شامِ تنہائی - قسط 21

 
اچھا تنہا ہو۔“اس بوڑھی عورت نے حیرانی سے کہا۔۔
اٹھو بیٹی جاؤ لنگر خانے سے کھاناکھالو۔۔۔“بوڑھی عورت نے پیار سے اس کے کندھےپہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہ۔۔۔
نہ۔ نہیںمجھےبھوک نہیں ہے۔۔۔ فرح نے گھبراتے ہوئے کہابھوک تو اسے بہت زیادہ لگی ہوئی تھی۔۔پچھلے دو دن سے اس نے کچھ نہ کھایا تھا مگر ۔۔وہ بہت خوف زدہ تھی ۔وہ یہاںسے اٹھ کر کہیی اور جانا نہیں چاہتی تھی۔۔۔
وہ عورت سرر پہ سفید دوپٹہ لیے ہوئے تھی۔اس کے ہاتھ میں تسبیح تھی ۔۔وہ اب خاموشی سے تسبیح پڑھتے ہوئے کسی گہری سوچ میں گم تھی۔
فرح بار بار اپنے چہرے پہ حجاب کو درست کرتی اس کا سارہ وجود خوف سے کانپ رہا تھا ۔۔
کیا نام ہے تمھارہ ۔۔۔وہ عورت پھرسے گویاہوئی ۔۔۔
م م ۔۔میرانام ف ۔۔ فاطمہ ہے۔۔۔ وہ فرح کہتے ہتےرک گئی ۔
ماشا اللہ۔۔۔بہت پیرا نامہے ۔۔۔ کب تک یہاں بیٹھی رہو گی ۔۔۔گھر نہیں جانا کیا۔۔۔شام ہو رہی ہے بیٹی اور اتنے بڑے شہر میں تم اکیلی کیسے جاؤ گی ۔۔۔ فرح نے گھبرا کر ادھر ادھر دیھا۔۔۔ اب چند ہی عورتیں یہاں موجد تھیں سب اپنے گھروں کو لوٹ رہی تھی ۔۔۔ اب میں کیا کروںu۔۔“ فرح سوچنے لگی ۔۔ فرح کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرنے لگیں۔۔۔
کیا باتہے بیٹی تم روکیوں رہیہو مجھے بتاؤ ۔۔۔اگر کوئی مسئلہ ہے تو۔۔۔ اس عورت نے ہمدردی سے فرح کو اپنے ساتھ لگالیا۔۔۔ اب وہاں اور کوئی عورت موجود نہ تھی ۔۔۔سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ چکی تھیں
فرح اس عورت کے گلے لگی زار و قطار رونے لگی ۔۔۔ نرم گوشہ پا کر وہ پر سکون ہو گئی۔۔۔
نجانے کتنی ہی دیر وہ یوں ہی روتی رہت ۔۔
بس کر بیٹی ۔۔۔۔اب چپ کر جاؤ ۔۔۔حوصلہ رو۔۔۔۔
لو پانی پیو۔۔۔ اس نے اپنے پاس پڑی پلسٹک بوتل اٹھائی اور گلاس میں پانی ڈال کر فرح کو پلانا چاہا ۔۔۔
فرح کے چہرے سے چادر اتر چکی تھی
اور وہ عورت اسمنفرد اور انتہئی خوبصورت حسن کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔۔ کچھ دیر اس عورت کینظریں فرح کے حسیں اوراور دلکش چہرے پہ ٹکی رہیں۔۔ پھر فرح کے کھانسنے پہ اس نے چونک کر اسے پانی پلایا ۔۔۔فرح ایک ہی سانس میں سارہ پانی پی گئی ۔۔۔eeب وہ خاموش بیٹھی رونے لگی ۔۔۔
وہ عورت فرح کے یوں رونے او ر ۔اس کے بے پناہ حسن سے اتنا تو اندازہ لگا چکی تھی ۔۔۔کیلڑی کسی مصیبت میں گرفتار ہے۔۔۔
یہ دنیا بہت ظالم ہے بیٹی ۔۔۔
غیر تو برے ہیں ہی ۔مگر اپنے بھی کم برے نہیںے
قدم قدم پہ ٹھوکر ہے۔۔۔ فریبی اور دھوکے باز لوگ۔۔۔ اس بات سے انجان کہ انہیں ایک دن اس دنیا سے خالی ہاتھ ہی جانا ہے۔۔۔
توبہ ۔۔۔توبہ۔۔۔ یا اللہ ۔۔خیر
رنا اور برے لوگوں سےبچا۔۔۔
وہ عورت دعا کےل لیے ہاتھ پھیلائے بیٹھیتھی
بیٹا اکر تو چاہے تو اپنے بارے میں مجھے بتا سکتی ہو۔۔۔ شائد میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں ۔۔۔
آپ مجھے میرے گھر پہنچا دیں گی ۔۔۔ہ۔
ہاں بیٹی کیوں نہیں۔۔۔ تم بتاؤ کہاں رہتی ہو ۔۔۔
میں۔۔۔
مجھے کسی نے اغواہء کر لیا تھا اور وہ مجھے ۔۔۔یہاں لے آئے ۔۔یہ کنسا شہر ہے۔۔۔
یہ حید آباد ہے بیٹی۔
آپ مجھے میرے گھر بھیج دیں گی ۔۔۔۔فرح کو امید کی کرن نظر آئی تو اس کی نکھوں میں چمک بڑھ گئی۔
ابھی اتن آسان تو نہیں ۔۔۔کچھ دن لگیں گے ۔۔۔تم اکر چاہو تو میرے ساتھ چلو۔۔۔ویسے بھی یہاں تمھیں زیادہ دیر ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔۔۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔ فرح کےپاس تو اور کوئی ٹھکانہ نہ تھا وہ ان کے ساتھ خاموشی سے چل دی۔
اک نئے راسے کیطرف
اک انجان راستے کی طرف ۔۔۔
نجانے اس کے مقدر میں ابھی کتنی دھول باقی تھی

