لوگ تھے۔‘‘ ذولفقار نے انکے جاتے ہی تبصرہ کیا۔
’’لڑکا بھی کتنا پیارا ہے۔‘‘امی بولیں۔
’’اﷲ کرے یہ رشتہ ہو جائے‘‘۔
’’لگ تو رہا تھا کہ انہیں بھی ہم پسند آئے ہیں۔‘‘ذولفقار نے جواب دیا۔
’’عائشہ!اچھے تھے نا……‘‘ امی نے عائشہ کو مخاطب کیا۔
’’جی لگ تو اچھے ہی رہے تھے…… سب ہی……‘‘ عائشہ نے جھجھک کر کہا اور برتن
سمیٹنے لگی۔
’’چلیں اﷲ کرے یہ رشتہ آجائے……‘‘
’’آمین ‘‘، ان سب کو بے حد امید تھی اور سب بے حد خوش تھے۔ مگر ایسی ہی
کیفیت ان کی تقریبا ہر رشتے کے بارے میں ہوتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کہاں لے آئیں تھیں امی……‘‘لڑکے نے گاڑی چلاتے ہی اپنی والدہ سے کہا۔
اس کے امی ابو دونوں حیرانی سے اسے دیکھنے لگے کہ ایسا کیا ہو گیا۔
’’کیوں کیا ہوا؟‘‘اس کی امی کسی انہونے جواب کا انتظار کرنے لگیں۔
’’ان کی چھوٹی بہن بہت ہی بری لڑکی ہے……شہر بھر میں مشہور ہے !‘‘
’’ہیں!‘ ‘اسکی امی حیرانی سے بولیں ۔
’’جی ۔‘‘
گھر چل کر بتاؤں گاآپ لوگوں کو ……‘‘ لڑکے نے کہا۔
شکر ہے دیکھ لیا……‘‘۔ لڑکے نے اپنے آپ سے کہا۔
سب خامو ش ہوگئے اور گاڑی آگے بڑھتی رہی ۔ سب ہی سوچ رہے تھے کہ جانے ایسے
کیا کیا ہے ان کی بہن سدرہ نے۔
’’رحیم کو جانتی ہیں نا آپ……‘‘ لڑکے نے خود ہی پھر بات شروع کر دی ،’’ ایسی
ایسی واہیات ویڈیوزہیں اس لڑکی کی اس کے موبائیل میں…… محلے بھرکو دکھاتا
پھرتا ہے ۔‘‘
’’ہائے اﷲ !‘‘ اسکی امی کے منہ سے نکلا ۔ ان کا چہرہ اتر سا گیا تھا۔
’’ہماری reputation بھی خراب ہوتی ہے ایسے لوگوں کے آنے جانے سے ……‘‘۔
’’تھوڑا اتا پتہ پہلے کر لینا چاہئیے تھا ‘‘۔ ’’آئندہ سے خیال رکھیں گے ۔‘‘
لڑکے کے والد بولے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
)جاری ہے(
|