’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘ اور ڈاکٹر سہیل شفیق
(Abdual Karim, Muzzafarabad)
ڈاکٹر سہیل شفیق نے ’نعت نامے‘کے
لیے صبیح رحمانی کو لکھے گے گیارہ سو سے زائد خطوط میں سے ۱۸۵مکتوب نگاروں
کے مجموعی طورپر ۵۱۲خطوط کا انتخاب کیا ہے ۔ ان کے مطابق اس ترتیب و انتخاب
میں ایسے مکاتیب کو ترجیحاً پیش نظر رکھا گیاہے جو علمی ،ادبی ،تحقیقی
اورتنقیدی نکات پر مشتمل ہیں ۔ کتاب ۹۳۶صفحات پر مشتمل ہے ۔ جسے’نعت ریسرچ
سنٹر کراچی‘ نے شائع کیا ہے ۔ کتاب کے مرتب نوجوان سکالر ڈاکٹر سہیل شفیق
ہیں جو کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی تاریخ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور
حافظ قرآن بھی ہیں ۔ وہ معروف علمی و تحقیقی جریدے’ الایام‘کی مجلس ادارت
میں بھی شامل ہیں۔ متعدد تحقیقی مضامین لکھ چکے ہیں ۔ڈاکٹر سہیل شفیق نے پی
ایچ ڈی’’ جامعہ نظامیہ بغداد کا علمی و فکری کردار (۴۵۷ہجری تا۶۵۶ہجری )‘‘
پر کیا۔ جبکہ ان کی تصانیف میں’ اشاریہ معارف‘ ،’اشاریہ’نعت رنگ‘،’اشاریہ
جہان حمد‘ ،’مشرق وسطیٰ کا بحران‘ ،’وفیات معارف‘اور’نعتیہ ادب کے تنقیدی
زاویے‘ شامل ہیں ۔ جبکہ زیر طبع کتب میں’ اشاریہ التفسیر ‘ اور’معارف شبلی‘
شامل ہیں ۔
سہیل ۱۹مئی ۱۹۷۷ء کو کراچی میں پیدا ہوئے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم سے لے کر
اعلیٰ تعلیم تک کے تعلیمی مدارج شہر قائدکے ہیں۔ میں ان سے آج تک نہیں ملا۔
تاہم فون پر رابطہ دو سال سے ہے۔ یکسو قسم کے محقق ہیں ۔ لگی لپٹی رکھے
بغیر بات کرنے والے ،ہر بات کا مسکت جواب دینے والے: لیکن محبت کرنے والے
انسان ہیں ۔ تحقیق کی ابجد سے واقف ہیں اور جویندگان علم کی پیاس کو بجھانے
کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ میں نے کئی بار موبائل فون پر انہیں مسائل ،مضامین
،کتابوں اور رسائل کے لیے تکلیف دی اور انھوں نے ناک بھوں چڑھائے بغیر جہاں
تک ممکن ہوا ،مدد دی اور مدد کی ۔جب سے ہماری یاد اﷲ ہے ’الا یام ‘
باقاعدگی سے ارسال کرتے ہیں اور اس کے علاوہ علوم اسلامیہ ،اسلامی تاریخ
اورثقافت سے متعلق کتب و رسائل بھی ارسال کرتے رہتے ہیں ۔
’ نعت نامے‘ سہیل کی سب سے ضخیم تالیف ہے ۔ کتاب کی طباعت بہت حد تک معیاری
ہے او ر املا کی اغلاط کم ہیں ۔ سہیل نے اپنی معروضات میں خود ہی تحریر کر
دیا ہے کہ کسی بھی شخص کے خطوط کی روشنی میں اس کی اصل شخصیت کو دیکھا جا
سکتا ہے ۔ کیونکہ خطوط سے اس کی جو شخصیت سامنے آتی ہے اصلاً وہی اس کی اصل
شخصیت ہوتی ہے ۔ تاہم ان خطوط کے مطالعے سے مسلکی اختلافات کھل کر سامنے
ضرورآئے ہیں اور واقعی اس میدان میں کچھ مشاہیر کو میں نے ننگا ہوتے دیکھا
ہے ۔ تاہم اکثر کے ساتھ ’صاف چھپتے بھی نہیں ،سامنے آتے بھی نہیں‘ کا
معاملہ ہے ۔سہیل کے مطابق یہ ۱۹۹۵ء سے ۲۰۱۴ء تک( تقریباً بیس سالہ مدت )کے
خطوط ہیں ۔ تاہم ان میں سب سے قدیم خط ڈاکٹرعزیزاحسن کا۲۴اگست ۱۹۹۴ء کا ہے
