قومی تشخص

محترم و مکرم السلام علیکم

انسان کی پہچان ضروری ہے۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے انسانی تخلیق نفسِ واحدہ سے بتائی۔ پھرمختلف شکلیں، صورتیں، رنگ اور زبانیں عطا فرمائیں۔ انہیں روئے زمین پر پھیلایاتو انسان کی طرز معاشرت، خوراک ، لباس اوررہن سہن میں مغائرت ہوئی۔یہ مغائرت مختلف موسمی کیفیات کی وجہ سے ہوئی۔ انسانی تربیت کے لیئے اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی اور رسول بھیجے ۔ جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علوم اور ودیعت کردہ اوصاف سے انسان کو عمدہ طرز معاشرت ، خوراک، لباس اور رہن سہن کے طریقے بتائے۔ باہمی رشتوں اور حقوق کی اہمیت سے آگاہ فرمایا۔ جب شیطان نے انسانوں کو اپنے رب کا باغی بنایا تو راہیں جدا ہوگئیں۔ اب دو قومیں بن گئیں ایک رحمانی اور دوسری شیطانی۔ یعنی مسلم اور کافر۔ تو دو قومی نظریہ نے جنم لے لیا۔ پھر ایک طویل عرصہ تک دونوں قوتوں کا ٹکراؤ رہا۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نوع انسانی کی فلاح کے لیئے نبی اور رسول بھیجتا رہا۔ شیطان نے انسان کو حرام و حلال کی تمیز سے بالا تر کردیا، بے حیائی اور ظلم و تعدی ، غیراﷲ کی پرستش، بت گری و بت پرستی غرضیکہ وہ تمام افعال جو معراج انسانیت کے خلاف تھے ،انسان کو سکھا دیئے اور اس طرح روئے زمین پر شیطان نے بھی اپنا قدم جمالیا ۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم اﷲ تعالیٰ سے ڈروگے تو وہ تم کو فرقان عطافرمائے گا۔ جس کے نتیجے میں تمہارے گناہوں کو مٹائے گا اور تمہیں بخش دے گا۔ اﷲ تعالیٰ فرقان عطا فرمائے گا۔ فرقان علم و حکمت کا وہ خزانہ ہے کہ جس کے لیئے کسی جدوجہد یا طویل عرصہ حصول علم ظاہری کی ضرورت نہیں۔ بس تقویٰ یعنی اﷲ سے ہر وقت ڈرتے رہنا۔ فرقان وہ قوت ہے کہ انسان منشائے الہی اور تعلیم رسول کے مطابق حرام وحلال کی تمیز کر لیتا ہے، حتیٰ کے اسکے سامنے جب کھانا آئے تو اسے پتہ چل جاتا ہے کہ آیا یہ حرام ہے یا حلال، چلتے پھرتے شریعت کی پابندی کرتا ہے۔ اسکا عمل اس کے باعمل مسلمان کا تشخص فراہم کرتا ہے اور دوسرے انسانون میں وہ ممتاز رہتا ہے۔ یہی وہ زیور ہے جس کوآراستہ کرنے کے لیئے ختم المرسلین ﷺ تشریف لائے ۔ اﷲ کیفرمانبردار بندوں کی شناخت قائم فرمائی۔ میں لکھنا چاہتا ہوں ان پہلوؤں کو جو کسی انسان کی شناخت ہوتے ہیں۔ مگرکیا کیا لکھوں ؟ آفاقی دفتر کی ضرورت ہے۔کون لکھے گا؟ ہم انسان تو بے مایہ ہیں، ہم میں کہاں صلاحیت اور کہاں قوت؟ اچھا بحر بیکراں میں قطرہ ڈال دینے سے بحر بیکراں کی وسعت و گہرائی میں توکوئی اضافہ ممکن نہیں البتہ اس قطرے کی اہمیت اور اس کا تشخص بڑھ جاتا ہے کہ میں بھی اس عظیم الشان بحربیکراں کا جزو ہوں ۔ یہ ایسا ہی جیسا کہ میں لکھنے والاسرور عالمین خاتم الانبیاء والمرسلین ﷺ کی ایسی امت کا فرد حقیر ہوں کہ جس کے تعدد و شما رکو خالق ہی جانتا ہے۔ کسی کام کا نہیں۔ دیکھتا ہوں کہ میں کس صف میں ہوں تو 1436 ہجری کی صفیں دیکھ کر پریشان ہوں لیکن جب فرمان جاں آفریں یاد آتا ہے کہ کسی امتی کے اعمال ہم سے پوشیدہ نہیں ۔ جب درود شریف کی بات آتی ہے تو تسکین قلب سے سرشار ہوتا ہوں کہ محبت سے پڑھنے والوں کے درود شریف کو آقا کریم ﷺ خود سنتے ہیں اور جواب بھی عنائت فرماتے ہیں۔ پھر میرے تشخص کو سہارا ملتاہے۔ اب تھوڑا سا حصہ ڈالتا ہوں کہ مسلم تشخص کا پہلا مقام ہے دین پر ثابت قدمی۔ جب اﷲ کی توحید اور رسالت سیدالمرسلین ﷺ کا اقرار کیا تو پھر بلال حبشی رضی اﷲ عنہ کو امام بناتے ہوئے اس پر ثابت قدم ہوناہے۔ تشخص کی اگلی منزل ہے صدق و دیانت۔ کہ جانی و ایمانی دشمن بھی کہے کہ ہاں تم صادق و امین ہو۔ سچائی اور امانت میں دیانتداری مومن کا تشخص ہے۔ اﷲ کی رضا کے لیئے وطن مالوف اور اثاثوں کو ترک کرنا ، جذبہ ایثار کہ اپنے مسلمان بھائی کی ضروریات کو اپنی ذات پر ترجیح دینا، جو چیز اپنی ذات کے لیئے پسند ہو وہ اپنے مسلمان بھائی کو دینا، اپنے مسلمان بھائی کی تکلیف پر بے چین ہوکر اسے سکھ پہنچانا ، جاں بلب ہوتے ہوئے اپنے پیاسے مسلمان بھائی کو پانی دینا، انتہائی بھوک میں کھانا خود نہ کھانا بلکہ اپنے مسلمان بھائی کو دینا، کھانا کم ہونے کی صورت میں بتی بجھا کر اپنے مہمان کے ساتھ شریک طعام ہونا اور خود نہ کھانا۔ قحط اور مشکل حالات میں عوام الناس کے لیئے بے تحاشا مفت میں غلہ کے گودام لٹا دینا۔یہ بھی مسلم تشخص ہے۔ صدقات واجبہ کے علاوہ بھی اپنا مال مسلمانوں کو انکی حاجات پوری کرنے کے لیئے دینا بھی مسلم تشخص ہے۔ اسپ اقتدار پر سوار مفلوک الحال حاجت مندوں کی تلاش مسلم حکمران کا تشخص ہے۔ جب اشیاء ضروریہ کی تنگی ہوتو مسلم تاجر اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے سستے داموں مسلمانوں کو چیزیں فروخت کرتا ہے۔حکم ہوا کہ لوگوں سے اچھی طرح بات کرو۔ اﷲ کے رسول ﷺ نے محفل سے اٹھ کر ایک لونڈی کی بات
کافی دیر تک سنی۔ کسی کو حقیر نہ جاننا اور یکساں اہمیت دینایہی مسلم تشخص ہے۔ مسلم عورت کو حکم ہوا کہ وہ اپنا تشخص چہرے پر نقاب کرکے، آہستہ بات کرکے، بے حیائی اور بیہودہ باتوں سے پرہیز کرکے قائم رکھے ۔ گھروں میں قرآن پاک کی تلاوت کریں۔ آرائش و زیبائش کرکے باہر نہ نکلیں۔ تاکہ پہچانی جائیں کہ یہ شریف عورتیں ہیں۔ اب کچھ بات کروں گا زبان کی تو اس میں ہمارا اول تشخص تو عربی زبان سے ہے کیونکہ اﷲ، رسول ﷺ اور قرآن کی زبان عربی ہے۔ یہ زبانوں کی ملکہ زبان ہے۔ اس کا طرز تحریر سیدھا ہے یعنی دائیں سے بائیں۔ کچھ اور زبانیں ہیں کہ جو اسکی پیروکار ہیں مثلافارسی، بلوچی، سندھی، پشتو، پنجابی اور اردووغیرہ۔ یہ زبانیں انہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں کہ جہاں اﷲ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی اور رسول آئے۔ زبان فقط تعلیم دینے اور بات کو سمجھانے کے لیئے ہے۔ عربی زبان کو فوقیت ضرور ہے مگر وہ ایک زبان، ادب اور خزائن علوم و عرفان کی بنا پر۔اﷲ کے آخری رسول ﷺ جہاں عظیم انقلاب لائے وہیں اس زبان میں انقلاب لائے اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی لغت کو تبدیل فرمایا۔ یہی وجہ ہے اکثر ارشادات پر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم آپ ﷺ سے عربی الفاظ اور محاوروں کی تشریح و مطالب و معانی کے بارے استفسار کرتے تھے۔ جہاں دین محکم آیا زبان بھی محکم دی۔ بلاشبہ اس سے قبل اہل عرب فصاحت و بلاغت کے امام سمجھے جاتے تھے۔ عربی ادب کا بڑا سرمایہ انکے پاس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کی زبان پر ہزاروں اشعار ہوتے تھے، بروقت کسی کی منقبت یاہجو کرنا اہل عرب کی عادت تھی۔ مگر جب قرآ ن سنا تو دنگ رہ گئے۔ اسکے آگے ہتھیار ڈال دیئے ۔ عربی قواعد و ضوابط کی زبان ہے۔ چودہ صیغے رکھتی ہے۔ اسکے قواعد وضوابط یعنی صرف و نحوایک بڑا علم ہے جو اہل زبان نہ جانتے تھے۔ سیدنا علی مرتضے کرم اﷲ وجھہ نے عربی گرامر و کمپوزیشن ایجاد فرمائی۔ یہ کوئی معمولی کام نہ تھا۔ مکہ معظمہ میں کوئی ایسا مدرسہ نہ تھا ۔ اس کا وجود ہی نہ تھا۔ یہ علم عالم ماکان ومایکون اﷲ کے رسول ﷺ نے عطا فرمایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی (کرم اﷲ وجھہ) اس کا دروازہ ہیں۔مسلمان دنیا میں جہاں بھی گئے وہاں عربی زبان سرکاری زبان رہی اور عوام نے اپنی مقامی زبانوں کو چھوڑ عربی زبان کو اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج افریقی مسلم ممالک اپنے آپکو عربی کہلاتے ہیں اور وہاں عربی زبان نافذ ہے۔ اب میں ذرا مشرق کی طرف جاتا ہوں ۔ ایران کی فتح کے بعد سرکاری زبان تو عربی ہی رہی لیکن اسکی پیروکار فارسی بھی پیچھے نہ رہی۔ تو اس طرح عربی کے بعد فارسی نے اسلام اپنایااور اسلام کی تبلیغ میں فارسی کی خدمات عربی کے شانہ بشانہ ہیں۔ جب برصغیر میں مسلمان آئے تو علاقائی زبانوں پر اسکے اثرات پڑے اور ان میں فارسی و عربی دونوں زبانوں نے اپنا حصہ ڈالاجب فتوحات اسلامیہ کا دائرہ وسیع ہوا اور کئی علاقائی زبانوں والے مسلمان اکھٹے ہوئے تو رابطہ افہام و تفہیم کے لیئے ایک مرکب زبان تشکیل دی گئی جسمیں عربی، فارسی اور ہندی یا کچھ دوسرے مصالحہ جات تھے۔ چونکہ یہ زبان مجاہدین کے لشکروں میں ایجاد ہوئی تو اسے اردو یعنی لشکری زبان کا نام دیا گیا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس زبان نے رنگ روپ نکھارنا شروع کیااور ارتقائی منازل طے کرنے لگی۔ چونکہ مجاہدین اسلام کی گود میں پلی تھی تو ہندوؤں نے اسے مسلمانوں کی زبان قرار دیدیا۔

برصغیر میں مسلم دورحکومت میں فارسی ایوانہائے اقتدار میں ملکہ تھی۔ امور سلطنت ،مالیات، اراضی کے ریکارڈ آج بھی بتاتے ہیں کہ فارسی زبان نافذتھی۔ انگریز کے غاصبانہ قبضے کے بعد انگریز نے مستقبل میں اس ملک کو غلام رکھنے کے لیئے انگریزی کی ترویج کی، حکومتی زبان انگریز ی قرار پائی، ذریعہ تعلیم انگریزی نافذ کیا۔ مسلم تشخص نام کی کوئی چیز باقی نہ رہنے دی۔ لیکن مسلمان کب خاموش رہنے والاہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی رابطہ زبان اردو باقی تھی اسے بھی مٹانے کے لیئے ہندو میدان میں اترے کہ یہاں ہندی چلے گی اردوکو مسلمانوں کی زبان قرار دیتے ہوئے اس کو سرے سے ختم کرنے کی جدوجہد کی۔ ہندی اردو فسادات ہوئے بے شمار مسلمان شہید ہوئے اور ہندو بھی واصل جہنم ہوئے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ زبان پر مرنا کیا شہادت ہے تو میں کہوں گا کہ ہاں جب بات مسلم تشخص کی آئی اور اردو کو مسلمانوں کی زبان کہ کر فسادات شروع کیئے تو مسلمانوں کی شناخت اردوزبان بنی ۔ کیونکہ یہی ہماری رابطہ زبان تھی۔ حالانکہ کئی ہندو بھی اردو زبان کے ماہر تھے، شعرا اور ادیب بھی تھے۔ جب پاکستان بنا تو ہمارے لیئے آسان زبان اردو ہی تھی۔ اور آئین پاکستان میں جب زبان کی بات آئی تو اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا۔ قومی کا مطلب تو یہ تھا کہ تمام سرکاری و غیرسرکاری کام اردو زبان میں ہوں گے۔ ذریعہ تعلیم اردو ہوگی۔ لیکن پاکستان میں جتنے حکمران آئے وہ انگریز سرکار کے گماشتے رہے ۔ ہمارے اراکین پارلیمنٹ بھی پارٹی پالیسی کے پابند ہوتے ہیں پارٹی لیڈ کی خواہش کے سوا کچھ نہیں بول سکتے ۔ اور پارٹی لیڈر برطانیہ و امریکہ کی خواہشات کا پابند ہوتا ہے۔ میں نے اپنے کئی کالموں میں لکھا کہ سپریم کورٹ ازخود اس آئینی خلاف ورزی کا نوٹس لے کہ اردوآئین پاکستان میں قومی زبان ہے۔ اﷲ کا شکر ہے اب اردو کے دلہن بننے کی خوشخبر ی بھی ایوانہائے عدل و انصاف سے آئی۔ اب عمر رسیدہ پاکستان کے محلات میں اردودلہن کے روپ میں جائے گی۔ ملکہ تو ملکہ ہوتی ہے۔ برطانیہ کی ملکہ ضعیف ہے لیکن عوام تو اسے چاہتے ہیں۔ اور ہم پاکستانی تو اس ملکہ کی انتظار میں67 سالوں سے آنکھیں سفید کررہے تھے۔ یہ بھی اچھا ہے کہ جب ہمارے لیڈران بیرون ملک جائیں گے تو میرے خیال میں وہ قومی لباس میں جائیں گے۔ کیونکہ سوٹ اور ٹائی میں جونا مارکیٹ والے صاب لگتے ہیں۔ عالمی اجتماعات میں اردومیں تقریر کریں گے تو ہم پاکستانیوں کی خوشی کاعالم بھی دیدنی ہوگا۔اگرچہ اردومیں عربی اور فارسی الفاظ کی پریشانی ہوگی لیکن خیراہل مغرب، چین ، جاپان وغیر ہ بھی کونسی عربی فارسی جانتے ہیں،ہمارے صاحب دھواں دھار تقریر کریں گے اور وہ لوگ تو پہلے سے تیار شدہ ترجمہ سنیں گے۔ ہمارے صدر ضیاء الحق مرحوم اقوام متحدہ وغیرہ میں اپنے قومی لباس میں جاتے تھے تو قوم دیکھ کر خوش ہوتی تھی۔ ملک امیر محمد خان مرحوم تو پاکستانیوں کے آئیڈیل ہیں۔ کہ ساری عمر قومی لباس کے علاوہ کوئی لباس زیب تن نہ کیااور اعوانوں کے تشخص کی علامت پگ اور طرہ رکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنے قومی لباسوں میں شیر نظر آتے ہیں جب یہی شیر سوٹ ٹائی پہن لیتے ہیں تو پالتو بھاگڑ بلے نظر آتے ہیں ۔ جب عدالتوں میں اردو چلے گی تہ عوام کو عدالتی کاروائی سمجھ میں آئے گی۔ یہ پوچھنے کی نوبت نہیں آئے گی کہ وکیلوں نے کیا کہا اور ججوں نے کیا کہا۔ جب سڑکوں پر لگے بورڈوں پر اردو نظر آئے گی تو ہمیں احساس ہوگا کہ ہم بھی آزاد قوم ہیں۔ اور اب امید ہے کہ انگریزکی زبان کے ساتھ ساتھ اسکا قانون بھی دفن ہوگا اور ہمارا تشخص اسلام نافذ ہوگا۔

اگر یہاں افواج پاکستان کا اردو اپنائیت کا ذکر نہ کروں ناانصافی ہوگی۔ جہاں بہت عرصہ پہلے لیفٹ رائیٹ ختم ہوگیا دائیں بائیں، ہوشیار، آسان باش وغیرہ نے جگہ لے لی۔ لشکری زبان تھی بے چاری کو سہارا دیا تو لشکروں نے۔ آخر میں عرض کروں گا کہ رمضان المبارک میں ہمارا مسلم تشخص مخلوط ، بے حیائی اور کمرشل محافل سے پاکستان کے ٹی وی چینل برباد کررہے ہیں۔ اس ماہ مبارک میں ہمارا تشخص دیکھنا ہے تو براہ راست مسجد نبوی اور بیت اﷲ شریف کے مناظر دیکھ لیں یا کسی اور مسلم ملک کی رمضان المبارک کی نشریات میں کیا اس قسم کی بیہودگی ہوتی ہے؟ حکومت مساجد کے لاؤڈسپیکر بند کرسکتی ہے تو ٹی وی چینلوں پر ان خرافات اور رمضان المبارک کا تقدس پامال کرنے والے پروگرام بھی بند کراسکتی ہے۔کیونکہ اس سے ہمارا مسلم تشخص مجروح ہورہا ہے۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128128 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More