سید ماجد علی درباری اور بھنڈاری چھولے والا

اور رخسانہ بہن تم کیسی ہو بس جاوید بھائی ٹھیک ہے اﷲ کا شکر ہے اور عثمان بھائی کیسے ہیں کیا کررہے ہیں وہ بھی ٹھیک ہیں بس وہی ٹیکسی چلارہے ہیں ۔ہم نے جہاں مکان خریدا تھا وہاں یہ خاتون پڑوس میں رہتی تھیں گھر میں آنا جانا تھا عثمان ان کے شوہر ہیں جو ٹیکسی چلاتے ہیں پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں جس میں سے ایک بیٹے کا نتقال ہو گیا ٹیکسی ڈرائیور کی آمدنی ہی کیا جو اتنے بڑے کنبے کا بوجھ اٹھا سکے کافی عرصہ قبل یہ یہاں سے منتقل ہو چکی تھیں لیکن رابطہ ہے گھر کے معاشی بوجھ کا بار اٹھانے کے لیے کچھ بچیوں نے ملازمت کی کچھ نے گھر میں ٹیوشن وغیرہ پڑھانا شروع کیا اس طرح نہ صرف گھر کا خرچ چلتا رہا بلکہ بچیوں کی شادی بیاہ کے مسائل بھی کسی حد تک حل ہوتے گئے ان کے شوہر عثمان بھائی جو ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں رات کی ٹیکسی چلاتے ہیں اور ان میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جو عرف عام میں ایک ٹیکسی ڈرائیور میں ہوتی ہیں ۔یہ ہمارے معاشرے ہر اس غریب خاندان کی داستان ہے جہاں جلدی شادی کردی جاتی ہے پھر وہ عورت اس شوہر کے ساتھ عزت سے گزارہ کرتی ہے چاہے اس کی آمدنی کتنی ہی کم ہو اور وہ کتنی ہی بری عادتوں کا شکار ہو بیٹا بھی لائق نہ ہو بیٹیاں محنت بھی کرتی ہیں اور کڑھتی بھی ہیں لیکن یہ سوچ کر چپ رہتی ہیں کہ چلو دنیا کو دکھانے کیے باپ کا سایہ اور بھائی کا سہارا تو موجود ہے ۔اسی طرح کی داستان اس خاندان کی بھی ہے جہاں ایک عورت نے خود محنت کی اپنی بچیوں سے بھی اھنت کراکے رزق حلال کمایا اور عزت کے ساتھ بیٹیوں کی شادیاں کیں۔

آج سب لوگوں کو گھر میں افطار کرنا تھا کہ ہم لوگوں کے اکثر پروگرام باہر ہوتے ہیں بڑی بیٹی اور داماد کو بھی بلالیا تھا بیٹی اپنے ساتھ چنے بناکر لائی تھی جو پانی والے چنے تھے اسے کھا کر میں نے کہا کہ تم نے بچپن میں اسکول کے زمانے کی یاد تازہ کردی ہمارے اسکول میں ایک بھنڈاری چھولے والا ہوتا تھا اس کے بالکل ایسے ہی چھولے ہوتے تھے پھر جب پرانی یاد آئی تو اور بھی چیزیں یاد آتی چلی گئیں ۔

1960سے1970کے عشرے کے دوران جو لوگ لیاقت آباد میں انجمن اسلامیہ سکینڈری اسکول میں رہے ہوں یا ان کے کسی بھائی نے یا دوستوں نے وہاں پڑھا ہو ا ہو تو وہ لوگ اس اسکول کے دو کرداروں کو نہیں بھول سکتے ایک سید ماجد علی درباری جو اس اسکول کے ہیڈماسٹر تھے اور دوسرے بھنڈاری چھولے والاجو ہاف ٹائم میں وقفے کے دوران اپنے چھولے بیچتا تھا ۔