جو دو عشرو ں سے ’نعت رنگ ‘سے تعلق استوار رکھتے ہیں ۔ ’نعت رنگ‘ اب ایک
تحریک کا نام ہے ۔ جس نے تنقید نعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ یہ اور
بات ہے کہ ہمارے ریسرچ سکالر تنقیدنعت سے اب بھی واقف نہیں ۔ اس کی ایک
مثال ہمارے ایک دوست کی ہے ۔جنھوں نے جب تنقید نعت کا سنا تو پہلے استغفراﷲ
کہا اورپھرفرمانے لگے کہ کیانعت پر بھی کوئی گستاخ تنقید کر سکتا ہے ؟
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ’نعت رنگ‘اور اس کے مدیر اعلیٰ صبیح رحمانی اب
پاکستانی معاشرے میں ہی نہیں پوری دینا میں نعت کے حوالے سے ایک مستند نام
ہیں۔ ان کا ایک اہم کارنامہ۲۰۰۲ء میں ’نعت ریسرچ سنٹر ‘ کا قیام بھی ہے جس
نے نعتیہ ادب کے طالب علموں نیز اساتذہ کو بھی ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کر
دیا جس کا بنیادی مقصد نعت شناسی اورنعت فہمی کے بڑھتے ہوئے شعور اور ذوق
کو تعلیمی اداروں اورجامعات تک وسعت دینا تھا۔ ان کی کوششوں کے بعد ہی ایم
اے کی سطح سے لے کر پی ایچ ڈی کی سطح تک کئی مقالے سامنے آئے ۔یاد رہے کہ
’نعت رنگ‘ کا اشاریہ بھی ڈاکٹر سہیل مرتب کر چکے ہیں ۔ سہیل نے مکاتیب اور
خطوط میں مذکور شخصیات کے مختصر کوائف بھی دے دیے ہیں ۔ اور اس کتاب کے پیٹ
سے ایک اور کتاب پیدا ہو سکتی ہے ۔ یعنی ان حضرات کے مختصر تعارف و خدمات
پر مبنی۔ اس کے علاوہ کتاب کے آخر پر اشاریہ بھی دے دیا ہے ۔ اس طرح یہ
شخصیات کا اشاریہ ایک سکالر کے لیے مزید آسانیاں فراہم کر دیتا ہے ۔ سہیل
نے فہرست کو الفبائی ترتیب سے مرتب کیا ہے ۔ اس طرح بعض بہت سینئر سکالرز
مثلاًمشفق خواجہ بہت بعد میں چلے گئے ہیں۔
مکتوب نگاروں میں ہر طرح کی شخصیات شامل ہیں ۔مشفق خواجہ ،احمد ندیم قاسمی
،اسلوب احمد انصاری ،افتخار عارف ،امین راحت چغتائی ،ڈاکٹر انور سدید
،ڈاکٹر تحسین فراقی ،پروفیسر جگن ناتھ آزاد ،ڈاکٹر جمیل جالبی ،حفیظ الرحمن
احسن، حفیظ تائب ،ڈاکٹر خورشید رضوی ،راغب مراد آبادی ،ڈاکٹر رفیع الدین
ہاشمی ،ڈاکٹر رؤف پاریکھ ،پروفیسر سحر انصاری ،سلطان جمیل نسیم ،ڈاکٹر سلیم
اختر،ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان ، شان الحق حقی ،ڈاکٹر شکیل اوج،ڈاکٹر شمس
الرحمان فاروقی ،ڈاکٹر شوکت زریں ،ڈاکٹر طاہر تونسوی،ڈاکٹر عارف نوشاہی
،عاصی کرنالی ،عباس رضوی ،ڈاکٹر عزیز احسن ،پروفیسر عنایت علی خان ،ڈاکٹر
غلام مصطفی خان ،ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،کالی داس گپتارضا،علامہ کوکب نورانی
،گوہر ملتانی ،پروفیسر محسن احسان ،ڈاکٹر معین الدین عقیل ،ڈاکٹر وزیر آغا
،ڈاکٹر یونس اگا سکر: اس طرح اس فہرست میں محققین ،نقادان فن ،شعراء سب
شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ اس فہرست میں ہندو بھی شامل ہیں ۔
اکثر خطوط میں مولانا کوکب نورانی کے تذکرے ہیں لیکن ان کے طویل خطوط بہر
