مظلوم اور ظالم کی تفریق کیسے ہو ؟
(Sajid Hussain Shah, Riyadh)
ظلم کے معنی ہیں اند ھیرا ،نا
انصا فی ،نا حق دوسروں کے حقوق کی پا ما لی،بے ایمانی اور اسکے علاوہ لا
تعداد معنی جو نا پسندیدگی کے انداز میں بیان کیے جا سکتے ہیں،اگر آ پ
دوسروں پر ظلم کر نے کی طاقت رکھتے ہیں تو یہ بات زہن نشین کر لیں کہ اﷲ آپ
پر کتنی قدرت رکھتا ہے آپ کی طا قت تو شا ید عا رضی اور ختم ہو نے والی ہے
لیکن اﷲ سبحان و تعا لیٰ کی قدرت ہمیشہ قا ئم رہنے والی ہے،جیساکہ قرآ ن پا
ک میں اﷲ تعا لیٰ کا ارشاد پا ک ہے کہ بے شک اﷲ تعا لیٰ ایک ذرہ برابر ظلم
نہیں کر تا اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنی کر دیتا ہے اور خا ص اپنے پا س سے
بہت بڑا ثواب دیتا ہے ( سورۃ النساء آیت ۴۰ ) ۔ ہمارے معا شرے میں ظلم کا
اندھیرا بڑھتا ہی جا رہا ہے اور ہم روشنی کی طلب میں ظلم کے آ گے سر خم کیے
ہو ئے ہیں ان اندھیروں کو اپنی زند گی کا حصہ بنا نے کے بجا ئے ہمیں امن کے
چراغ جلا نے ہوں گے ہر کسی کو اپنا اپنا حصہ اس کا ر خیر میں ادا کر نا ہے
یہ قدرت خدا وندی ہے کہ ظلم جب بھی اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو خود ہی ختم
ہو جا تا ہے مظلوم کا اپنے اوپر ہو نے والے ظلم کے آ گے ڈٹ جا نے کی سمجھ
تو آ تی ہے اور اگرمظلوم بھی ظا لم بن جا ئے، تو ظالم اور مظلوم میں تفریق
کیسے کی جا ئے۔ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ کسی دوسرے پر ظلم کر کے
اپنے غم و غصے کی آ گ ٹھنڈی کر نا انسا نیت کا اختتام ہے ،انسا نیت وہ رشتہ
ہے جس کے ریشوں نے مختلف مذا ہب کے لوگوں کو ایک دریچے پر اکٹھا کیا ہوا ہے
اگر اس رشتے سے منہ موڑ لیا جا ئے تو دنیا میں کہیں امن قا ئم رکھنا نا
ممکن ہے یا یوں کہیے دنیا ایسا عجیب و غریب سیا رہ بن جا ئے گا جہاں بسنے
والے درندے حوس کی بھوک کے لیے اپنے ہی چا ہنے والوں کو ہڑپ کر جانے میں تا
خیر نہیں کر یں گے۔ پا کستان میں ظلم کا یہ گھناؤنا کھیل کھیلنے والے یہ
لوگ جن کی خواہشات کا چولہ لپیٹے ہو ئے ہیں انکی پا نچ ہزار سا لہ تا ریخ
امن وانصاف کے بجا ئے ظلم و جبر سے بھری پڑی ہے ،انہوں نے اپنے بڑوں
اورراجہ مہاراجوں کو ظلم کر تے ہی پایاہے اسلیے انھیں ظلم پرست قرار دینا
درست ہو گا۔
پندرہ ما رچ کی صبح لا ہور سے ملحقہ علاقے یو حنا آبا د میں درندگی کی ایک
اور مثال رقم کی گئی جب بے گناہ،معصوم اور مظلوم لوگ چرچ میں اپنی عبادت
میں مصروف تھے تو دو خود کش حملہ آوروں نے خو د کو دھما کے سے اڑا دیا اس
واقعے میں پندرہ لوگ لقمہء اجل بنے۔اس واقعے کی ذمے داری تحریک طا لبان پا
کستان نے قبول کر لی ہسپتا لوں کے با ہر دل لرزاہ دینے والے منا ظر دیکھنے
میں آ ئے اس واقعے نے پوری پاکستانی قوم کو سو گ وار کر دیا پوری قوم نے
مسیح برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کا مظا ہرہ کیا ،وزیر اعظم پا کستان نے
اس حملے کو ریا ست پر حملہ قرار دیا مگر کچھ سا زشی عنا صر اسے اقلیت کے
حقوق کی پا مالی سے منسلک کر رہے ہیں ۔پا کستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں
کو ہمیشہ اعلیٰ قدر و نگاہ سے نوازا گیا ہے اور انھیں وہی حقوق میسر ہیں جو