یہ ایک پرائیویٹ اسکول تھا لیاقت آباد دس نمبر کی مین شاہراہ پر اب بھی ہے لیکن اس کی پرانی عمارت ٹوٹ کر ختم ہو چکی اب نئی تعمیرات ہو رہی ہیں اس اسکول کی خصوصیت یہ تھی کہ تمام سرکاری اسکولوں میں صبح لڑکیاں پڑھتی تھیں تو دوپہر کی شفٹ میں لڑکے پڑھتے تھے تو اس پرائیویٹ اسکول میں صبح کی شفٹ میں طلبا اور شام کی شفٹ میں طالبات زیر تعلیم تھیں ،جو اساتذہ سرکاری اسکولوں میں دوپہر کو پڑھاتے تھے وہ صبح اس طرح کے پرائیویٹ اسکولوں میں پارٹ ٹائم جاب کرتے تھے اس لحاظ سے انجمن اسلامیہ اسکول میں بہت اچھے ٹیچرز حضرات تھے جو ہمیں پڑھاتے تھے ۔ سید ماجد علی دربای جیسا سخت ایڈمنسٹریٹر ہم نے آج تک نہیں دیکھا ان کے رعب اور دبدبے کا یہ عالم تھا کہ طلبا کے علاوہ ٹیچر حضرات تک ان کے کمرے میں جاتے ہوئے کانپتے تھے ۔درباری صاحب انتہائی دبلے پتلے منحنی سے انسان تھے بہت خوش لباس زیادہ تر کوٹ پینٹ کا سوٹ ٹائی اور اکثر ہیٹ بھی پہنے رہتے تھے چہرے پر نظر کا چشمہ گورے چٹے اور کلین شیو وضع دار اور پر وجہیہ شخصیت کے مالک تھے یہ جب اپنے کمرے سے راؤنڈ کے لے نکلتے تھے پورے اسکول میں قبرستان کا سا سناٹا چھا جاتا تھا صرف چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں آتی تھیں یہ ہر کلاس کے باہر ورانڈے سے جائزہ لیتے ہوئے جاتے تھے ٹیچر حضرات پڑھانے میں اور زیادہ منہمک ہو جاتے تمام طالب علم خاموشی سے اپنی کتابوں کی طرف توجہ رکھتے اور کن انکھیوں سے یہ بھی دیکھتے رہتے کہ اب درباری صاحب کس طرف گئے جب وہ زیادہ دور چلے جاتے یا نظروں سے اوجھل ہو جاتے تو پھر سب لوگوں کی جان میں جان آتی ۔درباری صاحب ڈسپلن کے بہت پابند تھے صبح کی اسمبلی میں پورے وقت خود شریک رہتے اور تمام ٹیچرز بھی الرٹ رہتے ۔7بجے صبح کلاس میں جانا ہوتا پھر سب کی حاضری لگائی جاتی سوا سات بجے اسمبلی کے لیے گھنٹا بجتا تمام طالب علم اپنی کلاسوں سے لائن لگا کر اسمبلی گراؤنڈ میں جاتے ایک ٹیچر جناب ممنون صاحب جن کی آواز میں اتنی گھن گرج تھی کہ وہی پوری اسمبلی کنڈکٹ کرتے تھے ۔قراء ت،نعت اور پھر قومی ترانہ ا س کے بعد تمام کلاسوں کے طلبا کو اپنی کلاسوں میں جانے کی ہدایت کچھ اس طرح کی جاتی جیسے مثلاَ کلاس 6-Aہے ممنون صاحب پہلے آواز لگاتے کلاس 6-A۔اب اس کلاس کے لڑکے تیار ہو جاتے پھر آواز آتی اباؤٹ ٹرنAbout Turn اب تمام طلبا یو ٹرن گھوم جاتے یعنی اپنا منہ مغرب سے مشرق کی طرف کرلیتے اس کے بعد آواز آتی لیفٹ رائٹ تو تمام طلبا اسی طرح لائن سے اپنی کلاسوں کی طرف چل دیتے ۔اس عمل میں خاصا وقت لگتا تھا ۔