آخری مہمان
(Ahmed Raza Mian, Lahore)
حاجی صاحب بڑے عبادت گذار آدمی
ہیں۔ با جماعت نماز پڑھنا اُن کی عادت میں شامل ہیں۔ نفل و نوافل بھی
باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ وہ اپنے علاقے کی بہت بڑی اور با عزت ہستی ہیں۔
لوگ اُن کی شرافت ، دیانت اور ایمان داری کی گواہی دیتے ہیں۔ حاجی صاحب
اپنے گلی، محلے اور ارددگرد کے لوگوں کے معاملات کو سلجھانے میں منصفی کا
کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ محلے کی جامع مسجد کی انتظا می کمیٹی کے عہدہ دار
بھی ہیں۔انہوں نے اپنی زندگی شریعت کے عین مطابق گذارنے کی کوشش کی ہے۔ اور
بڑی حد تک وہ اپنے ارادوں پر قائم بھی رہتے ہیں۔ اور اپنی اولاد کو بھی اس
کی ترغیب دی ہے۔ اﷲ نے انہیں بہت رزق دیا ہے ۔ اور رزق میں برکت بھی ڈالی
ہے۔ اس لیے وہ اپنی نیک کمائی میں سے گاہے بگاہے صدقہ خیرات کرتے رہتے ہیں۔
دور دور سے حاجت مند لوگ اُن سے مدد حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ اُن کے
دروازے پر آیا ہوا سوالی کبھی خالی ہاتھ جاتا دکھائی نہیں دیا۔
حاجی صاب ہر مہینے گھرمیں محفل بھی منعقد کرتے ہیں۔ جس میں نامی گرامی نعت
خواں اور دیگر علما کرام شرکت فرما کر محفل کی رونق کو دوبالا کرتے
ہیں۔محفل کے اختتام پر حاضرین کی تواضع بھی کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ پچھلے کئی
سالوں سے جاری ہے۔ حاجی صاحب کا اس بات پر کامل ایمان ہے کہ اﷲ کے دیے ہوئے
رزق میں سے اُس کی مخلوق کے اوپر خرچ کرنے سے رزق میں مزید اضافہ ہوتاہے۔
حاجی صاحب ایک بارعب لیکن انتہائی سادہ انسان ہیں۔ تکبر نام کی شے اُن کی
شخصیت سے کوسوں دور ہے۔وہ لوگوں سے محبت کرنے والے انسان ہیں۔ اس لیے لوگ
بھی اُن سے محبت کرتے ہیں۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے موقع پر اُن کی
موجودگی اُن سے محبت کرنے والے اپنے لیے فخر سمجھتے ہیں۔حاجی صاحب نے بھی
آج تک کسی کو مایوس نہیں کیا ۔ وہ اپنی کاروباری مصروفیات میں سے قیمتی وقت
نکال کر تقریب میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر نہ پہنچ سکیں تو معذرت ضرو
رکر لیتے ہیں۔ وہ نہ تو کسی کا دل توڑتے ہیں اور نہ ہی کسی کو ناراض کرتے
ہیں۔
ہر ماہ رمضان کی طرح اس رمضان میں بھی حاجی صاحب نے افطاری کروانے کا بڑا
شاندار انتظام کیا ہے۔ علاقے کے معزز اور بڑے بڑے کاروباری لوگ اُن کے گھر
کے لان میں جمع ہیں۔ ان معزز مہمانوں میں کچھ سیاسی لوگ بھی شامل ہیں۔ اس
تقریب کو دو حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔ ایک حصہ خاص مہمانوں کے لیے جبکہ
دوسرا حصہ عام لوگوں کے لیے مختص ہے۔شہر کے مشہور ترین باورچی کی نگرانی
میں طرح طرح کے کھانے تیا رہو رہے ہیں۔مہمانوں کی آمد کا سلسلہ ابھی تک
جاری ہے۔ حاجی صاحب بذات خود گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر مہمانوں کا