عام پا کستانی مسلم کوحا صل ہیں،زندگی کے ہر میدان میں برابری کو مد نظر
رکھا جا تا ہے ۔دنیا میں بہت سے ممالک اپنی اقلیتوں کو بنیا دی حقوق سے
محروم رکھتے ہیں لیکن بحیثیت پا کستانی ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ پا کستان
میں بسنے والے تمام اقلیتی برادری کو برابری کا درجہ حا صل ہے ،دہشت گردی
کا سا منا تو پوری پاکستانی عوام پچھلے کئی سا لوں سے کر رہی ہے اور میں
بارہا کہہ چکا ہوں کہ ان دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں انکے لیے حملے کی
جگہ یا شکار ہونے والے لوگوں کا مذہب یا کسی فر قے سے تعلق کوئی اہمیت نہیں
رکھتا انھیں تو بس انسانی خون درکار ہے جو پا کستانی امن کو داغدار کر
سکے۔اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جا ئے کم ہے کیونکہ جن قیمتی جا نوں کا
ضیا ع ہوا ہے اسکی کمی کو پورا نہیں کیا جا سکتا ،مگر اس واقعے کے رد عمل
کے سلسلے میں جو کچھ ہوا وہ بھی قابل مذمت ہے دو افراد کو صرف شک کی بنا پر
تشدد کا نشا نہ بنا یا گیا اور پھر تیل چھڑک کر جلا دیا گیا ، اگرچرچ پر
حملہ آور دہشت گردوں نے انسانیت کو جلایا ہے تو ان لوگوں کو کیا لقب دیں
جنہوں نے سرعام دو لوگوں پر تشدد کر کے جلا دیاجن کے با رے میں اس وقت کچھ
بھی کہنا قبل از وقت ہو گا ،اگر وہ حضرات مشکوک تھے تو ان سے بہت سا ری
معلومات اکٹھی کی جا سکتی تھیں اور اگر وہ بے گنا ہ تھے تو ما رنے والوں نے
بھی اُسی درند گی کا مظا ہرہ کیا جس کا مظا ہرہ دہشت گرد کر چکے تھے،اب ظا
لم کو مظلوم کہیں یا مظلوم کو ظا لم سمجھ سے با لا لا تر ہے۔اس سانحے کے
بعد بہت سے نو عمر نو جوان سڑکوں پر توڑ پھوڑ کرتے نظر آئے ،میٹرو بس سے لے
کر ٹریفک سگنل توڑنے تک انہوں نے کوئی کسر با قی نہ چھوڑی، جو ہاتھ آیا لے
کر رفو چکر ہو گئے ۔کیا ان تمام اعمال سے ہم دہشت گردوں کے عزائم کو تقویت
نہیں بخش رہے ہم تو وہی کر رہے ہیں جو ہمارا دشمن چا ہ رہا ہے کیو نکہ دہشت
گردی کا مقصد ہی ما حول میں افرا تفری پھیلانا ہے اسمیں تو کو ئی شک نہیں
کہ عوام کے دلوں میں پو لیس پر اعتماد کے دروازے بند ہیں اور یہ سب اسی کا
رد عمل ہے، ہماری حکومت نا دہشت گردی پر قا بو پا سکی اور نہ ہی اسکے نتیجے
میں ہونے والے رد عمل کو روک سکی۔پولیس کی بھا ری نفری کی مو جو دگی میں دو
افراد کو زندہ جلا دیا گیا اور ہمارے نو جوان توڑ پھوڑ کر کے لطف اندوز ہو
تے رہے مگر ہما ری پو لیس بے بسی کی تصویر بنی رہی۔
ہمیں ان پولیس شہداء کو خراج تحسین پیش کرنا چا ہیے جنہوں نے خود کش بمبار
کو چرچ میں داخل ہونے نہیں دیا اور درخواست ہے ان حضرات سے کہ اپنے اس فعل
پر ضرور نظر ثانی کر یں جنہوں نے زخمی پولیس اہلکاروں کو بھی نہیں
بخشا۔حکومت پاکستان پر لا زم ہے کہ وہ ایسی اقلیتی عبادت گاہوں پر سیکیورٹی
مزید سخت کرے تا کہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہو سکیں لیکن اسکے ساتھ ان
لوگوں کو بھی قا نون کے دائرے میں لا یا جا ئے جو ڈنڈے تھا مے سڑکوں پر خود
ہی منصف بن بیٹھے۔
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی نا خوش
میں زہرِ ہلا ہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند |
|