تکبر ایک تعفن

آپ جس شخص سے بھی ملیں گے اس کی اپنی ہی روداد ہوگی ۔لیکن معاشرے میں ایک تعفن ایساہے جس نے ہمارے خاندانی نظام کو تباہ کرکے رکھ دیاہے اور وہ ہے'' تکبر''۔ہوتایہ ہے کہ فیملی میں جو مالی طور پر زیادہ مستحکم ہوتاہے ،شہرت رکھتاہے وہ دوسرں کو حقیرجانتے ہوئے خود کو بہت بڑی ہستی جانتاہے ۔اس حقارت کی بنیاد پر وہ اپنے اور دوسروں کے درمیان ایک طویل خط قائم کردیتاہے ایک ایسی فاصلوں کی ایک ایسی دیوار کھینچ لیتاہے کہ اس پارسے اس پار کچھ دکھائی نہ دے ۔

اب ایسے میں انسان انسان سے بتدریج دور ہوتاچلاجاتاہے یہ دوریاں پھرنفرتوںو عداوتوں اور ذہنی پسماندگی کا باعث بنتی ہیں ۔طرح طرح کی بدگمانیاں جنم لیتی ہیں ۔

قارئین محترم !آپ تک درست اور بہتر معلومات پہنچانا اور برائیوں کی نشاندہی کرکے ان کے سدباب کے لیے شعوری مہم چلانا ہم قلم و قرطاس سے وابستہ افراد کی ذمہ داری بھی ہے اور فرض بھی ہے ۔چنانچہ اسی فکر اور جذبہ کے تحت سوچا کیوں نہ آج تکبر کے حوالے سے کچھ معلوماتی بات کرلی جائے ۔کیا کسی کا دل چوٹ کھاجائے اور وہ اس قبیح و شنیع فعل سے تائب ہوکر عاجزی و انکساری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے میری محنت وصول ہوگئی ۔معاشرے کے نکھار اور بہتری میں میرا بھی کچھ حصّہ ہوگا۔سب سے پہلے تو یہ جانتے ہیںکہ تکبر کی تعریف کیا ہے ۔تکبر کہتے کسے ہیں۔تَکَبُّر کسے کہتے ہیں؟ خُود کو افضل،دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تَکَبُّر ہے ۔چنانچہ رسولِ اکرم نُورِ مجسّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : '' اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِیعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نا م ہے۔'' (صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب تحریم ، الکبر و بیانہ ،)
اِمام راغب اِصفہانی علیہ رحمۃ اللہ الغنی لکھتے ہیں : ذٰلِکَ اَن یَّرَی الْاِنْسَانُ نَفْسَہ، اَکْبَرَ مِنْ غَیْرِہِ یعنی تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔(المُفرَدات للرّاغب )۔جس کے دل میں تَکَبُّر پایا جائے اُسے ''مُتَکَبِّر ''کہتے ہیں۔ تَکَبُّر کی3 اقسام
(1) اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقابلے میں تَکَبُّر
تکبر کی یہ قسم کُفر ہے،جیسے فِرعون کا تَکَبُّر کہ اُس نے کہا تھا : اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی ()فَاَخَذَہُ اللہُ نَکَالَ الْاٰخِرَۃِ وَ الْاُوْلٰی ()
ترجمہ کنزالایمان :میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں تو اللہ نے اُسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں پکڑا۔(النٰزعٰت)
(2) اللہ ربُّ العزت کے رسولوں کے مقابلے میں
س کی صورت یہ ہے کہ تَکَبُّر،جہالت اوربغض وعداوت کی بنا پر رسول کی پیروی نہ کرنایعنی خود کو عزت والا اور بلند سمجھ کر یوں تَصَوُّر کرنا کہ عام لوگوں جیسے ایک انسان کا حکم کیسے مانا جائے ، جیسا کہ بعض کفّا رنے حضور نبی کریم ر ء وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کے بارے میں حَقا رت سے کہاتھا:اَہٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللہُ رَسُوْلًا ()ترجمہ کنزالایمان : کیا یہ ہیں جن کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ؟ (الفرقان)
(3)بندوں کے مقابلے میں
یعنی اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کے علاوہ مخلوق میں سے کسی پر تَکَبُّرکرنا ،وہ اِس طرح کہ اپنے آپ کو بہتر اور دوسرے کو حقیر جان کر اُس پربڑائی چاہنا اور مُساوات(یعنی باہم برابری)کو ناپسند کرنا، یہ صورت اگرچِہ پہلی دو صورَتوں سے کم تَر ہے مگر اِس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے کیونکہ کبریائی اور عظمت بادشاہِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ ہی کے لائق ہے نہ کہ عاجِزاور کمزور بندے کے ۔ (احیاء العلوم(
محترم قارئین !کسی بھی چیز کے فوائد و نقصانات کا ادراک اسی وقت ہوگا جب ہم اس کے متعلق جانتے ہوں گے ۔معلومات ہوگی ۔چنانچہ تکبر جیسے مرض کو معاشرے سے دور کرنے کے لیے تکبر کی تعریف اور اس کی اقسام کے متعلق شناسائی ضروری تھی جوکہ احقر نے بیان کردی