استقبال کر رہے ہیں۔ مہمانوں کو اُن کی حیثیت کے مطا بق عزت دی جا رہی ہے۔
حاجی صاحب عام لوگوں سے صرف مصافہ ہی کرتے ہیں جبکہ خاص لوگوں سے معانقہ
بھی کر لیتے ہیں ۔ افطاری کی اس شاندار تقریب میں پانچ سو سے چھ سو مہمانوں
کا انتظام کیا گیا ہے۔روزہ افطار ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے۔ ذکر
واذکار کا سلسلہ شروع ہے۔ اس محفل میں خاص طور پر بلائے جانے والے مشہور
نعت خواں نے ہدیہ نعت رسول ﷺ پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔نعت خوانی کے بعد
جامع مسجد کے امام صاحب چند منٹوں کے لیے روزے کی فضیلت اور افطاری کے ثواب
پر اپنے خیالات کا اظہار فرما رہے ہیں۔ تاکہ مسلمانوں میں جذبہ ایمانی
بیدار ہو سکے اور وہ روزے کی عبادت اور روزہ دار کا روزہ افطار کرانے کی
اہمیت کو سمجھ سکیں۔
جون جوں افطاری کا وقت قریب آتا جا رہا ہے مہمانوں کی بے چینی میں اضافہ ہو
رہا ہے۔ روزہ افطار ہونے میں ابھی چند منٹ باقی ہیں۔ امام صاحب اپنا وعظ
مکمل کر چکے ہیں۔ اب دعا کا وقت ہے۔ امام صاحب کی تقلید میں سب حاضرین کے
ہاتھ رب کے حضور اُٹھ چکے ہیں۔ دعا کا آغاز حضور نبی کریم ﷺ پردرود شریف سے
ہو چکا ہے۔ اس کے بعد حاجی صاحب کی صحت، عمر درازی اور رزق میں برکت کی دعا
کی جا رہی ہے۔حاجی صاحب ابھی تک دروازے پر کھڑے آخری مہمان کا انتظار کر ہے
ہیں۔ اُن کے ہاتھ بھی دعا کے لیے اُٹھے ہوئے ہیں ۔ لب مسلسل ہل رہے ہیں اور
آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ وہ وقفے وقفے سے گلی کے دونوں طرف دیکھ لیتے ہیں
تاکہ آنے والے آخری مہمان کا بھی استقبال کیا جا سکے۔افطاری سے پانچ منٹ
پہلے امام صاحب اپنی دعا مکمل کر چکے ہیں۔ تمام میزوں پر کھانا رکھ دیا گیا
ہے۔ رنگ برنگے ، لذیز اور خوشبودار کھانوں کی مہک بھوک سے نڈھال روزہ داروں
کے دماغ کو شل کر رہی ہے۔ ہر کسی کی کوشش ہے کہ اُس کے سامنے زیادہ سے
کھانے اور پینے کا سامان موجود رہے۔ تاکہ وہ جی بھی کر کھا سکے۔ ان میں بہت
سے مہمان ایسے بھی ہیں جو سارا سال اس افطاری کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
مہمانوں کی نظریں کھانے پر جمی ہیں جبکہ حاجی صاحب کی نظریں گلی میں۔
افطاری میں تقریباً آخری منٹ باقی ہے۔ امام صاحب نے ایک دفعہ پھر با آواز
بلند روزہ افطار کی دعا دوھرائی ہے۔ تا کہ جو روزہ دار پہلے نہیں پڑھ سکا
وہ بھی پڑھ لے اور ثواب میں شامل ہو جائے۔ حاجی صاحب گلی کے دونوں جانب
آخری نظر دوڑاتے ہیں اور دروازہ بند کر کے مڑنے ہی والے ہیں کہ میلے کچیلے
کپڑوں میں تین بچے وہاں آن موجود ہوتے ہیں۔یوں لگ رہا ہے کہ وہ ابھی ابھی
کیچڑ اور مٹی سے نہا کر آئے ہیں۔ تینوں کے پاؤں جوتیوں سے بے نیاز ہیں۔کپڑے
اتنے پرانے ہیں کہ جگہ جگہ سے پھٹ چکے ہیں۔یہ بچے جانے کون ہیں اور کہاں سے
آئے ہیں۔ یہ سوچ کر حاجی صاحب نے انہیں حقارت سے دیکھا اور گرج دار آواز
میں بولے۔ اؤے دفع ہو جاؤ یہاں سے۔
|
|