حال اس کتاب میں شامل نہیں ۔ اس طرح یہ پہلوتشنہ لگتا ہے ۔ مکتوب
نگارپاکستان کے علاوہ ہندوستان ،انگلستان ،کینیڈا غرض پوری دنیاسے تعلق
رکھتے ہیں۔ اور سب کے سب ایک رشتے ’محمدﷺ‘ سے محبت میں بندھے نظر آتے ہیں۔
بعض مکتوب نگاروں کے خطوط طویل بھی ہیں اور دلچسپ بھی جیسے احمد صغیر صدیقی
۔ ان کے خطوط تحقیق کے نئے در بھی وا کرتے ہیں ۔ تاہم اکثر خطوط میں جو
موضوعات زیر بحث ہیں ان کا تعلق فرقہ وارانہ زیادہ ہے ۔ جہاں ایک واضح
تفریق یہ بھی نظر آتی ہے کہ جوشعراء ہیں تو ان کی بحثیں عروض اور شاعری سے
متعلق ہیں، جو محقق ہیں تو انھوں نے تحقیقی پہلو کو سامنے لایا ہے اور جن
کا تعلق خالصتاً اسلام اور فقہ سے ہے تو انھوں نے انہی مسائل اور معیار ات
پر بحث کی ہے ۔ تاہم غنیمت یہ ہے کہ تقریباً تین چوتھائی کا انداز نظر اور
انداز فکر محققانہ ہے اور ادب کے دائرے میں بحث کی ہے ۔
کچھ محققین کم آمیز اور گوشہ گیر قسم کے بھی ہیں جیسے ڈاکٹر اختیار حسین
کیف ،لیکن ان کے مباحث بہت اہم اور دلچسپ ہیں۔ کچھ مکتوب نگاروں نے بہت
مختصر خطوط لکھے ہیں حالانکہ ان کے نام بہت بڑے ہیں ۔ شاید مصروفیات زیادہ
ہونے کی وجہ سے جیسے اسلوب احمد انصاری ۔تاہم بیشترخطوط میں تحقیق کا کوئی
نہ کوئی دروا ہو ہی جاتا ہے ۔ مثلاً ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد کا مکتوب جس
سے ہندوستان میں نعت پر ہونے والی تحقیق و تنقید کا پتہ چلتا ہے ۔ انھوں نے
تحریر کیا ہے کہ عالمی امن و امان کی ضمانت صرف رسول ختمی مرتبت کے پاس ہے
۔ کیوں کہ آپؑ رحمت بے کراں اورفیض بے نہایت کے منبع و مخرج ہیں ۔ کاش یہ
بات ہمارے فرقے سمجھ جائیں ۔ان کے ہی ایک مکتوب سے معلوم ہوا کر امام ابو
حنیفہ ؓ پر دیونا گری رسم الخط میں ہندی ادب میں پہلی کتاب بھی ڈاکٹر
اسماعیل آزاد کی ہے ۔
اشفاق انجم نے نعتیہ اشعار پر زبان و بیان اور فکر کے اعتبار سے وقیع بحث
کی ہے ۔ اس میں عروض کی بحث بھی شامل ہے ۔ اور ان کے خطوط کی اہمیت وقت کے
ساتھ ساتھ بڑھے گی کہ ان کا معیار تحقیق جذباتی نہیں تجرباتی اور تجزیاتی
ہے اورنعت تنقید میں اس رویے کی ضرورت ہے ۔ کچھ خطوط نے تو ہماری آنکھیں ہی
کھول دیں مثلاً افروز قادری چریا کوٹی کہ جنھوں نے یہ انکشاف کیا کہ قصیدہ
بردہ امام بوصیری کا ہے ہی نہیں اور اس طرح قصیدہ سجاد بھی حضرت زین
العابدین کا نہیں۔کچھ مکتوب نگاروں کی تحریر پر تبصرہ کی ضرورت نہیں جیسے
ڈاکٹر افضال احمد انور تحریر کرتے ہیں کہ ’اپنے نانا جان ﷺ کی بارگاہ اقدس
میں عرض کر دینا ،حضورؑ ! یہ آپؑ کی آل پاک کے غلاموں کاسگ ہے ۔ اس پر کرم
،اس پر شفقت‘ ،’فاعتبرویااولی الا ابصار‘ ۔ افضل خاکسار کے خط میں آپ کو
وہی پرانی نور اور بشر کی بحث ملتی ہے ۔
اقبال احمد فاروقی کے مکتوب سے معلوم ہو گا کہ کچھ لوگوں کو جب اپنی کتاب
پر ایوارڈ نہیں ملتا توان کی تنقید میں تلخی آ جاتی ہے ۔ پروفیسر محمد
