انسانیت

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے نام سے اور آپ کے کلام سے ہر کوئی واقف ہے
ڈاکٹر صاحب اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں.
عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو
تیری نظر سے پوشیدہ ہے آدمی کا مقام
شاعر مشرق کا شعر اپنے اندر ایک ایسا مفہوم رکھتا ہے کہ جس کی آج پوری دنیا کو اور خاص طور پر اس مملکتِ خداد میں بسنے والے ہر پاکستانی کو ہے اور ڈاکٹر صاحب اپنے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اگر کوئی بھی خدا تعالیٰ کی ذات تک رسائی کا طالب ہے تو اس کو سب سے پہلے انسان کے مقام سے آشنانی ہونی چاہیے اگر وہ انسان کے مقام سے آشنائی حاصل کر گیا تو اس کی خدا تک رسائی آسان ہو جائے گی-

خدا تعالیٰ نے تمام مخلوق کو ایک ہی وجود سے پیدا کیا اور پھر اشرف المخلوقات کے درجہ تک اس کو ترقی دی ہے۔ میڈیکل سائنس کے مطابق زمین پر موجود تمام انسانوں کا حیاتیاتی مادہ جسے ہم لوگو DNA کے نام سے جانتے ہیں 99.9 فیصد تک مشترک ہے اور جو 0.1 فیصد تمام انسانوں کے حیاتیاتی مادہ میں فرق ہے وہ فرق بھی محض اس لئے ہے تاکہ ہماری شکلیں ایک دوسرے سے فرق میں ہوں تا کہ ہمیں ایک دوسرے کو پہچاننے میں مشکل نا ہو ۔ یہ فرق خدا تعالیٰ کا ایک رحم کے اگر ہم تمام لوگوں کا حیاتیاتی مادہ 100 فیصد تک ایک جیسا ہوتا تو ہم ایک دوسرے کو کبھی پہچان ہی نہ پاتے۔

عظیم ہدایت کی کتاب قرآن کریم نے بھی واضع طور پر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ہم سے انسانوں کی شکلوں میں فرق صرف اور صرف پہچاننے کی غرض سے بنایا ہے ۔ نہ کہ کسی نسلی امتیاز کے لئے بنایا ہے خدا کے نزدیک عزت اور بزرگی کا وہی حق دار ہوگا جو کہ پرہیزگاری میں بھی آگے ہوگا ۔ چنانچہ خدا نے فرمایا۔

اے انسانوں ہم سے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں گروہ اور قبائل میں بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اﷲ کے نزدیک عزت والا وہی ہے جو ذیادہ پرہیز گار ہے ۔

ایک سروے کے مطابق دنیا میں موجود تمام لوگوں میں سے 90 فیصد لوگ ایسے ہیں جو کہ کسی نہ کسی مذہب کو ماننے والے ہیں اور اگر ہم تمام مذاہب کی تعلیمات پر نظر ڈالیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تمام مذاہب انسانوں کو ، بھائی چارے، محبت، الفت ، ہمدردی، اور دوسرے انسانوں سے حسنِ سلوک کا حکم دیتے ہیں بلکہ بعض کے نزدیک تو مذہب اصل میں ہے ہی خدمتِ انسانیت ہے اور انسانوں سے ہمدری کرنا ہے۔

تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہماری دنیا اور ہمارا پیارہ وطن آج قتل و غارت ، بد امنی اور بے سکونی کی جگہ کس طرح بن گیا ہے ۔ کیا اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں ہے کہ ہم نے انسان کو مذہب، فرقہ،قوم، نسل، برادی، ذات پات، اور خاندانوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے جب کسی چیز کہ اتنے ٹکڑے کر دئیے جائیں تو اس میں کیا اور بچے گا کیا ہمارا طریق قوانین فطرت کے مطابق ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری پیاری دنیا اور ہماری پیارا وطن پاکستان جنت نظیر بن جائے تو ہمیں مذہب فرقہ اور نسل ۔ اور ذات کی ان تقسیموں سے آذاد ہونا ہوگا۔ ہم سب انسان ہیں اور کوئی فرق ہم میں نہیں ہے اسی لئے خدا تعالیٰ نے تمام انسانوں کے استعدادیں بلا تفریق و مذہب عطا کی ہیں جیسے کہ نیوٹن جیسے عظیم سائنسدان نے بصریات،ریاضیات، اور دوسرے شعبہ میں ایسی ایسی ایجادات کیں جس نے آئندہ آنے والی نسلوں کا دھارا ہی بدل ڈالا ۔ آئن سائنسدان جس نے جس نے انسان کو نظریہ اضافت دیا اور لوئس پاسچر جیسا عظیم کیمیا دان اور ماہر حیاتیات جس نے ویکسین تیار کی ۔ ہوئی جہاز بنانے والے ’’ رائٹ برادران‘‘ پھاپ انجن بنانے والا’’ جیمز واٹ‘‘ ٹیلیفون کا موجود ’’ بیل‘‘ بلب کا موجد ’’ ایڈیسن‘‘ ریڈیو کو موجود ’’ مارکونی ‘‘ وہ کو ئی مسلمان نہیں تھے مگر ان تمام لوگوں نے انسان کی زندگی کو آسان بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے کیا خدا تعالیٰ ان لوگوں کے اتنے بڑے بڑے کا رنامے اس لئے قبول نہیں کرے گا کہ وہ مسلمان نہیں تھے عیسائی تھے ؟

خدا تعالیٰ نے ہم سب کو ایک وجود سے بنایا ہے اور ہمیں ایک جیسا بنایا ہے اور اس کے فرستادے بھی ہمیں اسی بات کا درس دیتے رہے ہیں اور کہ ہم سب انسان ہیں اور ہم سب کو آپس میں محبت سے الفت سے رہنا ہے تو ہم انسان کو فرقوں مسلکوں میں کیوں تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اگر ان تقسیموں کہ ضرورت ہوتی تو خدا تعالیٰ یہودیوں کا ڈی، این، اے ایک جیسا مسلمانوں کا یک جیسا اور ہندؤں کو یک جیسا بنا دیتا مگر اس نے ایسا نہ کیا ہے ہے تو ہم کون ہیں ایسا کرنے والے؟

دنیا میں اس وقت میڈیکل سائنس اتنی ترقی کر گئی ہے مگر آپ کسی بھی بڑے سے بڑے ماہرِ حیاتیات سے کہیں کہ وہ انسانی جسم کا بلحاظ مذہب ، نسل، یا قوم فرق واضع کردے تو وہ ایسا نہیں کر سکے گا ۔ خدا نے کسی میں کوئی تفریق نہیں کی ہے سب کے سب انسان برابر ہیں اور ایک ہی نسل سے اور ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں ۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم توڑنے کے کام نا کریں بلکہ ایک دوسرے کو جوڑیں اور نفرتوں کے سفیر نا بنیں بلکہ محبتوں کے سفیر ہوں اور ہمارا سب کا ایک ہی نعرہ ہو ’’انسانیت زندہ باد‘‘ خدا ہم کو انسان کا مقام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور جس دن ہم انسان کا مقام سمجھ گئے تو ہم اپنے معاشرے کو جنت نظیر بنا نے میں کا میاب ہو جائیں گے۔
یہی ہے عبادت یہی دین و ایمان
کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انسان
Nadeem Ahmed Farrukh
About the Author: Nadeem Ahmed Farrukh Read More Articles by Nadeem Ahmed Farrukh: 33 Articles with 28076 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.