گزشتہ سے پیوستہ
کسی بدعت کو اچھا اور کِسی بدعت کو بُرا کہنے کی کوئی گنجائش نہیں، جیسا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ ہے :::
( فَاِنَّ مَن یَعِیشُ مِنکُم فَسیَری اِختلافاًً کثیراً ، فَعَلِیکُم
بِسُنّتِی وَ سُنَّۃ الخُلفاء الراشدینَ المھدیَّینَ ، عضُّوا علیھا
بالنَواجذِ ، وَ اِیَّاکُم وَ مُحدَثاتِ الاَمُور، فَاِنَّ کلَّ بِدَعَۃٍ
ضَلالَۃٌ ، وَ کلَّ ضَلالۃٍ فِی النَّارِ )
( پس تُم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، تو تُم پر
میری اور ہدایت یافتہ، ہدایت دینے والے خلفاء کی سُنّت فرض ہے اُسے دانتوں
سے پکڑے رکھو، اور نئے کاموں سے خبردار، بے شک ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر
بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی آگ میں ہے )
صحیح ابن حبان /کتاب الرقاق، صحیح ابن خُزیمہ /حدیث ١٧٨٥/کتاب الجمعہ
/باب٥١،سُنن ابن ماجہ /حدیث ٤٢/باب ٦، مُستدرک الحاکم حدیث ٣٢٩ ، ٣٣١ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
( مَن عَمِلَ عملاً لَیس علیہِ امرُنا فھو رد )( جِس نے ایسا کام کیا جو
ہمارے معاملے کے مُطابق نہیں ہے وہ رد ہے )
صحیح البُخاری /کتاب بد ء الوحی / باب ٢٠ ، صحیح مُسلم /حدیث ١٧١٨ ،
یعنی ہر وہ کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاموں کے مُطابق
نہیں وہ کام کرنے والے پر مردود ہے، اور عید میلاد منوانے اور منانے والے
میرے کلمہ گو بھائیوں، بہنوں کے ہوائی ، فلسفانہ دلائل کی کوئی دلیل نہیں،
نہ قرآن میں، نہ سُنّت میں، نہ صحابہ کے قول و فعل میں ہے، قرآن کی جِن
آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جِن احادیث اور صحابہ کے
جِن اقوال کو اپنے طور پر اپنی تفسیر اور اپنی شرح میں ڈھال کر، دلیل بنانے
کی کوشش کی جاتی ہے اُن کا جواب گزر چُکا ہے، اور مزید یہ کہ نہ ہی ہم اہلِ
سُنّت و الجماعت کے کسی بھی اِمام کی طرف سے اِس کام یعنی عید میلاد منانے
کا کوئی ذِکر وارد ہوا ہے ۔
جاری ہے |