اقبال جاوید کے خطوط میں غلطیوں کی درستی ملتی ہے تو املا اور زبان و بیان
کے مباحث بھی در آتے ہیں ۔ امیر اسلام کی یہ بات پسند آئی کہ زبان کو قواعد
پر سبقت حاصل ہے کیونکہ زبان پہلے وجود میں آئی قواعد بعد میں ۔ اساتذہ
قدیم کے اشعار صحت زبان کے سلسلے میں سند کا درجہ رکھتے ہیں ۔سرینگر کے
ڈاکٹر جو ہر قدوسی کے خط سے معلوم ہوا کہ کشمیر میں’ نعت اکادمی ‘موجود ہے
اور وہ اس کے بانی سیکرٹری ہیں ۔ کشمیر کے معروف نعت گو شاعر مشاق کاشمیری
آزاد کشمیر میں قیام پذیر ہیں(اس کا ہمیں معلوم نہیں تھا۔اب کھوجتے ہیں
مشتاق صاحب کو) ۔ ڈاکٹرجوہر نے نے ڈیڑھ درجن سے زائد ان مضامین کی فہرست
بھی اپنے خط میں دی ہے جو ہندوستان کے اخبار اور رسائل میں وقتاً فوقتاً
شائع ہوئے۔
رشید وارثی کے خطوط سے یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضرت حسانؓ حضورؑ کے
منبر پر نہیں بلکہ الگ چبوترے پر بیٹھ کر نہیں کھڑے ہو کر مدحت گوئی فرماتے
تھے۔ڈاکٹر روف پاریکھ کے یہ دو جملے بہت پسند آئے کہ اردو ادب کے تما م
قادیانیوں،ا حمدیوں ،لاہوریوں سے گزارش ہے کہ اپنے چہرے سے نقاب اتار
کرکھلم کھلا سامنے آئیں تاکہ’ اردو ادب کی ترقی میں قادیانیوں کا حصہ‘ کے
موضوع پر کوئی احمدی کوئی مقالہ لکھ کر کوئی ڈگری وغیرہ حاصل کر سکے۔ ڈاکٹر
ریئس احمد نعمان نے کمال کے جملے لکھے ہیں کہ کجا نعت رسول اور کجا غالبؔ
جیسا شرابی ،جواری ،بے نماز ،بے روز،آزردہؔ جیسے دوست کا احسان فراموش
،صحابہ کرام پر اپنی نثر/ نظم میں (اردو فارسی دونوں )تبرا لکھنے والا اور
اسلامی عقائد و مسلمات کا مذاق اڑانے والا۔ریاض حسین چودہری کو جانے کیوں
اس بات پر دکھ اور اعتراض ہے کہ نعتیہ شاعری ۸۰فیصد شرکیہ ہے ۔
سعیدبدر شاعر ہیں لیکن اکبر الہ آبادی کے اس مشہور شعر
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
کو ظفرعلی خاں کا جانے کیوں لکھ گئے ہیں ۔ عاصی کرنالی کا یہ فقرہ بجا لگتا
ہے کہ اب تک کسی کو توفیق نہ ہوئی خصوصاً کراچی کی کسی دینی (ادبی ) تنظیم
کو کہ اس سلسلہ میں کوئی نشست رکھے اور دو چار آدمی مجھ پر اور کتاب پر
اظہار خیال کر سکیں ۔ یہ تو ہوتا ہے جناب: ہمارا سماج اتنی آسانی سے کہاں
تسلیم کرتا ہے ،تسلیم کروانا پڑتا ہے ۔ تحقیق ،تنقید ،جذب و شوق کی بہترین
مثال یحییٰ نشیط کے خطوط ہیں اور ہر قاری کو انہیں غور سے پڑھنا چاہیے۔
مکتوب نگاروں میں سے کچھ اب دنیا میں نہیں رہے جیسے مشفق خواجہ ،جگن تاتھ
آزاد وغیرہ ۔کچھ چراغ سحری ہیں جیسے ڈاکٹر انور سدید ،حفیظ الرحمان احسن
،پروفیسر عنایت علی خان ،حمایت علی شاعر وغیرہ۔اور خطوط کی اہمیت ویسے بھی
مکتوب نگار کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد بڑھ جاتی ہے ۔ ان خطوط کی بھی اہمیت
وقت کے ساتھ بڑھے گی ۔ اگرچہ ان خطوط کا دائرہ محدود ہے ۔ تاہم یہ ایک
منفرد تاریخ بھی تو ہے۔ ڈاکٹر سہیل شفیق کی صحت ،عمراور صلاحیتوں میں برکت
کے لیے دعا گو ہوں ۔ |
|