بڑے کروفر و تکبر میں ہم بہتیروں کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔بہتیروں کی دل شکنی اور بہتیروں کے ساتھ ایسی زیادتی کرگزرتے ہیں کہ اس کے بنیاد حقوق تک سلب کردیتے ہیں ۔اب آپ خود سوچیں کہ دنیا کا کونسا مہذب معاشرے تکبر کی گنجائش دیتاہے ۔پھر یہ کہ کبھی اس اکڑ اکڑ کر چلنے والے انسان نے اپنے وجود پر کبھی غو رکیا۔

انسان کی پیدائش بدبودار نُطفے(یعنی گندے قطرے)سے ہوتی ہے انجامِ کار سڑا ہوا مُردہ ہے اور اس قدر بے بس ہے کہ اپنی بھوک ،پیاس، نیند، خوشی ،غم ،یاداشت،بیماری یا موت پر اسے کچھ اختیار نہیں ،اِس لئے اسے چاہے کہ اپنی اصلیّت ، حیثیت اور اوقات کو کبھی فراموش نہ کرے، وہ اس دنیا میں ترقّیوں کی منزلیں طے کرتا ہوا کتنے ہی بڑے مقام ومرتبے پر کیوں نہ پہنچ جائے ، خالقِ کون و مکاں عَزَّوَجَل کے سامنے اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے، صاحبِ عقل انسان تواضع اور عاجزیکا چلن اختیار کرتا ہے اور یہی چلن اس کو دنیا میں بڑائی عطا کرتا ہے ورنہ اس دنیا میں جب بھی کسی انسان نے فِرعونیت ، قارونیت اورنَمرودیت والی راہ پکڑی ہے بسا اوقات اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا ہی میں ایساذلیل وخوار کیا ہے کہ اُس کا نام مقامِ تعریف میں نہیں بطورِ مذمت لیا جاتا ہے ۔ لہٰذاعقل و فہم کا تقاضہ یہ ہے کہ اِس دنیا میں اونچی پرواز کے لئے انسان جیتے جی پیوندِ زمین ہوجائے اور عاجزی و اِنکساری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے پھر دیکھئے کہ اللہ ربُّ العزت اُس کو کس طرح عزت وعظمت سے نوازتاہے ا ور اُسے دنیا میں محبوبیت اور مقبولیت کا وہ اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے جو اُس کے فضل و کرم کے بغیر مل جانا ممکن ہی نہیں ہے۔
محترم قارئین !مضمون کے آخر میں بس اتنا عرض کروں گاکہ اپنی زندگی میں انکساری پیداکیجیے !آپ دیکھیں گے کہ ایک زمانہ آپ کے لیے جھک جائیگا۔اپنی ذات میں لچک پیداکریں ۔تکبر کسی طورپربھی آپ، مجھے ،ہم سب کو زیب نہیں دیتاانسانیت کی معراج عاجزی ہی ہے۔اے کریم تو ہمیں تکبر جیسے موذی مرض سے بچ کر ،عجز و انکساری کی دولت سے بہرہ مند فرما۔آمین
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 542207 views i am scholar.serve the humainbeing... View More