کبھی کبھی درباری صاحب کچھ ہدایات بھی دیا کرتے تھے ڈسپلن کے معاملے میں سختی کا یہ عالم تھا مختلف کلاسوں کے جو طلبا بہت زیادہ شرارتیں کرتے تھے یا بغیر کسی عذر کے ان کی غیر حاضریاں زیادہ ہوتی تھیں کئی بار وارننگ کے بعد جب نہیں سدھرتے تو ایسے طلبا کے والد حضرات کو صبح کی اسمبلی میں بلایا جاتا تمام اساتذہ اور طلبا کے سامنے ان کے خلاف چارج شیٹ پڑھ کر سنائی جاتیاس لڑکے کا باپ بھی سب سنتا پھر ایک ٹیچر کو کہا جاتا کہ اس کو پانچ یا دس زور سے ہتھیلی پر ڈنڈے ماریں وہ اتنی سخت مار ہوتی کہ پورے گراؤنڈ اس کی چیخ سنائی دیتی والد حضرات خود بھی دیکھتے یہ سزا کا آخری مرحلہ ہوتا اور اسی وقت والد کو مخاطب کرکے کہہ دیا جاتا اب اگر یہ باز نہ آیا تو اسکول سے نام کاٹ دیا جائے گا ۔کبھی کبھی کچھ اصلاحی گفتگو بھی درباری صاحب کرتے تھے اور کسی اساتذہ سے کرواتے ،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس رات کو مصر میں اخوان المسلمین کے سید قطب سمیت چھ رہنماؤں کو پھانسی دی گئی اس دن صبح کی اسمبلی میں ہمارے اسلامیات کے ٹیچر مولانا محمد حسن حقانی صاحب سے درباری صاحب نے موثر تقریر کروائی جس میں انھوں مصر کے صدر ناصر کی مذمت کی اور ان رہنماؤں کو اسلام کا ہیرو قرار دیا سارے نکات تو یاد نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ ان کی تقریر سے ایک ولولہ اور جوش پیدا ہوا تھا سید ماجد علی درباری صاحب اپنے لباس اور وضع قطع سے ظاہری طور پر انگریز نظر آتے تھے لیکن اندر سے وہ اسلامی تھے ۔5اور 6ستمبر 1965کی درمیانی رات کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو چھ ستمبر کی صبح مساجد میں حاضری معمول سے زیادہ تھی مجھے یاد ہے اس دن صبح کی اسمبلی میں درباری صاحب نے تقریر کی تھی اور آغاز اسی بات سے کیا تھا کہ آج ہماری مساجد میں صبح فجر کی نماز میں حاضری معمول سے بہت زیادہ تھی پھر اور باتیں بھی کیں درباری صاحب پانچوں وقت نماز کے پابند بھی تھے ان کے ماتھے پر سجدے کے نشان بھی تھے اب ایسے اساتذہ کہاں اسکول میں اور بھی اچھے ٹیچرز تھے مولانا محمد حسن حقانی تو 1977میں پاکستان قومی اتحاد کی طرف سے قومی اسمبلی کے امیدوار بھی تھے سائنس کے ٹیچر مہدی صاحب تھے پھر قریشی صاحب، صابر صاحب ،صغیر صاحب اسلامیات کے ایک اور ٹیچر محیط صاحب تاریخ کے ٹیچر جناب انوار صاحب تھے جو عرف عام میں مکاری صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے وہ اسلیے کہ طلبا کو سزا اس طرح دیتے کہ وہ اپنے بوٹ سے پنڈلی کی ہڈی والے حصے پر زور دار ٹھوکر مارتے تھے ٹھوکر کھانے والا اچھلتا تھا اور کلاس کے بقیہ لڑکے ہنستے تھے اس کے اچھلنے پر انوار صاحب دوسرے پیر پر ٹھوکر مارتے ہوئے کہتے تھے سالا مکاری کرتاہے ،مکاری کرتا ہے اس وجہ سے ان کا نام مکاری صاحب پڑگیا تھا ۔