-------------------------------------------------------

سلمان ہسپتال کے کمرے میں لیٹا گہری خاموشی سے چھت کو گھورے جا رہا تھا ۔۔۔اس کی آنکھیں پانی سے بھری ہوئی تھیں۔۔۔
اسے اس لمحے اپنے زندہ بچ جانے کا غم ستائے جا رہا تھا ۔۔۔
کیا سوچ رہے ہو بھائی۔۔۔اس کے پاس کرسی پہ بیٹھا احسان بولا ۔۔۔تو اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔
ہوں۔۔۔ کچھ نہیں۔ سلمان سرگوشی نما آواز میں بولا۔۔۔
بھائی تم اب سب کچھ بھول جاؤ۔۔۔ کیوں اس بے وفا کی خاطر اپنی جان لینے پہ تلے ہؤئے ہو۔۔۔ مت روگ لگؤ خود کو۔۔۔
احسان نے اسے التجائیہ انداز میں سمجھانا چاہا۔۔۔
نہیں۔ نہیں۔۔میری فرح بے وفا نہیں ہو سکتی ۔۔۔ وہ ضرور کسی مصیبت میں ہو گی۔۔۔
سلمان نے تڑپ کر کہا ۔
اس کی بڑی شفاف آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی دیکھو بھائی ہم سب کو تمھری جان بہت پیاری ہے۔۔۔
بہت عزیز ہو تم ۔
نہیں ہوں میںک کسی کو عزیز۔سب جھوٹ ہے۔۔۔کیوں بچیا تم لوگوں نے مجھے ۔۔۔ مرنے دیا ہوتا ۔۔۔اس ازیت سے تو جاu چوٹتی۔۔۔
وہ اونچی آوازم میں چیختا ہوا اٹھ بیٹھا ۔۔۔
اتار دو اسے ۔اس نے ہاتھ پہ لگی ڈرپ اتارنا چاہی۔۔۔ احسان تیزی سے آگے بڑھا اور اسے سنمبھالنا چاہا۔۔۔
مگر وہ بے قابو ہو رہا تھا۔
-------------------------------------------------

پارس شاہ زر کے آفس کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو اس نے شاہ زر کو انٹرویوز لینے میں مصروف دیکھا ۔۔۔
سائڈ چئیر پہ بیٹھی وہ اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگی
ٹھیک آپ آج ہی جوائن کر لیں
پارس ابھی اس سادہ رف شلوار قمیض میں ملبوساس عام سی شکل و صورت کے لڑکے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ شاہ زر کے کہنے پہ وہ چونک کر شاہ زر کو دیکھنے لگی۔۔۔
وہ شاہ زر کس بے وقوفانہ فیصلے پہ حیان بیٹھی تھی ۔
تھینک یو سر۔۔۔ وہ لڑکا مسکراتے ہوے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
اس سے بہتر تو ہمارے آفس کا چپڑاسی ہے۔۔۔
جب کہو وہ پارس کو اک نظر میںں دیکھ کر کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
hira
About the Author: hira Read More Articles by hira: 53 Articles with 64516 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.