اسکول میں نامی گرامی بلکہ یوں کہہ لیں کہ غنڈے ٹائپ کے لڑکے بھی بڑی کلاسوں میں ہوتے تھے درباری صاحب انھیں بھی کنٹرول میں رکھتے تھے اسکول میں ایک سہ ماہی یا ششماہی رسالہ انجمن کے نام سے نکلتا تھا ایک دفعہ جب یہ رسالہ آیا تو اپنے مضامین کے اعتبار سے انتہائی خشک رسالہ تھا ان نامی گرامی لڑکوں نے ہرکلاس میں جاکر اس رسالے کو پھاڑدیا پورے اسکول میں رسالے کے کاغذ اڑرہے تھے درباری صاحب نے اس کا سخت نوٹس لیا ان تمام لڑکو ں کو اسکول سے نکال دیا میں نے نامی گرامی اس لیے لکھا کہ یہی لڑکے بعد میں اپنے علاقے کے بدمعاش بھی بنتے ہوئے نظر آئے ۔

اسکول کا ایک دوسرا کردار بھنڈاری چھولے والا ہاف ٹائم میں بچوں کی چیزیں بیچنے والوں اسکول کے اند ر ایک چھوٹے سے گراؤنڈ میں جگہ دی جاتی مین گیٹ بند کرکے باہر اس لیے نہیں جانے دیا جاتا کہ ٹریفک کی میں روڈ تھی اور بچے کھیلتے ہوئے کسی حادثے کا شکار نہ ہوجائیں اس لیے ہاف ٹائم میں ا سکول کے اندر ہی بچے کھیلتے کودتے اور تفریح کرتے تھے جہاں پر چیزیں فروخت کرنے والے ہوتے وہاں پر سب سے زیادہ رش اسی بھنڈاری چھولے والے کے ٹھیلے پر ہوتا لڑکے لائن لگا کر چھولے خریدتے بھنڈاری کی ساری توجہ اپنے چھولوں کے دیگچے کی طرف ہوتی وہ صرف پیالے میں چھولے ڈالتے تھے برابر میں بیٹھے ان کے بیٹے کا یہ کام ہوتا وہ بچوں سے پیسے لیتا اگر کوئی ایک آنے کا چھولہ لیتا اسے پیالہ بھر کے دیا جاتا اور اگر کوئی دو پیسے کے چھولے لیتا تو اس کو آدھا پیالہ دیا جاتا ،بیٹاصرف یہ کہتا کہ ابا اس میں ایک آنے کے چھولے ڈالو اور اس میں دو پیسے کے ۔کبھی کبھی درباری صاحب بھی وہاں پر کھڑے ہو کر بھنڈاری چھولے والے پر لڑکوں کے رش اور لائن میں لگ کر چھولے حاصل کرنے کے ڈسپلن کو دیکھتے اگر کوئی لڑکا براہ راست آکر آواز لگاتا کہ ایک آنے کے چھولے دے دو تو بھنڈاری صاحب سر اٹھائے بغیر کہتے کہ بیٹا لائن سے آو،اگر کسی کو دوبارہ لینے کی ضرورت ہوتی تو بھی اسے دوبارہ لائن میں لگنا پڑتا۔بھنڈاری چھولے والے اور ہیڈماسٹر سید ماجد علی درباری صاحب میں ایک لحاظ سے کئی قدر مشترک تھیں دونوں اپنے کام میں مخلص تھے دونوں اپنے اپنے دائرے میں ڈسپلن کے پابند دونوں بچوں سے محبت سے پیش آتے ۔ایک بچوں کو خالص تعلیم خلوص کے ساتھ دینے کی کوشش کرتے تو دوسرے خالص چھولے خلوص کے ساتھ پیش کرتے ۔بھنڈاری چھولے والے کے ساتھ اس کا جو بیٹا برابر میں بیٹھتا تھا وہ وہی عثمان بھائی ٹیکسی ڈرائیور ہیں جن کا ذکر شروع میں کیا گیا ہے۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 49979 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.